ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے عبید بن حنین نے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہ آپ حفصہ کے یہاں گئے اور ان سے کہا کہ بیٹی اپنی اس سوکن کو دیکھ کر دھوکے میں نہ آ جانا جسے اپنے حسن پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر ناز ہے۔ آپ کا اشارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا (عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا) کہ پھر میں نے یہی بات آپ کے سامنے دہرائی آپ مسکرا دیئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 5218]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5218
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ جملہ حقوق ادا کرنے کے بعد اگر مرد کو اپنی کسی دوسری بیوی سے زیادہ محبت ہے تو گناہگار نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5218
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5218
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے دوسری بیویوں کی نسبت زیادہ محبت کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہی تو آپ نے اس کا انکار نہیں کیا، جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ انداز قابل ملامت نہیں ہے۔ جب کوئی آدمی اپنی دوسری بیویوں کے ساتھ نان و نفقے کے معاملے میں برابری کرتا ہے لیکن طبعی میلان اور قلبی جھکاؤ کسی ایک طرف زیادہ ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی محبت کے پیش نظر فرماتے تھے: ”اے اللہ! جس کا مجھے اختیار نہیں بلکہ تیرے اختیار میں ہے اس کے متعلق مجھے ملامت نہ کرنا۔ “(سنن أبي داود، النکاح، حدیث: 2134)(2) محبت میں عدل کی استطاعت نہیں اور اللہ تعالیٰ انسان کو وہی تکلیف دیتا ہے جس کی وہ طاقت رکھتا ہو۔ کسی سے محبت کا زیادہ ہونا انسان کے اختیار میں نہیں، لہٰذا یہ قابل مؤاخذاہ نہیں۔ والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5218