فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3285
´وہ نکاح جس سے تین طلاق دی ہوئی عورت طلاق دینے والے کے لیے حلال ہوتی ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ رفاعہ نے مجھے طلاق بتہ (یعنی بالکل قطع تعلق کر دینے والی آخری طلاق) دے دی ہے، اور میں نے ان کے بعد عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی جن کے پاس بس کپڑے کی جھالر جیسا ہے، (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا: ”شاید تم رفاعہ کے پاس دوبارہ واپس جانا چاہتی ہو (تو سن لو) یہ اس وقت تک نہیں [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3285]
اردو حاشہ:
(1) ”رفاعہ کی بیوی“ یعنی جو پہلے رفاعہ کی بیوی تھی، ورنہ اس وقت تو وہ عبدالرحمن بن زبیر کے نکاح میں تھی۔
(2) ”تیسری طلاق“ عربی مںی لفظ بتہ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنیٰ ہیں: قطعی طلاق، یعنی جس کے بعد رجوع کا امکان نہ ہو۔ اور وہ عام حالات میں تیسری طلاق ہوسکتی ہے۔
(3) ”پلو“ یہ ان کی مرادنہ قوت کی کمزوری کی طرف اشارہ ہے۔ کنایات میں عموماً مبالغہ آرائی ہوتی ہے ورنہ وہ کنایا نہیں ہوتا، لہٰذا ظاہر الفاظ مراد نہیں ہوتا، لہٰذا ظاہر الفاظ مراد نہیں ہوتے۔ صرف اشارہ کنایہ ہے۔ اس کی یہ شکایت درست نہ تھی کیونکہ نبی اکرمﷺ نے اسے رد کردیا تھا۔ صحیح بخاری میں یہ صراحت موجود ہے کہ خاوند کو بھی پتہ چل گیا کہ اس کی بیوی نے نبیﷺ کے پاس شکایت لے کر گئی ہے تو وہ بھی پہنچ گئے۔ اس کے ساتھ (دوسری بیوی سے) ان کے دو بیٹے تھے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! واللہ یہ جھوٹ بول رہی ہے۔ میں تو اسے چمڑے کی طرح ادھیڑ کر رکھ دیتا ہوں (یعنی پوری قوت سے بھر پور جماع کرتا ہوں) لیکن یہ مجھے ناپسند کرتی ہے اور رفاعہ کی طرف واپس جانا چاہتی ہے… پھر نبی اکرمﷺ نے اس سے پوچھا کہ ”یہ تیرے بیٹے ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپﷺ نے اس عورت سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”تو اس پر یہ الزام لگا رہی ہے؟ حالانکہ اللہ کی قسم! اس کے بیٹے اپنے باپ کے ساتھ اس سے بھی زیادہ مشابہت رکھتے ہیں جتنی ایک کوا دوسرے کوے سے رکھتا ہے۔“ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5825) وہ عورت اپنے بیان کے مطابق پہلے خاوند کے نکاح میں نہیں جاسکتی تھی کیونکہ اس کے لیے دوسرے خاوند کا اس کے ساتھ جماع اور اس کے بعد طلاق دینا ضروری تھا۔
(4) ”لطف اندوز ہونا“ تیسری طلاق کے بعد خاوند بیوی ایک دوسرے پر حرام ہوجاتے ہیں، الا یہ کہ وہ عورت کسی اور شخص سے نکاح کرے، پھر ان میں بھی ناچاقی ہوجائے تو وہ عورت عدت کے بعد خاوند سے نکاح کرسکتی ہے بشرطیکہ دوسرا خاوند اس سے جماع کرچکا ہو۔ اگر جماع نہ ہوا ہو تو طلاق کے باوجود پہلے خاوند کے لیے نکاح نہ ہو گی۔ ”لطف اندوز ہو“ میں اس طرف اشارہ ہے۔
(5) آج کل ”حلالہ“ کے نام پر جو بے غیرتی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور عورتوں کو بھینسوں کی طرح کرائے کے ”سانڈ“ کے پاس لے جایا جاتا ہے، یہ امر سراسر شریعت کے خلاف ہے۔ رسول اللہﷺ نے اس میں ملوث تمام اشخاص پر لعنت فرمائی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3285
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3436
´دوسری شادی کرنے والی عورت کو دخول سے پہلے طلاق ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسے شخص کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنی عورت کو طلاق دی۔ اس عورت نے دوسری شادی کر لی، وہ دوسرا شخص (تنہائی میں) اس کے پاس گیا اور اسے جماع کیے بغیر طلاق دے دی۔ تو کیا اب یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، وہ اس وقت تک پہلے کے لیے حلال نہ ہو گی جب تک کہ اس کا دوسرا شوہر اس کے [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3436]
اردو حاشہ:
(1) مذکورہ حدیث کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قراردیتے ہوئے مزید لکھا ہے کہ بخاری ومسلم کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محقق کتاب کے نزدیک بھی یہ حدیث قابل حجت ہے‘ نیز دیگر محققین نے بھی اسے صحیح قراردیا ہے۔
(2) جس عورت کو تین طلاقیں ہوجائیں‘ وہ اس خاوند پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے الا یہ کہ وہ عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور وہ دونوں آپس میں خاوند بیوی کی طرح رہیں‘ جماع وغیرہ کریں‘ پھر ان دونوں میں نباہ نہ ہوسکے اور دوسرا شخص اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے تو وہ عورت عدت گزارنے کے بعد اپنے پہلے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے‘ لیکن اگر دوسرے خاوند نے جماع کے بغیر طلاق دے دی تو وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہوگی۔ یاد رہے کہ اس سارے عمل میں کوئی ”سازش“ نہیں ہونی چاہیے‘ یعنی دوسرا نکاح پہلے خاوند کے لیے حلال کرنے کی نیت سے نہ ہو‘ ورنہ نکاح نہیں ”زنا“ ہوگا۔ اور وہ پہلے خاوند کے لیے بھی حلال نہ ہوگی۔ صحیح حدیث میں اس ”سازش“ کے کرداروں (حلالہ کرنے اور کروانے والے) پر لعنت کی گئی ہے۔ (مزید دیکھیے‘ حدیث:3238)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3436
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3437
´دوسری شادی کرنے والی عورت کو دخول سے پہلے طلاق ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اللہ کے رسول! میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کی اور ان کے پاس تو اس کپڑے کی جھالر جیسے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لگتا ہے تم دوبارہ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو، اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ وہ (دوسرا شوہر) تمہارا اور تم اس کا مزہ نہ چکھ لو۔“ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3437]
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھیے ح نمبر 3285۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3437
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3438
´قطعی طلاق کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، وہاں ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں رفاعہ قرظی کی بیوی تھی اس نے مجھے طلاق بتہ دے دی ہے تو میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی، اور اللہ کے رسول! قسم اللہ کی ان کے پاس تو اس جھالر جیسی چیز کے سوا کچھ نہیں ہے ۱؎ انہوں نے اپنی چادر کا پلو پکڑ کر یہ بات کہی۔ اس وقت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے تھے، آپ صلی الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3438]
اردو حاشہ:
بتہ طلاق کی تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث:3285۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3438
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3441
´تین طلاق والی عورت کا حلالہ اور اس کے لیے حلال و جائز کر دینے والے نکاح کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو اس عورت نے دوسرے شخص سے شادی کر لی۔ اس (دوسرے شخص) نے اس سے جماع کرنے سے پہلے اسے طلاق دے دی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کیا (ایسی صورت میں) وہ عورت پہلے والے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، جب تک کہ وہ (دوسرا) اس کے شہد کا مزہ نہ لے لو جس طرح اس کے پہلے شوہ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3441]
اردو حاشہ:
ا س مسئلے کی تفصیل کے لیے دیکھے‘ حدیث: 3285۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3441
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5317
5317. سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا رفاعہ قرظی ؓ نےایک خاتون سے نکاح کیا، پھر اسے طلاق دے دی تو اس نے دوسرے خاوند سے شادی کرلی، پھر وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے دوسرے خاوند کا ذکر کیا کہ وہ ان کے پاس آتا ہی نہیں، اور اس کے پاس تو کپڑے کے پلو جیسا ہے(اس نے پہلے شوہر سے نکاح کی خواہش کی تو) آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں ایسا نہیں ہوسکتا حتیٰ تو اس کا مزہ چکھ لے وہ تجھ سے لطف اندوز ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5317]
حدیث حاشیہ:
پہلے شوہر سے تمہارا نکاح صحیح نہیں ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5317
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5825
5825. حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت رفاعہ ؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو اس سے عبدالرحمن بن زبیر قرظی ؓ نے نکاح کر لیا۔ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: وہ خاتون سبز اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھی۔ اس نے سیدہ عائشہ ؓ سے شکایت کی اور اپنے جسم پر مار کی وجہ سے سبز نشانات دکھائے۔ جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔۔۔ عادت کے طور پر عورتیں ایک دوسرے کی مدد کیا کرتی ہیں۔۔ تو سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: اہل ایمان خاتون کا میں نے اس سے برا حال نہیں دیکھا، اس کی جلد اس کے کپڑے سے بھی زیادہ سبز تھی۔ اس کے شوہر نے سنا کہ اس کی بیوی رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی ہے چنانچہ وہ بھی اپنے ساتھ دو بیٹے لے کر آ گئے جو اس کی پہلی بیوی کے بطن سے تھے اس کی بیوی نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے اس سے کوئی اور شکایت نہیں، البتہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اس سے زیادہ مجھے کفایت نہیں کرتا اس نے کپڑے کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5825]
حدیث حاشیہ:
وہ خاتون ہرے رنگ کی اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھی یہی باب سے مطابقت ہے۔
اس عورت نے اپنے خاوند کے نامرد ہونے کی شکایت کی تھی جس کے جواب کے لیے خاوند عبد الرحمن بن زبیر اپنے دونوں بچوں کو ساتھ لائے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے بارے میں حضرت عبدالرحمن کی تصدیق کی اور عورت کی کذب بیانی محسوس فرما کر وہ فرمایا جو یہاں مذکور ہے۔
مسئلہ یہی ہے کہ مطلقہ بائنہ عورت پہلے خاوند کے نکاح میں دوبارہ اس وقت تک نہیں جا سکتی جب تک وہ دوسرا خاوند اس سے خوب جماع نہ کر لے اورپھر اپنی مرضی سے اسے طلاق دے اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5825
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2639
2639. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت رفاعہ قرضی ؓ کی بیوی نبی ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی۔ میں حضرت رفاعہ ؓ کے نکاح میں تھی۔ اس نے مجھے طلاق دے کر بالکل فارغ کردیا ہے۔ اس کے بعد میں نے حضرت عبد الرحمٰن بن زبیر ؓ سے نکاح کر لیا ہے۔ وہ تو یوں ہی ہے کیونکہ اس کے پاس تو کپڑے کے پھندنے کی طرح ہے (میری جنسی خواہش پوری نہیں کر سکتا)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ” کیا تو رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہے؟یہ نہیں ہو سکتا حتی کہ تو اس کا مزہ چکھے اور وہ تیرامزہ چکھے۔“ حضرت ابو بکر ؓ آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جب کہ خالد بن سعید بن عاص ؓ دروازے کے پاس اجازت کے منتظر تھے۔ انھوں نے کہا: ابو بکر ؓ! آپ اس عورت کی خرافات سن رہے ہیں، جو نبی ﷺ کے سامنے زور زور سے کہہ رہی ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2639]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒنے یہیں سے یہ نکالا کہ چھپ کر گواہ بننا درست ہے۔
کیوں کہ خالد دروازے کے باہر تھے۔
عورت کے سامنے نہ تھے۔
باوجود اس کے خالد نے ایک قول کی نسبت اس عورت کی طرف کی اور آنحضرت ﷺ نے خالد پر اعتراض نہیں کیا۔
عبدالرحمن بن زبیر ؓصاحب اولاد تھے مگر اس وقت شاید وہ مریض ہوں.... اسی وجہ سے اس عورت نے اس کو کپڑے کی گانٹھ سے تعبیر کیا جس میں کچھ بھی حرکت نہیں ہوتی، یعنی وہ جماع نہیں کرسکتے۔
مگر حضرت ابن زبیر ؓنے عورت کے اس بیان کی تردید کی تھی۔
اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ جب تک مطلقہ عورت از خود کسی دوسرے مرد کے نکاح میں جاکر اس سے جماع نہ کرائے اور وہ خود اس کو طلاق نہ دے دے وہ پہلے خاوند کے نکاح میں دوبارہ نہیں جاسکتی۔
فرضی حلالہ کرانے والوں پر لعنت آئی ہے۔
جیسا کہ فقہائے حنفیہ کے ہاں رواج ہے کہ وہ تین طلاق والی عورت کو فرضی حلالہ کرانے کا فتویٰ دیا کرتے ہیں، جو باعث لعنت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2639
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5265
5265. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو اس نے کسی دوسرے آدمی سے شادی کرلی پھر اس نے بھی اسے طلاق دے دی۔ اس دوسرے شوہر کے پاس کپڑے کے پلو کی طرح تھا۔ عورت کو اس سے پورا مزا نہ ملا جیسا کہ وہ چاہتی تھی۔ آخر اس نے تھوڑے ہی دن رک کر اسے طلاق دے دی۔ وہ عورت نبی ﷺ کے پاس آئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی تھی۔ پھر میں نے ایک دوسرے شخص سے نکاح کیا۔ جب وہ میرے پاس آیا تو اس کے پاس کپڑے کے پلو کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ وہ ایک ہی مرتبہ میرے پاس آیا اوروہ بھی بے کار۔ کیا اب میں پہلے خاوند کے لیے حلال ہوگئی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”تو اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی حتیٰ کہ دوسرا تجھ سے لطف اندوز ہو اور تو اس سے لطف اندوز ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5265]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
یعنی جب تک اچھی طرح دخول نہ ہو۔
اس سے ثابت ہوا کہ صرف حشفہ کا فرج میں داخل ہو جانا تحلیل کے لیے کافی ہے۔
امام حسن بصری نے انزال کی بھی شرط رکھی ہے۔
یہ حدیث لا کر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت کیا کہ عورت کا حکم کھانے پینے کی طرح نہیں ہے۔
بلکہ وہ حقیقتاً حلال یا حرام ہوتی ہے جیسے اس حدیث میں ہے کہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہو سکتی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5265
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5792
5792. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رفاعہ قرظی کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ میں آپ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی وہاں موجود تھے اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں رفاعہ کی بیوی تھی۔ اس نے مجھے طلاق دے کر اپنی زوجیت سے فارغ کر دیا ہے۔ میں نے اس کے بعد عبدالرحمن بن زبیر ؓ سے نکاح کیا۔ اللہ کے رسول! میں قسم اٹھاتی ہوں کہ اس کے پاس اس پھندے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اور اس نے اپنی چادر کا کنارہ پکڑا۔ حضرت خالد بن سعید ؓ دروازے کے پاس کھڑے اس کی باتیں سن رہے تھے اور انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ انہوں نے وہاں کھڑے کھڑے کہا: اے ابو بکر! کیا آپ اس عورت کو منع نہیں کرتے، یہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بلند آواز سے کیسی گفتگو کر رہی ہے اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ اس کی باتیں سن کر صرف تبسم فرماتے رہے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5792]
حدیث حاشیہ:
عورت نے اپنی جھالر دار چادر کی طرف اشارہ کیا۔
باب سے یہی جملہ مطابقت رکھتا ہے باقی دیگر مسائل جو اس حدیث سے نکلتے ہیں وہ بھی واضح ہیں۔
قانون یہ بنا کہ جس عورت کو تین طلاق دے دی جائیں اس کا پہلے خاوند سے پھر نکاح نہیں ہو سکتا جب تک دوسرے خاوند سے صحبت نہ کرائے پھر وہ خاوند خود اپنی مرضی سے اسے طلاق نہ دے دے، یہ شرعی حلالہ ہے۔
پھر خود اس مقصد کے تحت فرضی حلالہ کرانا موجب لعنت ہے اللہ ان علماء پر رحم کرے جو عورتوں کو فرضی حلالہ کرانے کا فتویٰ دیتے ہیں۔
تین طلاق سے تین طہر کی طلاقیں مراد ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5792
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2639
2639. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت رفاعہ قرضی ؓ کی بیوی نبی ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی۔ میں حضرت رفاعہ ؓ کے نکاح میں تھی۔ اس نے مجھے طلاق دے کر بالکل فارغ کردیا ہے۔ اس کے بعد میں نے حضرت عبد الرحمٰن بن زبیر ؓ سے نکاح کر لیا ہے۔ وہ تو یوں ہی ہے کیونکہ اس کے پاس تو کپڑے کے پھندنے کی طرح ہے (میری جنسی خواہش پوری نہیں کر سکتا)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ” کیا تو رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہے؟یہ نہیں ہو سکتا حتی کہ تو اس کا مزہ چکھے اور وہ تیرامزہ چکھے۔“ حضرت ابو بکر ؓ آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جب کہ خالد بن سعید بن عاص ؓ دروازے کے پاس اجازت کے منتظر تھے۔ انھوں نے کہا: ابو بکر ؓ! آپ اس عورت کی خرافات سن رہے ہیں، جو نبی ﷺ کے سامنے زور زور سے کہہ رہی ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2639]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس خاتون کا نام تمیمہ بنت وہب تھا جو پہلے حضرت رفاعہ بن سموال ؓ کے نکاح میں تھیں، انہوں نے قطعی طلاق دے کر اسے اپنی زوجیت سے فارغ کر دیا۔
اس نے دوسرا نکاح حضرت عبدالرحمٰن بن زبیر ؓ سے کیا لیکن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس کے نامرد ہونے کی شکایت بڑے واشگاف اور صاف الفاظ میں کی۔
حضرت عبدالرحمٰن ؓ کو قرائن سے پتہ چلا کہ یہ میری شکایت کرے گی تو وہ اپنے دو صاجزادوں کو ساتھ لائے جو پہلی بیوی کے بطن سے تھے اور کھلے الفاظ میں اس کے موقف کی تردید کی۔
(2)
حضرت خالد بن سعید ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس کھڑے عورت کی ناشائستہ گفتگو سن رہے تھے۔
انہوں نے عورت کی محض آواز سن کر اس کا نوٹس لیا اور حضرت ابوبکر ؓ کو اپنے جذبات سے آگاہ کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس پر کسی قسم کا انکار نہیں کیا، لہذا حضرت خالد ؓ چھپنے والے کی طرح ہوئے جنہوں نے محض آواز سن کو گواہی دی۔
(3)
دراصل وہ عورت اپنے دوسرے شوہر پر نامردی کا الزام لگا کر اس سے چھٹکارا پا کر پہلے خاوند کے پاس جانا چاہتی تھی۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کے ارادے کو بھانپ لیا اور فرمایا:
”ایسا نہیں ہو سکتا، تجھے اسی خاوند کے پاس رہنا ہو گا۔
“ اس نے بھی عورت کی شکایت کا دو ٹوک الفاظ میں دندان شکن جواب دیا، کوئی لگی لپٹی بات نہیں کی بلکہ واضح الفاظ میں عورت کے دعوے کی تردید کی۔
اس کی تفصیل ہم کتاب اللباس، حدیث: 5825 کے تحت بیان کریں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2639
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5260
5260. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رفاعہ قرظی ؓ کی بیوی، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! رفاعہ ؓ نے مجھے طلاق دی ہے وہ بھی ایسی جس سے ہمارے تعلقات ختم ہو گئے ہیں میں نے اس کے بعد عبدالرحمن بن زبیر ؓ سے نکاح کر لیا ہے۔ اس کے پاس کپڑے کے پھندے کی طرح ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”شاید تم رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہو؟ لیکن اب تو اس کے پاس نہیں جاسکتی تا آنکہ وہ تیرا مزا نہ چکھ لے اور تو اس سے لطف اندوز نہ ہو جائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5260]
حدیث حاشیہ:
(1)
فبت طلاقي کا مفہوم یہ ہے کہ اس نے طلاق کے ذریعے سے میرے ساتھ مکمل طور پر تعلق قطع کر دیا ہے۔
اس سے بعض حضرات نے اخذ کیا ہے کہ اس نے مجھے یکبار تین طلاقیں اکٹھی دے دی ہیں لیکن یہ مفہوم امام بخاری رحمہ اللہ کے موقف کے خلاف ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ تینوں طلاقیں دینا جائز ہیں اور بينونت كبري میں کوئی قباحت نہیں جیسا کہ تیسری طلاق کے بعد ہوتا ہے۔
حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسے وقفے وقفے سے تین طلاقیں دی تھیں اور یہ آخری طلاق تھی جس کے ذریعے سے ان کے تعلقات ختم ہو چکے تھے، چنانچہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔
اس عورت نے کہا:
اس نے مجھے تینوں طلاقوں میں سے آخری طلاق بھی دے ڈالی ہے۔
(صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6084)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مذکورہ آیت سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ کے اپنی بیوی کو وقفے وقفے سے تین طلاقیں دی تھیں۔
(فتح الباري: 455/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5260
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5265
5265. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو اس نے کسی دوسرے آدمی سے شادی کرلی پھر اس نے بھی اسے طلاق دے دی۔ اس دوسرے شوہر کے پاس کپڑے کے پلو کی طرح تھا۔ عورت کو اس سے پورا مزا نہ ملا جیسا کہ وہ چاہتی تھی۔ آخر اس نے تھوڑے ہی دن رک کر اسے طلاق دے دی۔ وہ عورت نبی ﷺ کے پاس آئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی تھی۔ پھر میں نے ایک دوسرے شخص سے نکاح کیا۔ جب وہ میرے پاس آیا تو اس کے پاس کپڑے کے پلو کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ وہ ایک ہی مرتبہ میرے پاس آیا اوروہ بھی بے کار۔ کیا اب میں پہلے خاوند کے لیے حلال ہوگئی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”تو اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی حتیٰ کہ دوسرا تجھ سے لطف اندوز ہو اور تو اس سے لطف اندوز ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5265]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے فرمایا:
”تیرے خاوند نے تجھے تین طلاقیں دی ہیں، اس لیے تو اس کے لیے حلال نہیں۔
“ آپ نے تین طلاقوں کے بعد عورت کے لیے حرام کا اطلاق کیا، لیکن یہ حرمت کھانے کے حرام کرنے کی طرح نہیں ہے کیونکہ کھانے کو حرام قرار دینا یہ بندے کے اختیار میں نہیں۔
یہ تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔
لیکن عورت کو حرام قرار دینا یہ بندے کے اختیار میں ہے کیونکہ وہ اس کی طلاق کا مالک ہے۔
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان حسن بصری کے قول کی طرف معلوم ہوتا ہے۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5265
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5317
5317. سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا رفاعہ قرظی ؓ نےایک خاتون سے نکاح کیا، پھر اسے طلاق دے دی تو اس نے دوسرے خاوند سے شادی کرلی، پھر وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے دوسرے خاوند کا ذکر کیا کہ وہ ان کے پاس آتا ہی نہیں، اور اس کے پاس تو کپڑے کے پلو جیسا ہے(اس نے پہلے شوہر سے نکاح کی خواہش کی تو) آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں ایسا نہیں ہوسکتا حتیٰ تو اس کا مزہ چکھ لے وہ تجھ سے لطف اندوز ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5317]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان اور پیش کی گئی حدیث کا لعان سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ لعان کی صورت میں اس کی بیوی اگر دوسرے خاوند سے شادی کر لیتی ہے تو بھی پہلے خاوند سے اس کا نکاح نہیں ہو سکتا، خواہ وہ اس سے ملاپ ہی کیوں نہ کر چکا ہو۔
(2)
اس حدیث سے ایک قرآنی آیت کی وضاحت ہوتی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”پھر اگر شوہر (تیسری)
طلاق، عورت کو دے دے تو اس کے بعد جب تک عورت دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے پہلے شوہر پر حلال نہیں ہوگی۔
“ حدیث بالا سے معلوم ہوا کہ آیت کریمہ میں نکاح سے مراد ہم بستری ہے۔
اس کے بغیر وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔
اسی طرح کا ایک واقعہ رفاعہ قرظی کو بھی پیش آیا، اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو اس نے بھی عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا، اس نے ہمبستری کرنے سے پہلے ہی اسے طلاق دے دی تو اس نے پہلے خاوند سے نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ایسا نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ ہم بستری ہو۔
“ (البقرة: 230)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5317
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5792
5792. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رفاعہ قرظی کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ میں آپ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی وہاں موجود تھے اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں رفاعہ کی بیوی تھی۔ اس نے مجھے طلاق دے کر اپنی زوجیت سے فارغ کر دیا ہے۔ میں نے اس کے بعد عبدالرحمن بن زبیر ؓ سے نکاح کیا۔ اللہ کے رسول! میں قسم اٹھاتی ہوں کہ اس کے پاس اس پھندے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اور اس نے اپنی چادر کا کنارہ پکڑا۔ حضرت خالد بن سعید ؓ دروازے کے پاس کھڑے اس کی باتیں سن رہے تھے اور انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ انہوں نے وہاں کھڑے کھڑے کہا: اے ابو بکر! کیا آپ اس عورت کو منع نہیں کرتے، یہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بلند آواز سے کیسی گفتگو کر رہی ہے اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ اس کی باتیں سن کر صرف تبسم فرماتے رہے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5792]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عورت نے چادر کا وہ کنارا پکڑ کر اشارہ کیا جو صرف دھاگوں کی صورت میں تھا اور اسے بنا نہیں گیا تھا، جو چادر بنی ہوئی ہو اس میں کچھ تناؤ ہوتا ہے لیکن دھاگے تو ڈھیلے ڈھالے ہوتے ہیں۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے عورت کے اس اشارے سے عنوان ثابت کیا کہ اس نے ڈورے دار چادر پہن رکھی تھی۔
اگر اس کا پہننا ناجائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس سلسلے میں اس کی رہنمائی کرتے۔
ڈورے دار چادر پہننے کے متعلق ایک واضح حدیث ہے حضرت جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اپنے گھٹنوں کو اٹھائے ایک چادر پہنے بیٹھے تھے اور اس چادر کے ڈورے آپ کے قدموں پر پڑ رہے تھے۔
(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4057)
یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، تاہم کپڑے کے اطراف میں اگر دھاگے بطور زینت چھوڑ دیے گئے ہوں اور انہیں بنا نہ گیا ہو بلکہ ایک خاص انداز سے ٹانکا گیا ہو تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5792
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5825
5825. حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت رفاعہ ؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو اس سے عبدالرحمن بن زبیر قرظی ؓ نے نکاح کر لیا۔ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: وہ خاتون سبز اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھی۔ اس نے سیدہ عائشہ ؓ سے شکایت کی اور اپنے جسم پر مار کی وجہ سے سبز نشانات دکھائے۔ جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔۔۔ عادت کے طور پر عورتیں ایک دوسرے کی مدد کیا کرتی ہیں۔۔ تو سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: اہل ایمان خاتون کا میں نے اس سے برا حال نہیں دیکھا، اس کی جلد اس کے کپڑے سے بھی زیادہ سبز تھی۔ اس کے شوہر نے سنا کہ اس کی بیوی رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی ہے چنانچہ وہ بھی اپنے ساتھ دو بیٹے لے کر آ گئے جو اس کی پہلی بیوی کے بطن سے تھے اس کی بیوی نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے اس سے کوئی اور شکایت نہیں، البتہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اس سے زیادہ مجھے کفایت نہیں کرتا اس نے کپڑے کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5825]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عورت نے اپنے دوسرے شوہر عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ کے نامرد ہونے کی طرف اشارہ کیا اور کپڑے کے پلو سے یہ تاثر دیا کہ اس کا آلۂ جماع کمزور ہے، میری شہوت پوری نہیں کر سکتا۔
اس کا خاوند اپنے دفاع کے لیے دو بچے ہمراہ لایا تاکہ اس کی کذب بیانی کو واضح کرے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن زبیر کی تصدیق کی اور عورت کی کذب بیانی محسوس فرما کر وہ جواب دیا جو حدیث میں مذکور ہے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیوی کی نافرمانی پر شوہر اسے پیٹ سکتا ہے۔
اگر ضرب شدید سے اس کا چمڑا متاثر ہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔
چونکہ وہ خاتون سبز رنگ کی اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھی، اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان ثابت کیا ہے سبز رنگ کا کپڑا استعمال کیا جا سکتا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں صراحت ہے، حضرت ابو رمثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو میں نے آپ پر سبز رنگ کی دو دھاری دار چادریں دیکھی تھیں۔
(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4065) (3)
سبز رنگ ایک پسندیدہ رنگ ہے، اہل جنت کے لیے ریشم کے سبز لباس کا ذکر قرآن کریم میں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”ان کے اوپر کی پوشاک باریک سبز ریشم اور موٹے ریشم کی ہو گی۔
“ مگر سبز رنگ کو بطور شعار اختیار کرنا قطعاً پسندیدہ نہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5825