ہم سے سلیمان بن عبدالرحمٰن اور علی بن حجر نے بیان کیا، ان دونوں نے کہا کہ ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبر دی، اس نے کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہوں نے اپنے بھائی عبداللہ بن عروہ سے، انہوں نے اپنے والد عروہ بن زبیر سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے کہا کہ گیارہ عورتوں کا ایک اجتماع ہوا جس میں انہوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ مجلس میں وہ اپنے اپنے خاوند کا صحیح صحیح حال بیان کریں کوئی بات نہ چھپاویں۔ چنانچہ پہلی عورت (نام نامعلوم) بولی میرے خاوند کی مثال ایسی ہے جیسے دبلے اونٹ کا گوشت جو پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہوا ہو نہ تو وہاں تک جانے کا راستہ صاف ہے کہ آسانی سے چڑھ کر اس کو کوئی لے آوے اور نہ وہ گوشت ہی ایسا موٹا تازہ ہے جسے لانے کے لیے اس پہاڑ پر چڑھنے کی تکلیف گوارا کرے۔ دوسری عورت (عمرہ بنت عمرو تمیمی نامی) کہنے لگی میں اپنے خاوند کا حال بیان کروں تو کہاں تک بیان کروں (اس میں اتنے عیب ہیں) میں ڈرتی ہوں کہ سب بیان نہ کر سکوں گی اس پر بھی اگر بیان کروں تو اس کے کھلے اور چھپے سارے عیب بیان کر سکتی ہوں۔ تیسری عورت (حیی بنت کعب یمانی) کہنے لگی، میرا خاوند کیا ہے ایک تاڑ کا تاڑ (لمبا تڑنگا) ہے اگر اس کے عیب بیان کروں تو طلاق تیار ہے اگر خاموش رہوں تو ادھر لٹکی رہوں۔ چوتھی عورت (مہدو بنت ابی ہرومہ) کہنے لگی کہ میرا خاوند ملک تہامہ کی رات کی طرح معتدل نہ زیادہ گرم نہ بہت ٹھنڈا نہ اس سے مجھ کو خوف ہے نہ اکتاہٹ ہے۔ پانچوں عورت (کبشہ نامی) کہنے لگی کہ میرا خاوند ایسا ہے کہ گھر میں آتا ہے تو وہ ایک چیتا ہے اور جب باہر نکلتا ہے تو شیر (بہادر) کی طرح ہے۔ جو چیز گھر میں چھوڑ کر جاتا ہے اس کے بارے میں پوچھتا ہی نہیں (کہ وہ کہاں گئی؟) اتنا بےپرواہ ہے جو آج کمایا اسے کل کے لیے اٹھا کر رکھتا ہی نہیں اتنا سخی ہے۔ چھٹی عورت (ہند نامی) کہنے لگی کہ میرا خاوند جب کھانے پر آتا ہے تو سب کچھ چٹ کر جاتا ہے اور جب پینے پر آتا ہے تو ایک بوند بھی باقی نہیں چھوڑتا اور جب لیٹتا ہے تو تنہا ہی اپنے اوپر کپڑا لپیٹ لیتا ہے اور الگ پڑ کر سو جاتا ہے میرے کپڑے میں کبھی ہاتھ بھی نہیں ڈالتا کہ کبھی میرا دکھ درد کچھ تو معلوم کرے۔ ساتویں عورت (حیی بنت علقمہ) میرا خاوند تو جاہل یا مست ہے۔ صحبت کے وقت اپنا سینہ میرے سینے سے اوندھا پڑ جاتا ہے۔ دنیا میں جتنے عیب لوگوں میں ایک ایک کر کے جمع ہیں وہ سب اس کی ذات میں جمع ہیں (کم بخت سے بات کروں تو) سر پھوڑ ڈالے یا ہاتھ توڑ ڈالے یا دونوں کام کر ڈالے۔ آٹھویں عورت (یاسر بنت اوس) کہنے لگی میرا خاوند چھونے میں خرگوش کی طرح نرم ہے اور خوشبو میں سونگھو تو زعفران جیسا خوشبودار ہے۔ نویں عورت (نام نامعلوم) کہنے لگی کہ میرے خاوند کا گھر بہت اونچا اور بلند ہے وہ قدآور بہادر ہے، اس کے یہاں کھانا اس قدر پکتا ہے کہ راکھ کے ڈھیر کے ڈھیر جمع ہیں۔ (غریبوں کو خوب کھلاتا ہے) لوگ جہاں صلاح و مشورہ کے لیے بیٹھتے ہیں (یعنی پنچائت گھر) وہاں سے اس کا گھر بہت نزدیک ہے۔ دسویں عورت (کبشہ بنت رافع) کہنے لگی میرے خاوند کا کیا پوچھنا جائیداد والا ہے، جائیداد بھی کیسی بڑی جائیداد ویسی کسی کے پاس نہیں ہو سکتی بہت سارے اونٹ جو جابجا اس کے گھر کے پاس جٹے رہتے ہیں اور جنگل میں چرنے کم جاتے ہیں۔ جہاں ان اونٹوں نے باجے کی آواز سنی بس ان کو اپنے ذبح ہونے کا یقین ہو گیا۔ گیارھویں عورت (ام زرع بنت اکیمل بنت ساعدہ) کہنے لگی میرا خاوند ابوزرع ہے اس کا کیا کہنا اس نے میرے کانوں کو زیوروں سے بوجھل کر دیا ہے اور میرے دونوں بازو چربی سے پھلا دئیے ہیں مجھے خوب کھلا کر موٹا کر دیا ہے کہ میں بھی اپنے تئیں خوب موٹی سمجھنے لگی ہوں۔ شادی سے پہلے میں تھوڑی سے بھیڑ بکریوں میں تنگی سے گزر بسر کرتی تھی۔ ابوزرعہ نے مجھ کو گھوڑوں، اونٹوں، کھیت کھلیان سب کا مالک بنا دیا ہے اتنی بہت جائیداد ملنے پر بھی اس کا مزاج اتنا عمدہ ہے کہ بات کہوں تو برا نہیں مانتا مجھ کو کبھی برا نہیں کہتا۔ سوئی پڑی رہوں تو صبح تک مجھے کوئی نہیں جگاتا۔ پانی پیوں تو خوب سیراب ہو کر پی لوں رہی ابوزرعہ کی ماں (میری ساس) تو میں اس کی کیا خوبیاں بیان کروں۔ اس کا توشہ کھانا مال و اسباب سے بھرا ہوا، اس کا گھر بہت ہی کشادہ۔ ابوزرعہ کا بیٹا وہ بھی کیسا اچھا خوبصورت (نازک بدن دبلا پتلا) ہری چھالی یا ننگی تلوار کے برابر اس کے سونے کی جگہ ایسا کم خوراک کہ بکری کے چار ماہ کے بچے کا دست کا گوشت اس کا پیٹ بھر دے۔ ابوزرعہ کی بیٹی وہ بھی سبحان اللہ کیا کہنا اپنے باپ کی پیاری، اپنی ماں کی پیاری (تابع فرمان اطاعت گزار) کپڑا بھر پور پہننے والی (موٹی تازی) سوکن کی جلن۔ ابوزرعہ کی لونڈی اس کی بھی کیا پوچھتے ہو کبھی کوئی بات ہماری مشہور نہیں کرتی (گھر کا بھید ہمیشہ پوشیدہ رکھتی ہے) کھانے تک نہیں چراتی گھر میں کوڑا کچڑا نہیں چھوڑتی مگر ایک دن ایسا ہوا کہ لوگ مکھن نکالنے کو دودھ متھ رہے تھے۔ (صبح ہی صبح) ابوزرعہ باہر گیا اچانک اس نے ایک عورت دیکھی جس کے دو بچے چیتوں کی طرح اس کی کمر کے تلے دو اناروں سے کھیل رہے تھے (مراد اس کی دونوں چھاتیاں ہیں جو انار کی طرح تھیں)۔ ابوزرعہ نے مجھ کو طلاق دے کر اس عورت سے نکاح کر لیا۔ اس کے بعد میں نے ایک اور شریف سردار سے نکاح کر لیا جو گھوڑے کا اچھا سوار، عمدہ نیزہ باز ہے، اس نے بھی مجھ کو بہت سے جانور دے دئیے ہیں اور ہر قسم کے اسباب میں سے ایک ایک جوڑا دیا ہوا ہے اور مجھ سے کہا کرتا ہے کہ ام زرع! خوب کھا پی، اپنے عزیز و اقرباء کو بھی خوب کھلا پلا تیرے لیے عام اجازت ہے مگر یہ سب کچھ بھی جو میں نے تجھ کو دیا ہوا ہے اگر اکٹھا کروں تو تیرے پہلے خاوند ابوزرعہ نے جو تجھ کو دیا تھا، اس میں کا ایک چھوٹا برتن بھی نہ بھرے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 5189]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5189
حدیث حاشیہ: یعنی ابوزرعہ کے مال کے سامنے یہ سارا مال بے حقیقت ہے مگر میں تجھ کو ابو زرعہ کی طرح طلاق دینے والا نہیں ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سارا قصہ سنا نے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے عائشہ (رضی اللہ عنہا) ! میں بھی تیرے لئے ایسا خاوند ہوں جیسے ابو زرع ام زرع کے لئے تھا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا حضرت سعید بن سلمہ نے بھی اس حدیث کو ہشام سے روایت کیا ہے اس میں لونڈی کے ذکر میں الفاظ ولا تملا بیتنا تعشیشا کی جگہ ولاتعشش بیتنا تعشیشا کے لفظ ہیں (معنی وہی ہیں کہ وہ لو نڈی ہمارے گھر میں کوڑ ا کچڑا رکھ کر اسے میلا کچیلا نہیں کرتی۔ بعضوںنے اسے لفظ عنیق سے پڑھا ہے جس کے معنیٰ یہ ہوںگے کہ وہ ہم سے کبھی دغا فریب نہیں کرتی) نیز حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کہاکہ (الفاظ واشرب فاتفخ میں) بعض لوگوں نے فاتقمح میم کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے۔ 1 مطلب یہ کہ اس کاخاوند بخیل ہے جس سے کچھ فائدے کی امید نہیں دوسرے یہ کہ وہ بد خلق آدمی ہے محض بیکار۔ 2 یا میں ڈرتی ہوں کہ میرے خاوند کو کہیں خبر نہ ہوجائے اور وہ مجھے طلاق دے دے جبکہ میں اس کو چھوڑ بھی نہیں سکتی۔ 3مگر میرے لئے خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔ 4نہ طلاق ملے کہ دوسرا خاوند کرلوں نہ اس خاوند سے کوئی سکھ ملنا ہے۔ 5یعنی آیا کہ سورہا گھر گر ہستی سے اسے کچھ مطلب نہیں ہے۔ یا تو آتے ہی مجھ پر چڑھ بیٹھتاہے نہ کلمہ نہ کلام نہ بوس وکنار۔ 6مطلب یہ ہے کہ بڑا پیٹو ہے مگر میرے لئے نکما۔ 7یعنی اول تو شہوت کم، عورت کا مطلب پورا نہیں کرتا اس پر بدخوکہ بات کرو تو کاٹ کھانے پر موجود، مارنے کو ٹنے پر تیار۔ 8 زعفران کا ترجمہ ویسے بامحاورہ کردیا ورنہ زرنب ایک درخت کا چھلکا ہے جو زعفران کی طرح خوشبودار اور رنگ دار ہوتا ہے۔ اس نے اپنے خاوند کی تعریف کی کہ ظاہر ی اور باطنی اس کے دونوں اخلاق بہت اچھے ہیں۔ 9 اس لئے ایسے لوگ جہاں صلاح ومشورہ کے لئے بلاتے ہیں وہاں اس کی رائے پر عمل کرتے ہیں۔ 10تاکہ مہمان لوگ آئیں تو ان کا گوشت اور دودھ ان کو تیار ملے۔ 11 یہ باجا مہمانوں کے آنے پر خوشی سے بجایا جاتا تھاکہ اونٹ سمجھ جاتے کہ اب ہم مہمانوں کے لئے کاٹے جائیں گے۔ 12 یعنی چھریرے جسم والا نازک کمر والا جو سوتے وقت بستر پر ٹکتی ہے۔ 13کہ سوکن اس کی خوبصورتی اور ادب ولیاقت پر رشک کرکے جلی جاتی ہے۔ 14ہمیشہ گھر کو جھاڑ پونچھ کر صاف ستھرا رکھتی ہے الغرض سارا گھر نور علیٰ نور ہے۔ ابو زرعہ سے لے کر اس کی ماں بیٹی بیٹا لونڈی باندی سب فرد فرید ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5189
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5189
حدیث حاشیہ: (1) عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کے سلسلے میں حدیث ام زرع بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں کوئی افسانوی آمیزش نہیں بلکہ ایک حقیقت کو بیان کیا گیا ہے، بلکہ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ بیان کیا ہے، چنانچہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ”میری تیرے ساتھ وہی حیثیت ہے جو ابو زرع کی ام زرع کے ساتھ تھی۔ “ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی: اللہ کے رسول!ابو زرع کون تھا؟ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ بیان فرمایا۔ (السنن الکبریٰ للنسائي: 385/5، رقم: 9139، و فتح البار۱: 318/9)(2) اس واقعے میں دور جاہلیت میں اندرون خانہ کی خوب عکاسی کی گئی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد تو ابو زرع کے کردار کو نمایاں کرنا ہے کیونکہ عورتوں سے حسن معاشرت کو اسی کردار سے ثابت کیا گیا ہے۔ دراصل عورت ذات اپنے خاوند کے سلسلے میں کچھ بخیل ثابت ہوئی ہے۔ وہ اس کی فدا کاری، جاں نثاری اور وفاداری کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کرتی۔ ایک حدیث میں ہے کہ اکثر عورتیں جو جہنم کا ایندھن بنیں گی، ان میں یہی ”ناشکری“ ہوگی لیکن اس حدیث کے مطابق ام زرع نے تو کمال کر دکھایا ہے۔ اس نے ابو زرع کی ہی تعریف نہیں کی بلکہ اس نے ابو زرع کی ماں، ابو زرع کے بیٹے، اس کی بیٹی اور اس کی لونڈی کی بھی خوب خوب تعریف کی ہے۔ ابوزرع کی محبت تو اس کے دل کے نہاں خانے میں اس طرح پیوست ہو چکی تھی کہ طلاق ملنے کے بعد بھی وہ اسے فراموش نہیں کر پائی بلکہ اس کی مہر و وفا کو بڑے خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ”محبت تو پہلے حبیب کے لیے ہی ہوتی ہے۔ “(فتح الباري: 341/9)(3) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ”اے عائشہ! میں بھی تیرے لیے اسی طرح ہوں جس طرح ام زرع کے لیے ابو زرع تھا،بلکہ میں تو اس سے بڑھ کر ہوں کیونکہ اس نے زندگی کے آخری حصے میں ام زرع کو طلاق دےدی تھی لیکن میں تجھے طلاق نہیں دوں گا۔ “ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے عرض کی: اللہ کے رسول!میرے ماں باپ آپ پر فداہوں! میرے لیے آپ کی حیثیت ابو زرع سے بھی بڑھ کر ہے۔ (المعجم الکبیر للطبراني: 164/23، 171، 173، و فتح الباري: 341/9)(4) دل چاہتا ہے کہ اس حدیث کے ایک ایک لفظ کی وضاحت کروں اور اس میں بیان کردہ بیویوں کے اپنے خاوندوں کے متعلق جذبات کی تشریح کروں لیکن اس وضاحت و تشریح میں کچھ رکاوٹیں حائل ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس مقصد کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے ہم نے اسے کھول کر بیان کر دیا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمين
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5189
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6305
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،گیارہ سہیلیاں بیٹھیں اور انہوں نے باہمی عہدوپیمان باندھا کہ وہ اپنے خاندان کے حالات سے کوئی چیز چھپائیں گی نہیں، پہلی عورت نے کہا کہ میرا خاوند گویا دبلے اونٹ کا گوشت ہے، جو ایک دشوار گزار پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہو۔ نہ تو وہاں تک صاف راستہ ہے کہ کوئی چڑھ جائے اور نہ وہ گوشت موٹا ہے کہ لایا جائے۔ دوسری عورت نے کہا کہ میں اپنے خاوند کی خبر نہیں پھیلا سکتی میں ڈرتی ہوں کہ اگر بیان کروں تو پورا بیان نہ کر سکوں گی کیونکہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6305]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) لحم جمل غث: دبلا پتلا، جو لاغر ہونے کی بنا پر ناپسندیدہ ہو، اگر اس کو لحم گوشت کی صفت بنائیں تو مرفوع ہو گا اور جمل اونٹ، کی صفت ہونے کی صورت میں مجرور، یعنی گوشت بھی اونٹ کا ہے، جو سب گوشتوں میں نکما ہے اور ہے بھی کمزور اور لاغر اونٹ کا۔ (2) جبل وعر: دشوار گزار پہاڑ جس پر چڑھنا مشکل ہے، کیونکہ رستہ دشوار گزار ہے۔ (3) لا سهل فيرتضي: راستہ آسان اور سہل نہیں ہے کہ سہولت و آسانی کی خاطر ایک نکمی اور کم قیمت چیز کی خاطر بھی طے کر لیا جائے۔ (4) لاسمين فينتقل: موٹا تازہ یعنی قیمتی چیز نہیں ہے کہ اس کی خاطر مشقت اور تکلیف برداشت کرتے ہوئے مشکل گزار راستہ عبور کر لیا جائے، عورت کا مقصد یہ ہے کہ اس کا خاوند، بہت کم فائدہ بخش ہے، اور اس سے فائدہ کا حصول بھی بہت مشکل ہے، یعنی بدخلق ہونے کے ساتھ بخیل اور کنجوس بھی ہے اور اپنے آپ کو بہت بلند و بالا اور برتر بھی خیال کرتا ہے۔ (5) لا ابت خبره: میں اس کی حالت کو نشر نہیں کرنا چاہتی۔ اني اخاف ان لا اذره: مجھے اندیشہ ہے کہ میں اس کی حالت بیان کیے بغیر نہیں رہوں گی اور بات مکمل نہیں ہو سکے گی، یا اگر میں نے اس کے عیوب و نقائص بیان کر دئیے تو وہ مجھے طلاق دے دے گا اور میں اپنی اولاد اور اس سے تعلق خاطر کی بنا پر اس کو چھوڑ نہیں سکوں گی، یا اگر اَن کے بعد لا زائدہ مان لیا جائے جیسا کہ (6) ما منعك ان لا تسجد: میں ان کے بعد لا زائدہ ہے تو معنی ہو گا، مجھے خطرہ ہے کہ وہ مجھے طلاق دے دے گا اور مجھے اسے چھوڑنا پڑے گا۔ (7) أذكر عجره و بجرة: اس کے ظاہری اور باطنی عیوب و نقائص یا اس کے ظاہری عیوب اور پوشیدہ راز بیان کروں گی، اس طرح اس نے اجمالی طور پر اس کے تمام عیوب کی طرف اشارہ کر دیا، لیکن تفصیل میں جانے سے گریز کیا۔ (8) عشنق: لمبا تڑنگا اور بقول بعض اپنی ہٹ کا پکا، اپنی بات منوانے والا، اس لیے اس کی ہیبت و رعب کی بنا پر اس کی بیوی دل کی بات زبان پر نہیں لا سکتی اور کڑوا گھونٹ پی کر رہ جاتی ہے، اس لیے اس کی بیوی اپنی ناگفتہ بہ حالت پر چپ چاپ رہ کر گزارہ کر رہی ہے، کیونکہ اگر وہ زبان کھولے گی تو اسے طلاق مل جائے گی، جس کے لیے وہ آمادہ نہیں ہے، اب اگر خاموش ہے اور اپنی ناخوش گوارا حالت پر صابر و شاکر ہے تو معلقہ ہے، نہ بیوی نہ بیوہ، یہی مقصد ہے، ان انطق أطلق و ان أشكت اعلق کا۔ (9) زوجي كليل تهامة: تہامہ کی رات بہت خوشگوار ہوتی ہے، کیونکہ لا حر ولا قر، جس میں نہ گرمی کی شدت وحدت اور نہ ٹھنڈ اور سردی کی شدت بلکہ معتدل اور متوازن، گویا اس کا خاوند معتدل مزاج ہے اور اس کے لیے خوشگواری کا سبب ہے۔ (10) لا مخافة ولا سامة: نہ اس سے اذیت و تکلیف پہنچنے کا دھڑکا اور نہ اس کی رفاقت و صحبت سے اکتاہٹ و ملال، کریمانہ اخلاق کا مالک۔ (11) ان دخل فهد: گھر میں داخل ہوتا ہے تو مجھ سے محبت و پیار کی وجہ سے مجھ سے دور نہیں رہ سکتا، یا تندخو اور بدخلق ہے، تعلقات سے قبل ہنسی مذاق نہیں کرتا، درندوں کی طرح چڑھ دوڑتا ہے، یا سوتڑ ہے، گھر میں سویا رہتا ہے، گھر کا مال و متاع، بیوی کے سپرد کر چھوڑا ہے، اس کا کبھی حساب کتاب نہیں مانگا۔ (12) ان خرج أسد: گھر کے باہر بڑا دلیر اور جری ہے، دشمن اس سے خوف کھاتے ہیں، خاندان پر اس کی ہیبت اور دبدبہ ہے۔ (13) لا يسئل عم عهد: گھر کے حالات کے بارے میں نہیں پوچھتا، یعنی ہر چیز فراوانی سے مہیا کرتا ہے اور پھر حساب کتاب نہیں مانگتا، یا پھر گھر کے حالات کی اسے کوئی پرواہ نہیں، کوئی مرے یا جئے، تندرست ہو یا بیمار، اس نے نہیں پوچھنا۔ (14) ان اكل لف: پیٹو ہے، سب کچھ چٹ کر جاتا ہے، کیونکہ لف کا معنی ہے، زیادہ سے زیادہ کھانا اور کسی کے لیے کچھ نہ چھوڑنا۔ (15) ان شرب اشتف: جب پینا شروع کرتا ہے تو برتن میں ایک قطرہ نہیں چھوڑتا، یعنی حیوانات کی طرح صرف کھانے پینے کا شوق رکھتا ہے اور سب کچھ خود ہی ہضم کر جاتا ہے، کسی اور کو ملے یا نہ ملے۔ (16) ان اضطجع التف: کھا پی کر، الگ تھلگ ہو کر سمٹ سمٹا کر سو جاتا ہے۔ (17) لا يولج الكف: اپنی ہتھیلی بیوی کی طرف نہیں بڑھاتا، اس سے بے رخی اور بے نیازی برتتا ہے۔ (18) ليعلم البت: اس کے غم و حزن اور کلفت جانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا، مقصد یہ ہے گھر والوں کی اسے پرواہ ہی نہیں ہے کہ ان کی ضروریات معلوم کر کے ان کو پورا کرنے کی طرف توجہ کرے۔ (19) غياياء: اگر غياية سے ماخوذ ہے تو معنی ظلمت و تاریکی ہے، یعنی وہ کسی چیز سے آگاہ اور واقف نہیں ہے، امور زندگی سے نابلد ہے، اگر غي بمعنی شر سے ماخوذ ہے تو معنی ہو گا، ہر وقت شرارت میں مگن ہے اور اگر غي بمعنی خيبة ناکامی سے ماخوذ ہے تو معنی ہے، ہر کام میں ناکام و نامراد ہے۔ عياياء: یعنی عاجز و بے بس، نہ کام کر سکے، نہ بول سکے اور بقول بعض نامرد، جو عورت کے پاس نہ جا سکے۔ طباقاء: حماقت میں غرق، یا گراں بار، جو عورت سے صحیح طور پر تعلقات قائم نہ کر سکے، اپنا سینہ، عورت کے سینہ سے ملا دے اور پچھلا حصہ عورت سے اٹھ جائے، كل داء له داء: تمام عیوب کا مجسمہ۔ جو عیب و نقائص لوگوں میں الگ الگ موجود ہیں، وہ سب اس میں جمع ہیں۔ (20) شجك: تیرا سر پھوڑے گا، او فلك: یا تیری ہڈی توڑے گا یا تیرا سب کچھ چھین لے گا۔ (21) او جمع كلا لك: یا یہ دونوں کام کرے گا، سر پھوڑے گا، ہڈی پسلی توڑے گا، جب تیرے ساتھ یہ سلوک کرے گا، جبکہ تو غیر سے ہے تو میرا حشر کیا کرتا ہو گا۔ (22) الريح ريح زرنب: زرنب ایک خوشبودار بوٹی ہے، یا ایک بہترین خوشبو ہے۔ (23) والمس مس ارنب: اس کو چھونا، خرگوش کو چھونا ہے، یعنی انتہائی صاف ستھرا رہتا ہے اور انتہائی نرم خو ہے اور شیریں گفتار ہے، نرم و گداز جسم کا مالک ہے۔ (24) رفيع العماد: بلند حسب و نسب کا مالک ہے، یا بلند و بالا عمارت کا مالک ہے، اس کی شہرت و چرچا ہر جگہ ہے، مہمانوں اور ضرورت مندوں کو اس کا گھر دور ہی سے نظر آ جاتا ہے۔ (25) طويل النجاد: نجاد: تلوار کا پرتلا، بلند و بالا اور دراز قامت ہے، یعنی شجاع اور بہادر ہے، یا وسیع اقتدار کا مالک ہے، ہر جگہ اس کی بات مانی جاتی ہے، (26) عظيم الرماد: ہر وقت اس کے گھر آگ جلتی رہتی ہے اور ہر وقت مہمانوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے، بہت سخی اور مہمان نواز ہے۔ اس لئے گھر میں بہت راکھ جمع رہتی ہے۔ (27) قريب البيت من الناد: مجلس شوریٰ کے قریب گھر ہے، اس کے بغیر کوئی مشورہ نہیں ہوتا، یا اس کی جودوسخا اور مہمان نوازی کی بنا پر مجلس شوریٰ، اس کے گھر کے قریب منعقد ہوتی ہے، یا ہر پکارنے والے کی آواز پر لبیک کہتا ہے۔ (28) مالك خبر من ذالك: مالک کی تعریف و توصیف کے بارے میں، میں جو کچھ کہوں گی، یا اس کے اوصاف کے بارے میں جو بھی تصور قائم کیا جائے، وہ اس سے بلند ہے، یا عورتوں نے اپنے خاوندوں کی تعریف میں جو کچھ کہا ہے، وہ اس سے برتر اور اعلیٰ ہے۔ (29) كثيرات المبارك: اس کے اونٹ زیادہ وقت اپنے باڑوں میں بیٹھتے ہیں، وہ ہر وقت مہمانوں کی آؤ بھگت کے لیے مستعد رہتا ہے، وہ اونٹ چرنے کے لیے باہر نہیں بھیجتا تاکہ مہمان کی آمد پر اسے فوراً دودھ اور گوشت پیش کیا جا سکے۔ (30) قليلات المسارح: چرنے کے لیے باہر بہت کم جاتے ہیں، مبارك، مبرك کی جمع ہے اور مسارح، مسرح کی جمع ہے، یہ دونوں مصدر میمی بھی بن سکتے ہیں اور ظرف زمان و مکان بھی۔ (31) صوت المزهر: بانسری کی آواز، مہمانوں کی آمد پر خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے ان کا استقبال باجے گاجے سے کیا جاتا ہے، جس کی بنا پر أيقن انهن هوالك: انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ اب مہمانوں کے لیے انہیں ذبح کر دیا جائے گا۔ (32) أناس من حلي: أناس: حرکت دی یا بوجھل کروایا جس کی بنا پر نیچے لٹک کر گرنے لگا، حلي، حلية کی جمع ہے زیورات، یعنی میرے کانوں کو بے شمار زیورات سے بوجھل کر دیا ہے۔ (33) ملا من الشحم عضدي: خوب کھلا پلا کر مجھے موٹی تازی کر دیا ہے، یا یہ معنی ہے، میں اس کے ہاں خوش و خرم رہتی ہوں اور پھولے نہیں سماتی، بازو بول کر تمام بدن مراد لیا ہے، یا یہ مراد ہے میں خوب طاقتور اور زور آور ہو گئی ہوں۔ (34) بححني: اس نے مجھے خوش کر دیا ہے، یا بڑا بنا دیا ہے، میری تعظیم و تکریم کرتا ہے۔ (35) فبجحت الي نفسي: جیم پر کسرہ ہے، اگرچہ فتحہ کی گنجائش ہے، میں اپنے آپ سے خوش ہو گئی ہوں، یا اپنے آپ کو بڑا سمجھتی ہوں، مجھے اپنے آپ پر فخر ہے۔ (36) شق: ایک جگہ کا نام ہے، یا جہدومشقت کو کہتے ہیں، یا پہاڑی کونہ، یعنی میں ایک تنگ حال، پرمشقت زندگی والے، چند بکریوں کے مالک خاندان کی فرد تھی۔ (37) اهل صهيل: صهيل، گھوڑے کا ہنہنانا، یعنی گھوڑوں کا مالک۔ (38) اطيط: اونٹوں کی آواز، ان کا بلبلانا۔ (39) اهل الاطيط: اونٹوں والے۔ (40) دائس: دوس، غلہ گھنا، یعنی بیلوں اور کھیت والا۔ (41) منق: غلہ کی صفائی اور تنقید کرنے والا ہے، مقصد یہ ہے کہ ابو زرع ہر قسم کے حیوانات کی کثیر تعداد کا مالک ہے اور بہت بڑا زمیندار ہے، اس طرح گھر میں ہر قسم کی خوشحالی اور فارغ البالی ہے، اگر منق کو نقيق سے ماخوذ مانیں تو معنی ہو گا، پرندوں کو ذبح کرنے والا، یعنی گھر میں پرندے کا گوشت پکتا ہے۔ (42) اقول فلا اقبح: میری بات کا برا نہیں منایا جاتا، میری کوئی بات رد نہیں کی جاتی، یا مجھ پر پھٹکار کر نہیں ڈالی جاتی۔ (43) ارقد ما تصبح: صبح تک سوئی رہتی ہوں، میں اس قدر محبوبہ اور پیاری ہوں کہ امن و سکون کے ساتھ اپنی نیند سوتی ہوں، کوئی میری نیند میں خلل نہیں ڈالتا، اپنی خدمت کے لیے مجھے نہیں لگاتا یا کام کاج اور خدمت کے لیے نوکر چاکر بہت ہیں، اس لیے مجھے صبح صبح نہیں اٹھنا پڑتا۔ (44) اشرب فاتقنح: میں خوب سیراب ہو کر پیتی ہوں، حتی کہ مشروب برتن میں چھوڑتی ہوں، اگر نون کی جگہ ميم ہو یعنی أتقمح، اتنا پیتی ہوں کہ اور پینے کی گنجائش نہیں رہتی، یا خوب سیراب ہو کر سر اٹھاتی ہوں، حالانکہ پانی ہمارے ہاں نایاب ہے۔ (45) عكوم: عكم کی جمع ہے، غلہ کے بورے۔ (46) رداح: بڑے بڑے۔ (47) فساح: وسیع عریض یعنی گھر بہت بڑا، کھلا اور وسیع و عریض ہے، اور اس میں ہر سامان کثرت سے ہے۔ (48) مضجع: آرام گاہ، مسل، مصدر میمی ہے کھینچنا، یا ظرف مکان، کھینچے کی جگہ، یا كمسل شطبة: کھجور کی چھڑی یا تلوار، مطلب یہ ہے، وہ بہت چھریرے بدن کا ہے، ہلکا پھلکا ہے، بھاری بھر کم نہیں ہے، اس لیے بہت کم جگہ گھیرتا ہے، تلوار ہے جو میان سے سونتی گئی ہے۔ (49) تشبعه: ذراع الجفرة: جفره، بکری کا چار ماہ کا بچہ یعنی بہت کم خور، اس کے سیر کرنے کے لیے بکری کے بچے کا ایک بازو ہی کافی ہے، پیٹو نہیں ہے۔ (50) طوع أبيها و طوع امها: (اس کی بیٹی) اپنے باپ کی اطاعت گزار اور اپنی ماں کی فرمانبردار ہے، یعنی دونوں کی وفادار ہے، اس لیے دونوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ (51) ملء كساءها: بھاری بھر کم اور موٹی تازی و تنومند ہونے کی بنا پر اپنی چادر کو بھر لیتی ہے، یعنی خوب لحیم و شحیم ہے، جو عربوں کے ہاں عورتوں کے حق میں پسندیدہ وصف ہے۔ (52) غيظ جارتها: اپنے حسن صورت اور حسن سیرت اور بلند کردار کی بنا پر اپنی سوکن کے لیے غیض و غضب کا باعث ہے، یا پڑوسنیں اس سے جلتی ہیں، کیونکہ سوکن تو ہر حالت میں جلتی ہے۔ (53) لا تبث هديثنا تبثيث: ہمارے گھر کی باتوں کی پھیلاتی یا نشر نہیں کرتی ہے۔ (54) لا تبث حديثنا لا تنقث ميرتنا تنقيثا: ہمارے غلہ کو بالکل خراب نہیں کرتی یا اس کو باہر نہیں لے جاتی، انتہائی امانت اور دیانت سے متصف ہے، خیانت بالکل نہیں کرتی۔ (55) لا تملاء بيتنا تعشيشا: ہمارے گھر کو کوڑے کرکٹ سے نہیں بھرتی، گھر کو انتہائی صاف ستھرا رکھتی ہے، یعنی نظافت پسند ہے، اگر تعشيشا ہو تو عُش (گھونسلہ) کی بجائے غِش: دھوکہ و فریب سے ماخوذ ہو گا، یعنی بددیانتی اور خیانت سے کام نہیں لیتی، یا عفیف اور پاکدامن ہے، اپنی عزت کی حفاظت کرتی ہے۔ (56) ألاوطاب تمخض: اوطاب، وطب کی جمع ہے، دودھ کے برتن، یعنی دودھ کے برتن بلوئے جا رہے تھے، تاکہ مکھن نکالا جائے، یا موسم بہار سے کنایہ ہے کہ سرسبزی و شادابی کا موسم تھا۔ (57) يلعبان من تحت خصرها برمانتين: اس کے بچے کی کوکھ کے نیچے سے، اس کے پستانوں سے کھیل رہے تھے، جو انار کی طرح خوبصورت تھے، گول ہونے کے باوجود لٹک رہے تھے، گویا وہ بھاری بھر کم تھی اور لیٹتے وقت کمر زمین سے اٹھ جاتی تھی، یا اس کی کمر کے نیچے سے گیند کی طرح اناروں کو ادھر ادھر پھینک رہے تھے۔ (58) رجلا سريا: سردار اور شریف آدمی یا صاحب ثروت اور مالدار آدمی۔ (59) ركب شريا: تیز رفتار، اعلیٰ قسم کے گھوڑے پر سوار ہوا، جو مسلسل بلا تکان و فتور بھاگتا ہے۔ اخذ خطيا، نیزہ پکڑا۔ (60) اراح علي نعما ثريا: جو شام کو میرے پاس بے شمار اونٹ یا مویشی لایا، بقول ملا علی قاری نعم سے مراد اونٹ، گائے اور بکری ہے۔ (61) اعطاني من كل به رائحة زوجا: شام کو لوٹنے والا اونٹ، گائے، بھیڑ بکری اور غلاموں کو جوڑا جوڑا کر دیا، یا ہر قسم کے مویشی مجھے مہیا کیے۔ (62) كنت لك كابي زرع لام زرع: میں تیرے لیے اس طرح ہوں جس طرح ابو زرع ام زرع کے لیے تھا، بعض جگہ یہ تصریح ہے۔ (63) في الالفة والرفاء لا في الفرقة والجلاء: محبت و پیار اور سازگاری و موافقت میں جدائی اور علیحدگی میں نہیں اور بعض میں ہے، اس نے طلاق دے دی تھی، میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں کہا، آپ میرے باپ اور ماں قربان، آپ تو میرے لیے ابو زرع جیسا ام زرع کے لیے تھا، اس سے بہتر ہیں۔