ہم سے مطر بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ہارون نے، انہیں عبداللہ بن عون نے خبر دی، انہیں انس بن سیرین نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک لڑکا بیمار تھا۔ ابوطلحہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے کہ بچہ کا انتقال ہو گیا۔ جب وہ (تھکے ماندے) واپس آئے تو پوچھا کہ بچہ کیسا ہے؟ ان کی بیوی ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ وہ پہلے سے زیادہ سکون کے ساتھ ہے پھر بیوی نے ان کے سامنے کھانا رکھا اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کھانا کھایا۔ اس کے بعد انہوں نے ان کے ساتھ ہمبستری کی پھر جب فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا کہ بچہ کو دفن کر دو۔ صبح ہوئی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو واقعہ کی اطلاع دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم نے رات ہمبستری بھی کی تھی؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی ”اے اللہ! ان دونوں کو برکت عطا فرما۔“ پھر ان کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا تو مجھ سے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اسے حفاظت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جاؤ۔ چنانچہ بچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور ام سلیم رضی اللہ عنہا نے بچہ کے ساتھ کچھ کھجوریں بھیجیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ کو لیا اور دریافت فرمایا کہ اس کے ساتھ کوئی چیز بھی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں کھجوریں ہیں۔ آپ نے اسے لے کر چبایا اور پھر اسے اپنے منہ میں نکال کر بچہ کے منہ میں رکھ دیا اور اس سے بچہ کی تحنیک کی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعَقِيقَةِ/حدیث: 5470]
أعرستم الليلة قال نعم قال اللهم بارك لهما فولدت غلاما قال لي أبو طلحة احفظه حتى تأتي به النبي فأتى به النبي وأرسلت معه بتمرات فأخذه النبي فقال أمعه شيء قالوا نعم تمرات فأخذها النبي فمضغها ثم أخذ من فيه فجعلها في في الصبي وحنكه به وسماه عبد الله
أعرستم الليلة قال نعم قال اللهم بارك لهما فولدت غلاما فقال لي أبو طلحة احمله حتى تأتي به النبي فأتى به النبي وبعثت معه بتمرات فأخذه النبي فقال أمعه شيء قالوا نعم تمرات فأخذها النبي
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5470
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے بھی باب کا مضمون بخوبی ثابت ہو گیا۔ نیز صبر و شکر کا بہترین ثمرہ بھی ثابت ہوا۔ تحنیک کے معنی پیچھے گزر چکے ہیں۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا یہ مرنے والا بچہ ابو عمیر نامی تھا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مزاحا ً فرمایا کرتے تھے ''یا أبا عُمیر مَا فَعَلَ النُغیرُ'' اے ابو عمیر! تو نے جو چڑیا پال رکھی ہے وہ کس حال میں ہے۔ اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ ابو طلحہ نے بچہ کے عقیقہ نہیں کیا اور بچے کا اسی دن نام رکھ لیا۔ معلوم ہوا کہ عقیقہ کرنا مستحب ہے، کچھ واجب نہیں۔ (مترجم وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5470
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5470
حدیث حاشیہ: (1) حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوئی۔ اس کے بعد آپ حضرت عبداللہ بن ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ امید سے ہوئیں۔ جب بچے کو جنم دیا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اس بچے کو حفاظت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں جب اسے لے کر آپ کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک حویلی میں تھے۔ آپ نے سیاہ رنگ کی چادر اوڑھ رکھی تھی اور غنیمت کے اونٹوں کو نشان لگا رہے تھے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5824، و فتح الباري: 730/9)(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا شرف قبولیت سے نوازی گئی اور نومولود عبداللہ کی نسل سے دس نیک علماء پیدا ہوئے۔ (عمدة القاري: 466/14)(3) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اس نومولود کا عقیقہ نہیں کیا تھا۔ ایسے حالات میں بچے کا نام ولادت کے دن ہی عبداللہ رکھ دیا گیا، ساتویں دن کا انتظار نہیں کیا گیا۔ (4) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عقیقہ واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ واللہ أعلم۔ (5) امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عقیقے کے متعلق لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ کچھ لوگوں نے اسے واجب کہا جبکہ کچھ حضرات اسے بدعت کہتے ہیں۔ امام ابن منذر نے کہا ہے کہ اصحاب الرائے نے عقیقے کے سنت ہونے کا انکار کیا ہے اور اس سلسلے میں ثابت شدہ احادیث و آثار کی انہوں نے مخالفت کی ہے۔ (فتح الباري: 728/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5470
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6322
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، سیدنا ابوطلحہ ؓ کا ایک بیٹا جو سیدہ ام سلیم ؓ کے بطن سے تھا، فوت ہو گیا۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ جب تک میں خود نہ کہوں ابوطلحہ کو ان کے بیٹے کی خبر نہ کرنا۔ آخر سیدنا ابوطلحہ ؓ آئے تو سیدہ ام سلیم شام کا کھانا سامنے لائیں۔ انہوں نے کھایا اور پیا پھر ام سلیم ؓ نے ان کے لئے اچھی طرح بناؤ اور سنگھار کیا یہاں تک کہ انہوں نے ان سے جماع کیا۔ جب ام سلیم نے دیکھا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6322]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) حتي تلطخت: حتیٰ کہ میں آلودہ ہو گیا، یعنی تعلقات زن و شو قائم کر لیے۔ (2) لايطرقها طروقا: اس میں رات کو داخل نہیں ہوتے تھے، گھر میں بلا اطلاع نہیں آتے تھے۔ (3) ضربها المخاض: اسے دردزہ شروع ہو گیا، بچے کی پیدائش کے اثرات پیدا ہو گئے، ولادت کا درد شروع ہو گیا۔ (4) مااجد الذي كنت اجد: وہ درد جو میں محسوس کر رہی تھی، وہ نہیں ہو رہا۔ (5) يتلمظها: وہ اسے چوسنے لگا۔ فوائد ومسائل: حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا بچہ ابو عمیر، جس سے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ بہت پیار کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے دل لگی اور خوش طبعی کرتے ہوئے فرماتے تھے، اے ابو عمیر، تیری بلبل کا کیا بنا، وہ بیمار ہو گیا اور ایک دن حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی عدم موجودگی میں فوت ہو گیا۔ تو حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے خاوند کی گھر آمد پر انہیں موت سے فوری طور پر آگاہ کرنا مناسب نہ سمجھا اور دوسروں کو بھی اطلاع دینے سے روک دیا اور انہیں نہلا دھلا کر ایک طرف رکھ دیا اور انتہائی صبر و شکیب سے کام لیتے ہوئے، انہیں محسوس نہ ہونے دیا، بلکہ پہلے سے زیادہ بن ٹھن کر انہیں بچے کی بیماری کے زائل ہونے کا قولی اور فعلی طور پر تاثر دیا اور پھر آخر میں انتہائی حکیمانہ انداز میں موت سے آگاہ کیا، اللہ تعالیٰ نے حضرت ام سلیم کے صبر و تحمل اور خاوند کی دلداری کرنے پر اس کی جگہ اور بچہ دیا، جس کا آپ نے پہلے ہی دن نام عبداللہ رکھ دیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6322
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1301
1301. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا:حضرت ابو طلحہ ؓ کا ایک بیٹا بیمارتھا وہ فوت ہو گیا جبکہ حضرت ابوطلحہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھے۔ ان کی بیوی نے بچےکو غسل وکفن دے کر اسے گھر کے ایک گوشے میں رکھ دیا۔ جب حضرت ابوطلحہ ؓ گھر تشریف لائے تو پوچھا:لڑکے کا کیا حال ہے؟ان کی بیوی نے جواب دیا:اسے آرام ہے اور مجھے امید ہے کہ اسے سکون میسر ہوا ہے۔ حضرت ابوطلحہ ؓ نے سمجھا کہ وہ صحیح کہہ رہی ہیں (بچہ اب ٹھیک ہے) پھر وہ رات بھر اپنی بیوی کے پاس رہے اور صبح کو غسل کر کے باہر جانے لگے تو بیوی نے انھیں بتایا کہ لڑکا تو فوت ہو چکا ہے۔ حضرت ابو طلحہ ؓ نے نبی ﷺ کے ہمرا صبح کی نماز ادا کی، پھر رات کے ماجرے کی نبی ﷺ کو خبردی جس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اللہ تعالیٰ تم دونوں میاں بیوی کو تمھاری اس رات میں برکت دے گا۔“ ایک انصاری شخص کا بیان ہے کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1301]
حدیث حاشیہ: حضرت ابو طلحہ ؓ کی نیک ترین صالحہ صابرہ بیوی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ بچے کا انتقال ہوگیا ہے اور اب وہ پورے سکون کے ساتھ لیٹا ہوا ہے۔ لیکن حضرت ابوطلحہ ؓ نے یہ سمجھا کہ بچے کو افاقہ ہوگیا ہے اور اب وہ آرام سے سورہا ہے۔ اس لیے وہ خود بھی آرام سے سوئے‘ ضروریات سے فارغ ہوئے اور بیوی کے ساتھ ہم بستر بھی ہوئے اور اس پر آنحضور ﷺ نے برکت کی بشارت دی۔ یہ کہ ان کے غیر معمولی صبروضبط اور خدا وند تعالیٰ کی حکمت پر کامل یقین کا ثمرہ تھا۔ بیوی کی اس ادا شناسی پر قربان جائیے کہ کس طرح انہوں نے اپنے شوہر کو ایک ذہنی کوفت سے بچالیا۔ محدث علی بن مدینی نے حضرت ابوطلحہ ؓ کے ان نولڑکوں کے نام نقل کئے ہیں جو سب عالم قرآن ہوئے اور اللہ نے ان کو بڑی ترقی بخشی۔ وہ نو بچے یہ تھے۔ اسحاق‘ اسماعیل‘ یعقوب‘ عمیر‘ عمر‘ محمد ‘ عبداللہ‘ زید اور قاسم۔ انتقال کرنے والے بچے کو ابوعمیر کہتے تھے۔ آنحضرت ﷺ اس کو پیار سے فرمایا کرتے تھے ابوعمیر تمہاری نغیر یعنی چڑیا کیسی ہے؟ یہ بچہ بڑا خوبصورت اور وجیہ تھا۔ ابو طلحہ ؓ اس سے بڑی محبت کیا کرتے تھے۔ بچے کی ماں ام سلیم کے استقلال کو دیکھئے کہ منہ پر تیوری نہ آنے دی اور رنج کو ایسا چھپایا کہ ابو طلحہ ؓ سمجھے واقعی بچہ اچھا ہوگیا ہے۔ پھر یہ دیکھئے کہ ام سلیم نے بات بھی ایسی کہی کہ جھوٹ نہ ہو کیونکہ موت درحقیقت راحت ہے۔ وہ معصوم جان تھی اس کے لیے تو مرنا آرام ہی آرام تھا۔ ادھر بیماری کی تکلیف گئی۔ ادھر دنیا کے فکروں سے جو مستقبل میں ہوتے نجات پائی۔ ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کہ ام سلیم نے رنج اور صدمہ کو پی لیا بالکل ظاہر نہ ہونے دیا۔ دوسری روایت میں یوں ہے کہ ام سلیم نے اپنے خاوند سے کہا کہ اگر کچھ لوگ عاریت کی چیزلیں، پھر واپس دینے سے انکار کریں تو کیسا ہے؟ اس پو ابوطلحہ ؓ بولے کہ ہرگز انکار نہ کرنا چاہیے۔ بلکہ عاریت کی چیز واپس کردینا چاہیے، تب ام سلیم نے کہا کہ یہ بچہ بھی اللہ کا تھا۔ آپ کو عاریتہ ملا ہوا تھا‘ اللہ نے اسے لے لیا تو آپ کو رنج نہ کرنا چاہیے۔ اللہ نے ان کو صبرو استقلال کے بدلے نولڑکے عطا کئے جو سب عالم قرآن ہوئے۔ سچ ہے کہ صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1301
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1301
1301. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا:حضرت ابو طلحہ ؓ کا ایک بیٹا بیمارتھا وہ فوت ہو گیا جبکہ حضرت ابوطلحہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھے۔ ان کی بیوی نے بچےکو غسل وکفن دے کر اسے گھر کے ایک گوشے میں رکھ دیا۔ جب حضرت ابوطلحہ ؓ گھر تشریف لائے تو پوچھا:لڑکے کا کیا حال ہے؟ان کی بیوی نے جواب دیا:اسے آرام ہے اور مجھے امید ہے کہ اسے سکون میسر ہوا ہے۔ حضرت ابوطلحہ ؓ نے سمجھا کہ وہ صحیح کہہ رہی ہیں (بچہ اب ٹھیک ہے) پھر وہ رات بھر اپنی بیوی کے پاس رہے اور صبح کو غسل کر کے باہر جانے لگے تو بیوی نے انھیں بتایا کہ لڑکا تو فوت ہو چکا ہے۔ حضرت ابو طلحہ ؓ نے نبی ﷺ کے ہمرا صبح کی نماز ادا کی، پھر رات کے ماجرے کی نبی ﷺ کو خبردی جس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اللہ تعالیٰ تم دونوں میاں بیوی کو تمھاری اس رات میں برکت دے گا۔“ ایک انصاری شخص کا بیان ہے کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1301]
حدیث حاشیہ: (1) یہ حضرت ام سلیم ؓ کے صبر و استقلال اور ان کی کامل تسلیم و رضا کا نتیجہ تھا کہ اس رات حمل ٹھہرنے سے جو بچہ پیدا ہوا اس کی پشت سے نو بچے حافظ قرآن پیدا ہوئے۔ ان کے علاوہ چار صابرہ شاکرہ بیٹیاں بھی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائیں۔ حضرت ابو طلحہ ؓ کے ہاں عبداللہ پیدا ہوئے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے گھٹی دی تھی۔ اور جو بیٹا فوت ہوا اس کا نام ابو عمیر تھا جس نے اپنے گھر میں ایک سرخ بلبل رکھی ہوئی تھی، جب وہ مر گئی تو رسول اللہ ﷺ اسے مذاق کرتے ہوئے کہتے تھے: ”اے ابو عمیر! تیری چڑیا کو کیا ہوا؟“(صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6129)(2) حضرت ام سلیم ؓ نے اپنے بچے کے متعلق لفظ سکون استعمال فرمایا۔ اس سے مراد سکون نفس، یعنی موت تھی، جبکہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے اس سے نفس سکون مراد لیا کہ بچہ بیماری سے نجات پا کر آرام کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بچے کی صورت میں جو انعام دیا وہ صبر کی بدولت تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مصیبت کے وقت رنج و غم کا اظہار نہ کرتے ہوئے اپنے تمام تر معاملات کو اللہ کے حوالے کر دینا عزیمت ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 218/3)(3) قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق ہمیں اپنا رنج و صدمہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہی پیش کرنا چاہیے۔ حضرات انبیائے ؑ کا یہی طریقہ رہا ہے۔ اسے قرآن مجید میں "صبر جمیل" سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت یعقوب ؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے۔ (سورة یوسف: 18/12، 83)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1301
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عدی نے بیان کیا، انہوں نے ابن عون سے، انہوں نے محمد بن سیرین سے، وہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس حدیث کو (مثل سابق) پورے طور پر بیان کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعَقِيقَةِ/حدیث: 5470M]