دوزخ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ اے میرے رب! (آگ کی شدت کی وجہ سے) میرے بعض حصہ نے بعض حصہ کو کھا لیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی، ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں۔ اب انتہائی سخت گرمی اور سخت سردی جو تم لوگ محسوس کرتے ہو وہ اسی سے پیدا ہوتی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/حدیث: 537]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 537
� تشریح: دوزخ نے حقیقت میں شکوہ کیا، وہ بات کر سکتی ہے جب کہ آیت شریفہ «يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ»[50-ق:30] میں وارد ہے کہ ہم قیامت کے دن دوزخ سے پوچھیں گے کہ کیا تیرا پیٹ بھر گیا، وہ جواب دے گی کہ ابھی تک تو بہت گنجائش باقی ہے۔ «وقال عياض انه الاظهر والله قادر على خلق الحياة بجزءمنها حتي تكلم اويخلق لها كلا مايسمعه من شاءمن خلقه وقال القرطبي لا احالة فى حمل اللفظ على حقيقته واذا اخبر الصادق بامرجائز لم يحتج الي تاويله فحمله على حقيقته اوليٰ۔»[مرعاة المفاتيح، ج 1، ص: 392] یعنی عیاض نے کہا کہ یہی امر ظاہر ہے اللہ پاک قادر ہے کہ دوزخ کو کلام کرنے کی طاقت بخشے اور اپنی مخلوق میں سے جسے چاہے اس کی بات سنا دے۔
قرطبی کہتے ہیں کہ اس امر کو حقیقت پر محمول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اور جب صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک امر جائز کی خبر دی ہے تو اس کی تاویل کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ اس کو حقیقت ہی پر محمول کیا جانا مناسب ہے۔
علامہ شوکانی فرماتے ہیں: «اختلف العلماءفي معناه فقال بعضهم هو على ظاهره وقيل بل هو على وجه التشبيه والاستعارة وتقديره ان شدة الحر تشبه نارجهنم فاحذروه واجتنبوا ضرره قال والاول اظهر و قال النووي هو الصواب لانه ظاهر الحديث ولامانع من حمله على حقيقته فوجب الحكم بانه على ظاهره انتهيٰ۔»[نیل] یعنی اس کے معنے میں بعض اہل علم اس کو اپنے ظاہر پر رکھتے ہیں، بعض کہتے ہیں کہ اس حرارت کو دوزخ کی آگ سے تشبیہ دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اس کے ضرر سے بچو اور اوّل مطلب ہی ظاہر ہے۔ امام نووی کہتے ہیں کہ یہی صواب ہے، اس لیے کہ حدیث ظاہر ہے اور اسے حقیقت پر محمول کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔
حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب فرماتے ہیں کہ دوزخ گرمی میں سانس نکالتی ہے، یعنی دوزخ کی بھاپ اوپر کو نکلتی ہے اور زمین کے رہنے والوں کو لگتی ہے، اس کو سخت گرمی معلوم ہوتی ہے اور جاڑے میں اندر کو سانس لیتی ہے تو اوپر گرمی نہیں محسوس ہوتی، بلکہ زمین کی ذاتی سردی غالب آ کر رہنے والوں کو سردی محسوس ہوتی ہے۔ اس میں کوئی بات عقل سلیم کے خلاف نہیں۔ اور حدیث میں شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ زمین کے اندر دوزخ موجود ہے۔ جیالوجی والے کہتے ہیں کہ تھوڑے فاصلہ پر زمین کے اندر ایسی گرمی ہے کہ وہاں کے تمام عنصر پانی کی طرح پگھلے رہتے ہیں۔ اگر لوہا وہاں پہنچ جائے تو اسی دم گل کر پانی ہو جائے۔
سفیان ثوری کی روایت جو حدیث ہذا کے آخر میں درج ہے اسے خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب بدءالخلق میں اور یحییٰ کی روایت کو امام احمد رحمہ اللہ نے وصل کیا ہے۔ لیکن ابوعوانہ کی روایت نہیں ملی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 537
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:537
حدیث حاشیہ: (1) جہنم کا سانس لینا اور شکایات کرنا مبنی بر حقیقت ہے۔ اس کی تاویل کرنا درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ اگر حضرت سلیمان ؑ کے ہدہد کو علم وادراک عنایت کرسکتا ہے تو جہنم کو شکایت کرنے اور سانس لینے کی قدرت دینا کیوں کر بعید ہو سکتا ہے جبکہ قرآن کریم نے خود جہنم کی گفتگو بیان کی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِن مَّزِيدٍ ﴿٣٠﴾”اس دن ہم جہنم سے پوچھیں گے: کیا تو بھر گئی؟ تو وہ کہے گی: کیا کچھ اور بھی ہے؟“(ق: 50: 30) پھر احادیث میں جنت اور جہنم کے باہمی مکالمے کا بھی ذکر ہے، اس لیے جہنم کے گفتگو کرنے میں کوئی حیرت کی بات نہیں، اللہ تعالیٰ جس چیز کو چاہے قوت گویائی عطاکرسکتا ہے، نیز جہنم کے کئی ایک طبقات ہیں، جہاں اس کا ایک طبقہ انتہائی گرم ہے، وہاں دوسرا طبقہ ناقابل برداشت حد تک سرد بھی ہے۔ اس کا نام طبقۂ زمہریر ہے۔ موسم سرما میں سردی کی شدت اسی کی بدولت ہوتی ہے۔ (عمدة القاري: 33/4)(2) اس حدیث پر سائنسی لحاظ سے دواعتراضات ہیں: ٭ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گرمی اور سردی کا اصل مرکز جہنم ہے جبکہ سائنسی تحقیقات کی رو سے سردی اور گرمی کااصل منبع سورج ہے۔ جب سورج زمین کے قریب ہوتا ہے تو گرمی اور جب دور ہوتا ہے تو سردی ہوتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں گرمی اور سردی کی شدت کے ایک باطنی سبب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس سے ظاہری سبب کی نفی نہیں ہوتی۔ اس بنا پر حدیث اور سائنس میں کوئی تعارض نہیں، کیونکہ ایک چیز کے متعداد اسباب ہوسکتے ہیں۔ ٭ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر گرمی و سردی کا سبب جہنم کا سانس لینا ہے تو کرۂ ارض کے تمام علاقوں میں ایک جیسی گرمی یا سردی ہونی چاہیے جبکہ یہ بات مشاہدے کے خلاف ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کرۂ ارض پر گرمی وسردی کا کم وبیش ہونا متعدد عوارض کی بنا پر ہے۔ اگر یہ عوارض نہ ہوں تو تمام علاقوں میں گرمی کی حدت اور سردی کی شدت ایک جیسی ہو۔ ان عوارض میں بارش، سایہ دار جنگلات، علاقہ جات کا ساحلی یا صحرائی ہونا اور دیگرعوامل شامل ہیں۔ والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 537