ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا کہ ہم انس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی روٹی پکانے والا ان کے پاس ہی کھڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کھاؤ۔ میں نہیں جانتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پتلی روٹی (چپاتی) دیکھی ہو۔ یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مسلم بھنی ہوئی بکری دیکھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ/حدیث: 5421]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5421
حدیث حاشیہ: (1) عربوں کے ہاں جو لوگ خوش حال ہوتے وہ بکری کا بچہ لیتے اور اسے ذبح کر کے اندرونی صفائی کے بعد کھال سمیت اسے سخت گرم پانی میں ڈال دیتے۔ جب اس کے بال اتر جاتے تو سالم بچے کو بھون لیتے، پھر مزے سے کھاتے۔ اس کے دو نقصان ہوتے: ایک تو چھوٹے سے ہی کو ذبح کر لیا جاتا، دوسرے اس کی کھال ضائع ہو جاتی۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر اس انداز سے بھنی ہوئی بکری کبھی نہیں دیکھی، نہ آپ نے کھانے کا میز، چھوٹی پیالیاں، باریک پسا ہوا آٹا اور چھنا ہوا آٹا استعمال کیا بلکہ جَو کا بغیر چھنا آٹا ہی بطور خوراک استعمال فرمایا کرتے تھے، لیکن بھنا ہوا شانہ تناول کرنا ثابت ہے جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5421
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3309
´بھنے ہوئے گوشت کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھنی ہوئی بکری دیکھی ہو یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3309]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نبی اکرم ﷺ کھانے میں تکلف سے کام نہیں لیتے تھے۔ جوسادہ کھانا میسر ہوتا تناول فرما لیتے تھے۔
(2) بھنا ہوا گوشت کھانا جائز ہے جیسے حدیث: 3311 میں آرہا ہے۔
(3) شِوَاء سے مراد وہ گوشت ہے جو پتھر وں کو گرم کرکے ان پر رکھا جاتا ہے جس سے وہ بھن کر کھانے کے قابل ہو جاتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3309
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3339
´میدہ کا بیان۔` قتادہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آتے تھے (اسحاق کی روایت میں یہ اضافہ ہے: اس وقت ان کا نان بائی کھڑا ہوتا تھا، اور دارمی نے اس اضافے کے ساتھ روایت کی ہے کہ ان کا دستر خوان لگا ہوتا تھا یعنی تازہ روٹیوں کا کوئی اہتمام نہ ہوتا)، ایک دن انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: کھاؤ، مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی آنکھ سے باریک چپاتی دیکھی بھی ہو، یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے، اور نہ ہی آپ نے کبھی مسلّم بھنی بکری دیکھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3339]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نان بائی باورچی اور دوسرے ملازمین سے خدمت لینا جائز ہے۔
(2) مہمان کے لیے عمدہ چیز تیار کرنا درست ہے جیسے حضرت انس نے آنے والوں کو تازہ پکی ہوئی گرم گرم روٹی پیش کی۔
(3) سالم بکری (سمیط) سے مراد یہ ہے کہ بھیڑیا بکری کو ذبح کرکے گرم پانی کے سا تھ اس کی اون یا اس کے بال اتار دیے جائیں پھر اسے بھونا جائے۔
(4) حضرت انس نے شاگردوں سے یہ بات اس لیے کہی کہ وہ اللہ کی نعمت کا احساس کریں تاکہ دل میں شکر کا جذبہ پیدا ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3339
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6457
6457. حضرت قتادہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت انس بن مالک ؓ کی خدمت میں حاضر ہوتے ان کا نان بائی وہیں موجود ہوتا (جو روٹیاں پکا پکا کردیتا تھا) لیکن حضرت انس ؓ فرماتے: تم کھاؤ، میں نے تو کبھی نبی ﷺ کو باریک چپاتی کھاتے نہیں دیکھا اور نہ آپ نے کبھی اپنی آنکھوں سے بھونی ہوئی بکری ہی دیکھی یہاں تک کہ آپ اللہ کے پاس پہنچ گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6457]
حدیث حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں غزوات، حج وعمرے کے سفروں سمیت دس سال اقامت فرمائی، اس مدت میں آپ کے کھانے پینے کا یہی حال تھا جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ تین دن کبھی سیر ہو کر گندم کی روٹی نہیں کھائی۔ اکثر جو کی روٹی پر گزارا ہوتا، وہ بھی کبھی کبھار ایسا ہوتا بصورت دیگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانی اور کھجوروں پر ہی گزارا کرتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اس سلسلے میں ایک اور روایت بھی مروی ہے، وہ جو کی روٹی اور رنگت بدلی ہوئی چربی لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ آپ کی زرہ مدینہ طیبہ میں ایک یہودی کے پاس گروی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے عوض یہودی سے اپنے اہل خانہ کی گزراوقات کے لیے جو لیے تھے اور آل محمد کے پاس شام کے وقت نہ ایک صاع گندم ہوتی تھی اور نہ ایک صاع کوئی اور غلہ ہی ہوتا تھا جبکہ آپ کی نو ازاوج مطہرات تھیں۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2069)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6457