ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے مروان بن معاویہ نے، کہا ہم سے ابویعفور نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوالضحیٰ کی مجلس میں (مہینہ پر) بحث کی تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ایک دن صبح ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج رو رہی تھیں، ہر زوجہ مطہرہ کے پاس ان کے گھر والے موجود تھے۔ مسجد کی طرف گیا تو وہ بھی لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اوپر گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک کمرہ میں تشریف رکھتے تھے۔ انہوں نے سلام کیا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ انہوں نے پھر سلام کیا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ پھر سلام کیا اور اس مرتبہ بھی کسی نے جواب نہیں دیا۔ تو آواز دی (بعد میں اجازت ملنے پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے اور عرض کیا: کیا آپ نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ایک مہینہ تک ان سے الگ رہنے کی قسم کھائی ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انتیس دن تک الگ رہے اور پھر اپنے بیویوں کے پاس گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 5203]
لما اعتزل نبي الله نساءه قال دخلت المسجد فإذا الناس ينكتون بالحصى ويقولون طلق رسول الله نساءه وذلك قبل أن يؤمرن بالحجاب فقال عمر فقلت لأعلمن ذلك اليوم قال فدخلت على عائشة فقلت يا بنت أبي بكر أقد بلغ من شأنك أن تؤذي رس
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5203
حدیث حاشیہ: اصطلاح میں اسی کو ایلاء کہا جاتا ہے یعنی مدت مقررہ کے لئے اپنی بیوی سے الگ رہنے کی قسم کھا لینا مدت پوری ہونے کے بعد ملنا جائز ہو جاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5203
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5203
حدیث حاشیہ: (1) خاوند کو عورتوں کی نافرمانی اور ان کی منہ زوری سے روکنے کے لیے تین اقدام کرنے کی اجازت دی گئی ہے: ٭ وعظ و نصیحت ٭ اپنے بستروں سے انھیں علیحدہ کرنا ٭ انھیں ہلکا پھلکا زد و کوب کرنا۔ ان سے علیحدگی اختیار کرنے کی دو صورتیں ممکن ہیں: ٭گھر میں رہتے ہوئے ان سے قطع تعلقی کر لی جائے۔ ٭گھر کے علاوہ دوسری جگہ میں خلوت نشینی اختیار کی جائے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت کیا ہے کہ گھر کے علاوہ دوسری جگہ میں بھی علیحدگی ہو سکتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ موقع محل اور عورت کے مزاج کے مطابق کسی بھی جگہ کو گوشہ نشینی کے لیے اختیار کیا جاسکتا ہے۔ بعض دفعہ گھر میں علیحدگی کار گر ثابت ہوتی ہے جبکہ کسی موقع پر گھر کے علاوہ دوسری جگہ پر علیحدگی اختیار کرنا مفید ثابت ہوتا ہے۔ والله اعلم (فتح الباري: 374/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5203
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 89
´خبر واحد پر اعتماد کرنا درست ہے` «. . . وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا، فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ بِخَبَرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنَ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ . . .» ”. . . ہم دونوں باری باری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ ایک دن وہ آتا، ایک دن میں آتا۔ جس دن میں آتا اس دن کی وحی کی اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ) دیگر باتوں کی اس کو خبر دے دیتا تھا اور جب وہ آتا تھا تو وہ بھی اسی طرح کرتا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 89]
� تشریح: اس انصاری کا نام عتبان بن مالک تھا۔ اس روایت سے ثابت ہوا کہ خبر واحد پر اعتماد کرنا درست ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گھبرا کر اس لیے پوچھا کہ ان دنوں مدینہ پر غسان کے بادشاہ کے حملہ کی افواہ گرم تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھے کہ شاید غسان کا بادشاہ آ گیا ہے۔ اسی لیے آپ گھبرا کر باہر نکلے پھر انصاری کی خبر پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تعجب ہوا کہ اس نے ایسی بے اصل بات کیوں کہی۔ اسی لیے بے ساختہ آپ کی زبان پر نعرہ تکبیر آ گیا۔ باری اس لیے مقرر کی تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تاجر پیشہ تھے اور وہ انصاری بھائی بھی کاروباری تھے۔ اس لیے تاکہ اپنا کام بھی جاری رہے اور علوم نبوی سے بھی محرومی نہ ہو۔ معلوم ہوا کہ طلب معاش کے لیے بھی اہتمام ضروری ہے۔ اس حدیث کی باقی شرح کتاب النکاح میں آئے گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 89
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7263
7263. سیدنا عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ ﷺ اپنے بالاخانہ میں تشریف فرما تھے اور آپ کا سیاہ غلام سیڑھی کے اوپر تعینات تھا۔ میں نے اس سے کہا: (رسول اللہ ﷺ سے) عرض کرو: عمر بن خطاب کھڑا اجازت طلب کر رہا ہے چنانچہ آپ نے مجھے اجازت دے دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7263]
حدیث حاشیہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خبر سنی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ اس تحقیق کے لیے آئے اور ایک دن دربان رباح نامی کی اجازت لینے پر اعتماد کیا۔ اس سے خبر واحد کا حجت کا ہونا ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7263
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2134
´مہینہ کتنے دنوں کا ہوتا ہے؟ نیز عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث میں زہری پر (راویوں کے) اختلاف کا ذکر۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: مجھے برابر اس بات کا اشتیاق رہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دونوں بیویوں کے بارے میں پوچھوں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ: «إن تتوبا إلى اللہ فقد صغت قلوبكما»”اگر تم دونوں اللہ تعالیٰ سے توبہ کر لو (تو بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں“(التحریم: ۴) میں کیا ہے، پھر پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2134]
اردو حاشہ: (1) ناراضی کے واقعے کی پوری تفصیل تو ان شاء اللہ اپنے مقام پر آئے گی لیکن اتنا جان لینا کافی ہے کہ آپ نے ایک راز حضرت حفصہؓ کے حوالے کیا تھا اور تاکید فرمائی تھی کہ کسی تک یہ راز نہ پہنچے مگر وہ اپنی فطری کمزوری کی بنا پر راز کو راز نہ رکھ سکیں۔ حضرت عائشہؓ کو بتا بیٹھیں اور ہوتے ہوتے یہ بات سب ازواج مطہراتؓ تک پہنچ گئی جس سے آپﷺ کو دکھ اٹھانا پڑا۔ ایک دو واقعات اور بھی ہوئے، ان تمام وجوہ سے آپ کی ناراضی شدید ہوگئی۔ (2) جب محسوس ہو کہ آدمی قسم توڑ رہا ہے تو اسے یاد کرایا جا سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2134
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3485
´ایلاء یعنی ناراضگی کی بناء پر بیوی سے علیحدہ رہنے کی قسم کھا لینے کا بیان۔` ابویعفور کہتے ہیں کہ ہم ابوالضحیٰ کے پاس تھے اور ہماری بحث مہینہ کے بارے میں چھڑ گئی، بعض نے کہا کہ مہینہ تیس دن کا ہوتا ہے اور بعض نے کہا: انتیس (۲۹) دن کا۔ ابوالضحیٰ نے کہا: (سنو) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ہم سے حدیث بیان کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک صبح ہم سب کی ایسی آئی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں رو رہی تھیں اور ان سبھی کے پاس ان کے گھر والے موجود تھے، میں مسجد میں پہنچا تو مسجد (کھچا کھچ)۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3485]
اردو حاشہ: (1)”ایلا“ قسم کھانے کو کہتے ہیں۔ یہاں مراد ہے: بیوی سے جماع نہ کرنے کی قسم کھا لینا۔ اگر کبھی خاوند بیوی سے ناراض ہوجائے اور ایسی قسم کھا لے تو اس پر کاربند رہ سکتا ہے لیکن چار ماہ تک۔ اس سے زائد کی اجازت نہیں۔ اگر کوئی شخص چار ماہ سے زیادہ مدت کی قسم کھائے گا تو پھر چار ماہ گزرنے پر اسے یا تو قسم ختم کرکے جماع کرنا ہوگا اور قسم کا کفارہ دینا ہوگا یا پھر طلاق دینی ہوگی۔ اگر وہ دونوں باتوں سے انکار کرے تو حاکم وقت (قاضی وغیرہ) اپنے اختیارات کے تحت عورت پر طلاق لاگو کردے گا۔ اور وہ عورت خاوند سے جدا ہوجائے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے قسم ہی صرف ایک ماہ کی کھائی تھی۔ اور قسم پوری فرما دی۔ (2)”رورہی تھیں“ انہیں یہ خیال ہوگیا تھا کہ شاید ایسی قسم کھانے سے طلاق پڑجاتی ہے۔ یا ممکن ہے آپ کی ناراضی اور جدائی کی بنا پر رورہی ہوں۔ (3)”کسی نے جواب نہ دیا“ یعنی اندر آنے کی اجازت نہ دی۔ سلام کا جواب آہستہ دے لیا ہو گا۔ (4)”انتیس دن“ کیونکہ مہینہ انتیس کا بھی ہوسکتا ہے‘ تیس کا بھی۔ شریعت نے انتیس دن کو پورا مہینہ قراردیا ہے‘ لہٰذا اگر قسم ایک ماہ کی ہو تو انتیس دن بعد وہ قسم پوری ہوجائے گی‘ چاہے کسی بھی چیز کے بارے میں ہو۔ (5) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرمﷺ کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے اور ہر چھوٹی بڑی پریشانی میں اپنا ہر قسم کا تعاون کرنے کے لیے مسابقت کرتے تھے۔رَضِیَ اللّٰہُ عَنْهم وَرَضُوْعَنْه۔ (6) ضرورت کے تحت ایک سے زائد منزلہ عمارت بنائی جاسکتی ہے لیکن اس کی بناوٹ ایسی ہو کہ پڑوسیوں کے گھروں میں نظر نہ پڑے تاکہ انہیں پریشانی کا سامنا نہ ہو۔ (7) قسم کھانے والے کے بارے میں اگر یہ شبہ ہو کہ یہ بھول گیا ہے تو اسے یاد کرا دینا چاہیے جیسا کہ آئندہ حدیث میں آرہا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3485
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5201
´کیا (مل کر) جدا ہو جانے والا دوبارہ ملنے پر سلام کرے؟` عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ اپنے ایک کمرے میں تھے، اور کہا: اللہ کے رسول! ”السلام عليكم“ کیا عمر اندر آ سکتا ہے ۱؎؟۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5201]
فوائد ومسائل: یہ ایک لمبی حدیث کا حصہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ نے پہلی اور دوسری بار اجازت طلب کی تو نہ ملی پھر طلب کی تو مل گئی۔ اس وقفے میں آپ بار بار السلام علیکم کہتے رہے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5201
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3691
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کی تو میں مسجد میں داخل ہوا، اور لوگوں کو دیکھا کہ وہ کنکریوں کے ساتھ زمین پر نکتے لگا رہے یعنی زمین کھود رہے ہیں، (غم اور فکر کی بنا پر) اور کہہ رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے اور یہ پردہ اترنے سے پہلے کی بات ہے۔ ابھی انہیں پردے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3691]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) یَنْكُتُوْنَ بِالْحِصيٰ: زمین پر فکر مند اور غمزدہ ہو کر کنکریوں کے ساتھ نکتے لگارہے تھے۔ (2) عَلَيْكَ بِعَيْبَتِكَ: عَيْبَةٌ: اس برتن یا ہتھیلی کو کہتے ہیں جس میں انسان اپنے بہترین کپڑے اور قیمتی اشیاء محفوظ کرتا ہے، مراد اپنی اصل دلچسپی کی چیز ہے یعنی اپنی بیٹی حفصہ کو وعظ و نصیحت کرو۔ (3) لَوْلَا اَنَا لَطَلَّقَكِ رَسُوْلُ اللهِ: میرے لحاظ اور رعایت کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں طلاق نہیں دے رہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت حفصہ کو طلاق دے دی تھی، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خاطر اور ان کے روزہ دار اور تہجد گزار ہونے کی بنا پر، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کورجوع کا حکم ملا تھا۔ (4) مَشْرُبَةٍ: مشروب خانہ، مَشْرُبَۃ: بالاخانہ۔ (5) أُسْكُفَّةٌ: چوکھٹ، دہلیز۔ (6) قَرَظٌ: کیکرکے پتے، جن سے کچے چمڑے رنگے جاتے ہیں۔ أَفِیْقٌ: وہ چمڑا جو ابھی پوری طرح رنگا نہ گیا ہو۔ (7) وَاِنْ تَظَاهَرَ اعَلَيْهِ: اے عائشہ و حفصہ! اگر تم دونوں ایک ایسے کام پر ایکا اور اتفاق کر لو جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تکلیف دہ ہے اور اس کا راز ظاہر کر دو، تو تم ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ، جبریل، مومن اور فرشتے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےمعاون و مددگار ہیں۔ (8) تَحَسَّرالْغَضَبُ عَنْ وَجْهِهِ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ انور سے غصہ کے آثار مٹ گئے۔ (9) کَشَرَ: مسکراہٹ سے دانت ظاہر ہو گئے۔ (10) أَتَشَبَّثُ بِاْلجِذْعِ: (میں گرنے کے خوف سے) تنے کو پکڑ کر اتر رہا تھا۔ (11) وَمَا يَمَسُّهُ بِيَدِهِ: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی اعتماد و وثوق سے بلا خوف و خطر، بغیر سہارا لیے (ہاتھ لگائے) اتر رہے تھے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کو تخییر دینے کا واقعہ پردہ کے احکام نازل ہونے سے پہلے پیش آیا ہے، حالانکہ واقعہ تخییر کے وقت حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما مدینہ منورہ میں موجود تھے، اور وہ اپنے والدین کے ساتھ فتح مکہ 8 ہجری کے بعد مدینہ منورہ آئے ہیں اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آ چکی تھیں اور پردہ کے احکام انہیں کی شادی کے موقع پر ان کے ولیمہ میں 4 ہجری یا 5 ہجری میں نازل ہو چکے تھے۔ اس لیے وا قعہ تخییر کو پردہ کے احکام نازل ہونے سے پہلے قرار دینا محض راوی کا وہم ہے جو اسے اس لیے پیدا ہو گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئے اور ان سے پوچھا حالانکہ سوال و جواب پس پردہ ہوئے تھے نیز اس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے، کہ آیت: ﴿وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ) جب امن یا جنگ کی کوئی بات ان کے سامنے آتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں جبکہ مشہور یہ ہے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ اس آیت کا نزول جنگی معاملات کی تشہیر جو منافق غلط طریقہ سے مسلمانوں میں بد دلی پھیلانے کے لیے کرتے تھے، کہ سلسلہ میں ہوا ہے، تو یہ دونوں قسم کے واقعات حالت امن میں غلط طور پر طلاق دینے کی تشہیر اور حالت جنگ میں جھوٹی جنگی خبروں کی تشہیر کے سلسلہ میں نازل ہوئی یا دونوں اس کا مصداق ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جس واقعہ پر کوئی آیت چسپاں ہوتی یا اس پر صادق آتی اگرچہ نزول کے بعد یا پہلے پیش آ چکا ہوتا تو کہہ دیتے (نُزِلَت فِي كَذا) یہ واقعہ بھی اس کا مصداق ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3691
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:89
89. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں اور میرا ایک انصاری پڑوسی بنو امیہ بن زید کے گاؤں میں رہا کرتے تھے جو مدینے کی (مشرقی جانب) بلندی کی طرف تھا۔ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں باری باری آتے تھے۔ ایک دن وہ آتا اور ایک دن میں۔ جس دن میں آتا، اس روز کی وحی وغیرہ کا حال میں اسے بتا دیتا اور جس دن وہ آتا وہ بھی ایسا ہی کرتا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ میرا انصاری دوست اپنی باری پر گیا۔ (جب واپس آیا تو) اس نے میرے دروازے پر زور سے دستک دی اور کہنے لگا کہ وہ (عمر) یہاں ہیں؟ میں گھبرا کر باہر آیا تو وہ بولا: آج ایک بہت بڑا سانحہ ہوا ہے۔ (رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی ہے۔) میں حفصہ ؓ کے پاس گیا تو وہ رو رہی تھی۔ میں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے تمہیں طلاق دے دی ہے؟ وہ بولیں: مجھے علم نہیں ہے۔ پھر میں نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور کھڑے کھڑے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:89]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ انسان کو دینی اور دنیوی ضروریات کے لیے علم حاصل کرنا ضروری ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی مصروفیات میں اس طرح پھنس جاتا ہے کہ اسے حصول علم کے لیے وقت نہیں ملتا۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ چند ساتھی مل کر ایک کمیٹی بنا لیں اور تقسیم کار کر لیں، ایک دن ایک شخص عالم دین کی خدمت میں حاضری دے اور دینی باتیں سیکھ کر اپنے دوسرے ساتھیوں کو سنائے۔ دوسرے دن دوسرا حاضری دے اور پہلا کاروباری مصروفیات انجام دے۔ اس طرح بآسانی یہ لوگ علم دین حاصل کرسکیں گے۔ مذکورہ حدیث میں اس طریقے کا ذکر ہے۔ آج کل تو دینی علوم پر مشتمل بہترین کتابیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں، ان کتابوں کو مہیا کرنے میں عالمی ادارہ دارالسلام سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ خطباء واعظین گاؤں گاؤں قریہ قریہ جاکر اہل دیہہ کو تعلیم دیتے ہیں، لہٰذا اس دور میں جہالت کاکوئی عذر باقی نہیں رہنا چاہیے۔ 2۔ اس حدیث سے خبر واحد کی حجیت اور مراسیل صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین پر عمل کرنے کا پتہ چلتا ہے، نیز طالب علم کے لیے ہدایت ہے کہ وہ اپنے معاشی حالات پر بھی نظر رکھے اور جس دن مجلس علم میں حاضر نہ ہوسکے اس دن کی دینی معلومات حاصل کرنے کے لیے کسی کوتاہی کو اپنے پاس نہ آنے دے۔ (فتح الباري 245/1) 3۔ اہل مکہ کی عورتیں اپنے خاوندوں سے مرعوب رہتی تھیں جبکہ مدینے میں اس کے برعکس عورتوں کا غلبہ تھا۔ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ متفکر بیٹھے تھے کہ ان کی بیوی نے اس کی وجہ پوچھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں اس لیے پریشان ہوں کہ تم ہر کام میں دخل دیتی ہو۔ بیوی نے جواب دیا: آپ خواہ مخواہ ناراض ہو رہے ہیں۔ اس میں میرا کیا قصور ہے، ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملات میں مداخلت کرتی ہیں۔ اس سے آپ کو تکلیف پہنچی، فوراً تیاری کر کےحضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سمجھانے کے لیے تشریف لے گئے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4913) اس سے معلوم ہوا کہ اپنی بیٹیوں کو خاوند کی اطاعت اور فرمانبرداری کی نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔ دیگر تفصیلات کتاب النکاح میں ذکر کی جائیں گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 89
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7263
7263. سیدنا عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ ﷺ اپنے بالاخانہ میں تشریف فرما تھے اور آپ کا سیاہ غلام سیڑھی کے اوپر تعینات تھا۔ میں نے اس سے کہا: (رسول اللہ ﷺ سے) عرض کرو: عمر بن خطاب کھڑا اجازت طلب کر رہا ہے چنانچہ آپ نے مجھے اجازت دے دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7263]
حدیث حاشیہ: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ خبر سنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دی ہے۔ تو وہ بہت فکر مند ہوئے۔ اس امر کی تحقیق کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو وہاں سیڑھیوں پر ایک دربان تعینات تھا۔ انھوں نے اس سے کہا: میرے لیےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندرآنے کی اجازت طلب کرو۔ چنانچہ وہ اکیلا تھا اور اس کے اجازت لینے پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اعتماد کیا اور اس کی اطلاع کو قابل یقین خیال کیا۔ اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خبر واحد کی حجیت کو ثابت کیا ہے۔ بہر حال خبر واحد حجت ہے خواہ اس کا تعلق ایمانیات سے ہویا اعمال سے اس قسم کی تفریق خود ساختہ اور بناوٹی ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7263