الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ
کتاب: کھانوں کے بیان میں
6. بَابُ مَنْ أَكَلَ حَتَّى شَبِعَ:
6. باب: پیٹ بھر کر کھانا کھانا درست ہے۔
حدیث نمبر: 5383
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا" تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ شَبِعْنَا مِنَ الْأَسْوَدَيْنِ التَّمْرِ وَالْمَاءِ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم قصاب نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے منصور بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ان کی والدہ (صفیہ بن شبیہ) نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، ان دنوں ہم پانی اور کھجور سے سیر ہو جانے لگے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ/حدیث: 5383]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريتوفي النبي حين شبعنا من الأسودين التمر والماء
   صحيح مسلمتوفي رسول الله وقد شبعنا من الأسودين الماء والتمر
   صحيح مسلمتوفي رسول الله حين شبع الناس من الأسودين التمر والماء

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5383 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5383  
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ شروع زمانہ میں تو غذا کی ایسی قلت تھی کہ کبھی بھی پیٹ بھر کر نہ ملتی، پھر اللہ تعالیٰ نے خیبر فتح کرا دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اس وقت ہوئی کہ ہم کو کھجور با افراط پیٹ بھر کر ملنے لگی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5383   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5383  
حدیث حاشیہ:
(1)
شکم سیری، یعنی پیٹ بھر کے کھانے کا یہ سلسلہ فتح خیبر کے بعد شروع ہوا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب خیبر فتح ہوا تو ہم نے (دل میں)
کہا:
اب ہم کھجوریں پیٹ بھر کے کھائیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے تین سال پہلے خیبر فتح ہوا تھا۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے پیٹ بھر کے کھانا کھانے کے سات مراتب بیان کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ اتنا کھائے جس سے جسم اور روح کا رشتہ قائم رہے۔
٭ پھر اس پر کچھ اضافہ کرے تاکہ نماز روزے کی ادائیگی آسان ہو۔
٭ اس کے بعد مزید کھائے تاکہ نوافل ادا کیے جا سکیں۔
٭ اپنی خوراک میں اتنا اضافہ کرے کہ کمائی کے قابل ہو جائے۔
٭ ایک تہائی پیٹ بھرے ایسا کرنا بھی جائز ہے۔
٭ اتنا کھائے کہ جسم بوجھل اور نیند کا غلبہ ہو جائے، اس طرح پیٹ بھرنا مکروہ ہے۔
٭ اس پر مزید اضافہ کرے حتی کہ معدے پر بوجھ پڑے اور انسان بیمار ہو جائے۔
اس قسم کا پیٹ بھر کر کھانا منع ہے۔
اس سے بچنا چاہیے۔
(فتح الباري: 655/9) (3)
بہرحال ان احادیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے پیٹ بھر کے کھانا کھانے کا جواز ثابت کیا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5383   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7455  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی،جبکہ ہمیں پیٹ بھرنے کے لیے دو سیاہ چیزیں،پانی اورکھجوریں دستیاب تھیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:7455]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپ کے خاندان کو پیٹ بھر کر یہ دونوں چیزیں فتح خیبر کے بعد میسر آگئی تھیں،
لیکن آپ بعض دفعہ اپنی مرضی سے نہیں کھاتے تھے،
(لیکن آپ کو میسر تھیں)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7455   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7455  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی،جبکہ ہمیں پیٹ بھرنے کے لیے دو سیاہ چیزیں،پانی اورکھجوریں دستیاب تھیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:7455]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپ کے خاندان کو پیٹ بھر کر یہ دونوں چیزیں فتح خیبر کے بعد میسر آگئی تھیں،
لیکن آپ بعض دفعہ اپنی مرضی سے نہیں کھاتے تھے،
(لیکن آپ کو میسر تھیں)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7455