فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1941
´جنازہ کے ساتھ ساتھ جانے کے حکم کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا، اور سات باتوں سے منع فرمایا: ہمیں آپ نے مریض کی عیادت کرنے، چھینکنے والے کے جواب میں «یرحمک اللہ» کہنے، قسم پوری کرانے، مظلوم کی مدد کرنے، سلام کو عام کرنے، دعوت دینے والوں (کی دعوت) قبول کرنے، اور جنازے کے ساتھ جانے کا حکم دیا، اور ہمیں آپ نے سونے کی انگوٹھیاں پہننے سے، چاندی کے برتن (میں کھانے، پینے) سے، میاثر، قسّیہ، استبرق ۱؎، حریر اور دیباج نامی ریشمی کپڑوں سے منع فرمایا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1941]
1941۔ اردو حاشیہ: ”اتباع“ جنازے کے ساتھ نکلنے کے دو درجے ہیں: جب گھر سے جنازہ اٹھایا جائے تو اس کے پیچھے پیچھے رہے یہاں تک کہ نماز جنازہ سے فارغ ہو۔ گھر سے میت کے ساتھ نکلے، یعنی اس کی پیروی کرے یہاں تک کہ نماز جنازہ اور تدفین سے فراغت ہو، یہ دونوں عمل درست اور جائز ہیں لیکن دوسرا درجہ قابل فضیلت اور زیادہ ثواب کا حامل ہے کیونکہ اس صورت میں دو قیراط کے بقدر ثواب ملے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں قسم کے عمل منقول ہیں۔ بہرحال راستے میں ملنے یا سیدھا قبرستان پہنچنے کی نسبت زیادہ ثواب کا حامل اور مسنون عمل یہ ہے کہ جہاں سے میت اٹھائی جائے وہاں سے چلنے کا اہتمام کیا جائے، احادیث میں بظاہر قیراط یا دو قیراط کا ثواب اسی قسم کی قیود کے ساتھ مشروط ہے جیسا کہ بخاری و مسلم وغیرہ کی احادیث میں بصراحت ذکر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «من خرج مع جنازۃ من بیتھا» ”جو گھر سے جنازے کے ساتھ نکلا۔“ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: (أحکام الجنائز للألبانی، ص88)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1941
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3809
´قسم پوری کرنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا: ”آپ نے ہمیں جنازوں کے پیچھے جانے، بیمار کی عیادت کرنے، چھینکنے والے کا جواب دینے، دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنے، مظلوم کی مدد کرنے، قسم پوری کرنے اور سلام کا جواب دینے کا حکم دیا۔“ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3809]
اردو حاشہ:
”قسم پوری کرنا۔“ یعنی اگر کسی بھائی نے تیرے بارے میں کوئی قسم کھا لی ہے‘ مثلاً: اللہ کی قسم! ”تو میرے ساتھ چلے گا۔“ تو تجھے چاہیے کہ اس کے ساتھ چلے تاکہ اس کی قسم کو گزند نہ پہنچے بشرطیکہ اس کام میں گناہ یا ظلم نہ ہو۔ اگر گناہ ہے اور خوف وضرر کا اندیشہ ہے یا کسی پر ظلم ہوتا ہے تو پھر وہ کام نہیں کرنا چاہیے۔ وہ خود ہی کفارہ دے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3809
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1239
1239. حضرات براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا:رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا اور سات چیزوں سے منع فرمایا۔ جن باتوں کا حکم دیا تھا وہ: جنازوں کے ہمراہ جانا، مریض کی عیادت کرنا، دعوت قبول کرنا، مظلوم کی مدد کرنا، قسم کا پورا کرنا، سلام کاجواب دینا اورچھینکنے والے کے لیے د عا کرنا ہیں۔ اور جن چیزوں سے منع فرمایا وہ: چاندی کے برتنوں کا استعمال اور سونے کی انگوٹھی، ریشم، دیبا، قز اور استبرق (پہننا) ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1239]
حدیث حاشیہ:
دیباج اور قسی اور استبرق یہ بھی ریشمی کپڑوں کی قسمیں ہیں۔
قسی کپڑے شام سے یا مصر سے بن کر آتے اور استبرق موٹا ریشمی کپڑا۔
یہ سب چھ چیزیں ہوئیں۔
ساتویں چیز کا بیان اس روایت میں چھوٹ گیا ہے۔
وہ ریشمی چار جاموں پر سوار ہونا یا ریشمی گدیوں پر جو زین کے اوپر رکھی جاتی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1239
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2445
2445. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں سات کاموں کا حکم دیا اور سات باتوں سے منع فرمایا۔ پھر انھوں نے ان کاموں کا ذکر کیا: مریض کی عیادت کرنا، جنازے کے ساتھ جانا، چھینک لینے والے کو جواب دینا، سلام کا جواب دینا، مظلوم کی مدد کرنا، دعوت قبول کرنا اور کوئی قسم کھا بیٹھا ہوتو اس کی قسم پوری کرادینا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2445]
حدیث حاشیہ:
سات مذکورہ کاموں کی اہمیت پر روشنی ڈالنا سورج کو چراغ دکھلانا ہے اس میں مظلوم کی مدد کرنے کا بھی ذکر ہے۔
اسی مناسبت سے اس حدیث کو یہاں درج کیا گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2445
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5849
5849. حضرت براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا تھا: بیمار کی عیادت کرنے جنازوں کے ساتھ جانے اور چھیکنے والے کا جواب دینے کا اور آپ نے ہمیں ریشم، دیبا درآمد شدہ سرخ ریشمی کپڑا، موٹا ریشم اور سرخ زین پوش کے استعمال سے بھی منع فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5849]
حدیث حاشیہ:
چار باتیں اس روایت میں مذکورنہیں جن کے کرنے کا آپ نے حکم فرمایا وہ یہ ہیں دعوت قبول کرنا، سلام کو پھیلانا، مظلوم کی مدد کرنا، قسم کو سچا کرنا۔
اسی طرح سات کام جو منع ہیں ان میں سے یہاں پانچ مذکور ہیں وہ یہ ہیں سونے کی انگوٹھی پہننا، چاندی کے برتنوں میں کھانا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5849
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6235
6235. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا تھا بیمار کی تیمارداری کرنے کا جنازے کے پیچھے چلنے کا، چھینک لینے والے کو جواب دینے کا ناتواں کی مدد کرنے کا، مظلوم کی داد رسی کرنے کا بکثرت سلام کہنے کا اور قسم کھانے والے کی قسم کو پورا کرنے کا، نیزآپ نے ہمیں چاندی کے برتنوں میں پانی پینے، سونے کی انگوٹھی پہننے، ریشم کی زین پر سوار ہونے، ریشم اور دیبا پہننے، باریک اور موٹا ریشم زیب تن کرنے سے منع فرمایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6235]
حدیث حاشیہ:
یہ سماجی شرعی آداب ہیں جن کا ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6235
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1239
1239. حضرات براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا:رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا اور سات چیزوں سے منع فرمایا۔ جن باتوں کا حکم دیا تھا وہ: جنازوں کے ہمراہ جانا، مریض کی عیادت کرنا، دعوت قبول کرنا، مظلوم کی مدد کرنا، قسم کا پورا کرنا، سلام کاجواب دینا اورچھینکنے والے کے لیے د عا کرنا ہیں۔ اور جن چیزوں سے منع فرمایا وہ: چاندی کے برتنوں کا استعمال اور سونے کی انگوٹھی، ریشم، دیبا، قز اور استبرق (پہننا) ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1239]
حدیث حاشیہ:
(1)
جن سات چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان میں سے اس حدیث میں صرف چھے کا ذکر ہے، ساتویں چیز ریشمی گدیوں کا استعمال ہے جو سواری کی زین پر رکھی جاتی ہیں۔
اس کا ذکر بھی صحیح بخاری ہی کی حدیث:
(5863)
میں ہے۔
ان مامورات و منہیات کو ہم آئندہ تفصیل سے بیان کریں گے۔
اس مقام پر صرف جنازے میں شریک ہونے کی مشروعیت کو بیان کرنا مقصود ہے، اس کی فضیلت کا بیان آگے آئے گا۔
(2)
جنازے کے آگے اور پیچھے دونوں طرف چلنا جائز ہے، لیکن لفظ اتباع کا تقاضا ہے کہ پیچھے پیچھے چلنا افضل ہے۔
علامہ البانی ؒ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔
(أحکام الجنائز، ص: 96)
اگرچہ رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ سے جنازے کے آگے چلنا بھی ثابت ہے۔
(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3179)
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”بیمار کی تیمارداری کرو اور جنازوں میں شرکت کرو، وہ تمہیں آخرت یاد دلائیں گے۔
“ (مسند أحمد: 32/3)
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”پیدل چلنے والا جنازے کے پیچھے، آگے، دائیں بائیں اور اس کے قریب ہو کر چل سکتا ہے۔
“ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3180)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1239
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2445
2445. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں سات کاموں کا حکم دیا اور سات باتوں سے منع فرمایا۔ پھر انھوں نے ان کاموں کا ذکر کیا: مریض کی عیادت کرنا، جنازے کے ساتھ جانا، چھینک لینے والے کو جواب دینا، سلام کا جواب دینا، مظلوم کی مدد کرنا، دعوت قبول کرنا اور کوئی قسم کھا بیٹھا ہوتو اس کی قسم پوری کرادینا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2445]
حدیث حاشیہ:
(1)
مظلوم کی مدد کرنا ضروری ہے۔
اگر کوئی بھی مظلوم کی مدد کے لیے نہیں اٹھے گا تو سارا معاشرہ گناہ گار ہو گا۔
پہلے حاکم وقت کو اس کی مدد کرنی چاہیے کہ انصاف اس کی دہلیز پر پہنچایا جائے۔
اگر حاکم وقت کا ہونا نہ ہونا برابر ہے تو جو بھی اس کی مدد کر سکتا ہو وہ مدد کرے۔
(2)
اگر کسی نے نیک مقصد کے لیے قسم اٹھائی ہے تو اس کی مدد کی جائے اور اگر کسی غلط مقصد کے لیے ہے تو اسے خود چاہیے کہ اپنی قسم توڑ دے اور اس کا کفارہ ادا کرے تاکہ اسے قسم کی اہمیت کا احساس ہو۔
امام بخاری ؒ نے اس مقام پر مذکورہ حدیث اختصار کے ساتھ بیان کی ہے۔
اس کی تفصیل کتاب الادب اور کتاب اللباس میں بیان کی جائے گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2445
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5635
5635. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا اور سات چیزوں سے منع کیا: آپ نے ہمیں بیمار کی عیادت کرنے جنازے کے پیچھے جانے چھینکنے والے کو جواب دینے۔ دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنے، سلام پھیلانے مظلوم کی مدد کرنے اور قسم دینے والے کی قسم پوری کرنے کا حکم دیا۔ اورآپ نے ہمیں سونے کی انگوٹھی (پہننے) چاندی کے برتن ميں پینے، ریشمی گدے استعمال کرنے قسی، دیباج اور استبرق پہننے سے منع فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5635]
حدیث حاشیہ:
(1)
قسی، دیباج اور استبرق ریشم کی مختلف قسمیں ہیں۔
ہر قسم کا ریشم مردوں کے لیے حرام ہے۔
ریشمی كے گدے اور بچھونے مردوں کے لیے بالاتفاق حرام ہیں لیکن عورتوں کے لیے کچھ حضرات حلال سمجھتے ہیں۔
ہمارے رجحان کے مطابق عورتوں کو بھی ان کے استعمال سے احتیاط کرنی چاہیے، البتہ ریشمی لباس پہننے کی انہیں اجازت ہے۔
(2)
اس حدیث میں چاندی کے برتنوں میں پینے کی ممانعت کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے بیان کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5635
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5849
5849. حضرت براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا تھا: بیمار کی عیادت کرنے جنازوں کے ساتھ جانے اور چھیکنے والے کا جواب دینے کا اور آپ نے ہمیں ریشم، دیبا درآمد شدہ سرخ ریشمی کپڑا، موٹا ریشم اور سرخ زین پوش کے استعمال سے بھی منع فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5849]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں سات مامورات میں سے تین کا ذکر ہے، باقی یہ ہیں:
دعوت قبول کرنا، سلام پھیلانا، مظلوم کی مدد کرنا اور دوسرے کی قسم کو سچا کرنا اور ممنوعات میں سے پانچ چیزوں کا بیان ہے باقی دو سونے کی انگوٹھی پہننا اور چاندی کے برتنوں میں کھانا پینا ہے۔
(2)
سرخ ریشمی زین پوش کا استعمال بھی جائز نہیں کیونکہ ریشم کا بنا ہوتا ہے۔
ریشم کا لباس اور اس سے تیار شدہ بستر، گدے اور زین پوش بھی مردوں کے لیے منع ہیں، خواہ وہ سرخ ہوں یا کسی اور رنگ کے۔
حدیث میں سرخ رنگ کی قید اتفاقی ہے احترازی نہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ سرخ، زعفرانی رنگ کے زین پوشوں سے منع کیا گیا ہے۔
(سنن النسائي، الزینة، حدیث: 5187)
اس قسم کے زین پوش خالص ریشم اور سرخ رنگ کے ہوتے ہیں، اس لیے ممنوع ہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5849
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6222
6222. حضرت براء ؓ سے روایت ہے انہوں ںے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا تھا اور سات کاموں سے روکا تھا آپ نے ہمیں عیادت (بیمار پرسی) کرنے جنازے کے پیچھے چلنے چھینک مارے والے کو جواب دینے دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنے، سلام کا جواب دینے، مظلوم کی مدد کرنے اور قسم کو پورا کرنے کا حکم دیا۔ اور آپ نے ہمیں سات کاموں، یعنی سونے کی انگوٹھی یا چھلا پہننے ریشم، دیبا، سندس اور ریشمی زین پوش سے منع فرمایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6222]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں مطلق طور پر چھینک مارنے والے کو جواب دینے کا حکم ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان میں اسے مشروط کیا ہے کہ جب وہ الحمدللہ کہے تو جواب دیا جائے جیسا کہ حدیث: 6221 میں ہے، نیز اس شخص کو بھی چھینک کا جواب نہ دیا جائے جو تین مرتبہ سے زیادہ چھینک مارے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ چھینکنے والے کو تین بار دعا دی جائے، اس سے زیادہ ہو تو اس شخص کو زکام ہے۔
(صحیح مسلم، الزھد، حدیث: 7489(2993)
نیز آپ نے فرمایا:
جب کوئی چھینک مارے تو الحمدللہ کہے اور جو افراد اس کے پاس ہوں وہ اسے ''يرحمك الله'' سے جواب دیں، یعنی اللہ تجھ پر رحمتیں نازل فرمائے، پھر وہ جواب میں انہیں کہے:
(يهديكم الله و يصلح بالكم)
”اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارے حالات درست کرے۔
“ (جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2741)
نیز اس کی وضاحت آگے آ رہی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6222
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6235
6235. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا تھا بیمار کی تیمارداری کرنے کا جنازے کے پیچھے چلنے کا، چھینک لینے والے کو جواب دینے کا ناتواں کی مدد کرنے کا، مظلوم کی داد رسی کرنے کا بکثرت سلام کہنے کا اور قسم کھانے والے کی قسم کو پورا کرنے کا، نیزآپ نے ہمیں چاندی کے برتنوں میں پانی پینے، سونے کی انگوٹھی پہننے، ریشم کی زین پر سوار ہونے، ریشم اور دیبا پہننے، باریک اور موٹا ریشم زیب تن کرنے سے منع فرمایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6235]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں سلام کو عام کرنے کا حکم ہے کیونکہ اس سے اسلام کی شان و شوکت کا اظہار ہوتا ہے لیکن جب کوئی شخص قضائے حاجت میں مصروف ہو تو اسے سلام نہیں کہنا چاہیے۔
حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں سلام کیا جب آپ پیشاب کے لیے بیٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔
(جامع الترمذی، الطھارۃ، حدیث: 90) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسی حالت میں سلام نہیں کرنا چاہیے اور اگر کوئی جہالت کی بنا پر سلام کہہ دے تو اس کے سلام کا جواب نہ دیا جائے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح آہستہ اور احتیاط سے سلام کہتے تھے کہ بیدار آدمی اسے سن لیتا اور سونے والا اس سے بیدار نہ ہوتا۔
(صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5362(2055)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سلام کرنے والے کو اس امر کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کے سلام سے کسی سونے والے کی آنکھ نہ کھل جائے یا اس سے کسی دوسرے کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے۔
(3)
بہرحال سلام کہنا ایک اسلامی شعار ہے۔
اسے خوب پھیلانا چاہیے اور ایسی کثرت سے رواج دیا جائے کہ اسلامی دنیا کی فضا اس کی دلربا آواز سے گونج اٹھے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ سلام کو عام کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ جب انسان کسی ایسے گھر میں جائے جہاں کوئی بھی نہیں ہے تو اپنے آپ کو سلام کہہ کر اس میں داخل ہو۔
(فتح الباري: 25/11)
واللہ اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6235