ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں ابوبکر بن عثمان بن سہل بن حنیف نے خبر دی، انہوں نے کہا میں نے ابوامامہ (سعد بن سہل) سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ہم نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر ہم نکل کر انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا آپ نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ اے مکرم چچا! یہ کون سی نماز آپ نے پڑھی ہے۔ فرمایا کہ عصر کی اور اسی وقت ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی یہ نماز پڑھتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/حدیث: 549]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:549
حدیث حاشیہ: (1) حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کی نماز کے متعلق حضرت انس ؓ نے بایں الفاظ تبصرہ فرمایا ہے کہ میں نے اس نوجوان، یعنی عمر بن عبدالعزیز ؒ کے سوا کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا ہے جس کی نماز رسول اللہ ﷺ کی نماز سے زیادہ مشابہت رکھتی ہو۔ (مسند أحمد: 329/2۔ 330) حدیث میں مذکورہ واقعہ ان کے خلیفہ بننے سے پہلے کا ہے کیونکہ حضرت انس ؓ کے زمانے میں آپ ولید بن عبدالملک کی طرف سے مدینہ کے گورنر تھے اور آپ کے خلیفہ بننے سے پہلے حضرت انس ؓ وفات پا چکے تھے۔ ممکن ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کا نماز ظہر کو مؤخر کرنا کسی عذر کی بنا پرہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امرائے بنو امیہ کی عادت کے مطابق یہ تاخیر ہوئی ہو کیونکہ بنو امیہ کے حکمران نمازوں کو دیر سے پڑھنے کے عادی ہو چکے تھے، لیکن عمر بن عبدالعزیز ؒ کے جذبۂ اتباع سنت کے پیش نظر پہلی وجہ زیادہ قرین قیاس ہے۔ والله أعلم. (2) مذکورہ روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے ساتھ پڑھی گئی نماز ظہر کے فوراً بعد حضرت انس ؓ نے نماز عصر ادا کی، اس سے پتا چلتا ہے کہ آپ نے نماز عصر اول وقت میں ادا کی۔ وهوالمقصود. ایک تفصیل روایت سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے: حضرت علاء بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ہم لوگ ظہرکی نماز سے فارغ ہو کر حضرت انس ؓ سے ملاقات کے لیے ان کے دولت کدے پر حاضر ہوئے۔ اس وقت آپ بصرے میں رہائش پزیر تھےاور ان کا گھر مسجد کے سامنے تھا۔ جب ہم آپ کے پاس گئے تو آپ نے فرمایا: تم نے عصر کی نمازپڑھ لی ہے؟ ہم نے عرض کیا: ابھی تو ہم نماز ظہر سے فارغ ہوئے ہو کر آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اچھا اب تم نماز عصر پڑھ لو، چنانچہ ہم نے عصر کی نماز ادا کی۔ پھر آپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ منافق کی نماز ہے کہ وہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے حتی کہ جب وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان آجاتا ہے تو اٹھ کر چار ٹھونگیں مار لیتا ہے، اس میں اللہ کاذکر برائے نام ہوتاہے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1412(622)(3) نمازِ عصر کے وقت کے متعلق مندرجہ ذیل روایت بھی واضح ہے۔ حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز عصر پڑھائی، نماز سے فراغت کے بعد قبیلۂ بنو سلمہ کا ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ ہمارا ایک اونٹ ذبح کرنے کا پروگرام ہے، ہم چاہتے ہیں کہ آپ بھی اس پروگرام میں شمولیت فرمائیں، چنانچہ ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں وہاں گئے تو اونٹ ابھی ذبح نہیں کیا گیا تھا، اس کے بعد اسے ذبح کیا گیا، اس کا گوشت کاٹ کر پکایا گیا، پھر ہم نے اسے سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے تناول کیا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1414(624) واضح رہے کہ قبیلۂ بنو سلمہ کے گھر مسجد نبوی سے بہت فاصلے پر تھے۔ ایک دفعہ انھوں نے مسجد نبوی کے قریب آنے کی خواہش کا اظہار کیا تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں روک دیا اور فرمایا کہ نماز کےلیے انسان جتنی دور سے چل کرآتا ہے، اسے زیادہ ثواب ملتا ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 656)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 549
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 510
´عصر جلدی پڑھنے کا بیان۔` ابوامامہ بن سہل کہتے ہیں: ہم نے عمر بن عبدالعزیز کے ساتھ ظہر پڑھی پھر ہم نکلے، یہاں تک کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو ہم نے انہیں عصر پڑھتے ہوئے پایا، تو میں نے پوچھا: میرے چچا! آپ نے یہ کون سی نماز پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا: عصر کی، یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے جسے ہم لوگ پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 510]
510 ۔ اردو حاشیہ: خلفائے بنوامیہ ظہر کی نماز عموماً لیٹ پڑھا کرتے تھے حتیٰ کہ آخر وقت آجاتا تھا۔ اس واقعے کے وقت حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ مدینہ منورہ کے گورنر تھے۔ خلفاء کی اتباع میں وہ بھی نماز لیٹ کرتے تھے۔ جب انہیں بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جلدی پڑھا کرتے تھے تو انہوں نے تاخیر چھوڑ دی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 510
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 511
´عصر جلدی پڑھنے کا بیان۔` ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ہم نے عمر بن عبدالعزیز کے عہد میں نماز پڑھی، پھر انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہیں (بھی) نماز پڑھتے ہوئے پایا، جب وہ نماز پڑھ کر پلٹے تو انہوں نے ہم سے پوچھا: تم نماز پڑھ چکے ہو؟ ہم نے کہا: (ہاں) ہم نے ظہر پڑھ لی ہے، انہوں نے کہا: میں نے تو عصر پڑھی ہے، تو لوگوں نے ان سے کہا: آپ نے جلدی پڑھ لی، انہوں نے کہا: میں اسی طرح پڑھتا ہوں جیسے میں نے اپنے اصحاب کو پڑھتے دیکھا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 511]
511 ۔ اردو حاشیہ: ان تمام روایات سے یہ بات صراحتاً معلوم ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز وقت شروع ہوتے ہی پڑھ لیا کرتے تھے۔ اور یہی سنت ہے۔ اگرچہ سورج زرد ہونے سے پہلے پہلے نماز ادا کرنا بلاکراہت جائز ہے مگر اولیٰ نہیں، لہٰذا عصر کی نماز اول وقت میں پڑھنی چاہیے۔ کسی مصروفیت کی بنا پر کبھی کبھار لیٹ ہو تو کوئی حرج نہیں۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 511