حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5087
´نکاح کے لیے زیادہ مال ہونے کی شرط نہیں`
«. . . فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُوَلِّيًا، فَأَمَرَ بِهِ فَدُعِيَ، فَلَمَّا جَاءَ، قَالَ: مَاذَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ؟ قَالَ: مَعِي سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا عَدَّدَهَا، فَقَالَ: تَقْرَؤُهُنَّ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبْ فَقَدْ مَلَّكْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ . . .»
”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہیں قرآن مجید کتنا یاد ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ انہوں نے گن کر بتائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم انہیں بغیر دیکھے پڑھ سکتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جاؤ۔ میں نے انہیں تمہارے نکاح میں دیا۔ ان سورتوں کے بدلے جو تمہیں یاد ہیں . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5087]
� فوائد و مسائل:
یہ حدیث [كتاب النكاح:5150] میں مختصراً مذکور ہے اور صحیح بخاری کے علاوہ درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
[موطا امام مالك:526/2، ح:1141]
[مسند الحميدي:928]
[مسنداحمد:334، 330/5، 336]
[صحيح مسلم:1425 يا 3487، 3488]
[سنن دارمي:2207]
[سنن ابوداود:2111]
[سنن ابن ماجه:1889]
[سنن الترمذي:114، وقال: هذا حديث حسن صحيح وقد ذهب الشافعي إليٰ هذا الحديث]
[سنن النسائي:54/6، 91، 113، 123]
[منتقيٰ ابن الجارود:716]
[مسند ابي يعليٰ:7522، 7539]
[شرح معاني الآثار للطحاوي:17/3]
[سنن الدار قطني:248/3، 249]
[مصنف ابن ابي شيبه:187/4]
[مسند ابي عوانه:6860، 6866]
[مستدرك للحاكم:178/2]
[كتاب الام للشافعي:59/5، 160]
لوہے کی انگوٹھی بھی مال ہے اگرچہ بہت تھوڑا ہے لیکن قرآن نے نکاح کے لیے زیادہ مال ہونے کی شرط نہیں لگائی۔ «ان تبتغوا باموالكم» کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اموال کے ذریعے سے نکاح کرو اور اموال کے ذریعے سے زنا نہ کرو۔ ديكهئے: [تفسير قرطبي،طبعه جديده، ج:ا، ص:849]
یعنی اس آیت میں زنا کے مقابلے میں نکاح پر مال خرچ کرنے کا حکم ہے لیکن یہ شرط نہیں ہے کہ ضرور بالضرور نکاح کے لئے زیادہ مال ہونا چاہئے لہٰذا اس آیت کو حدیث مذکور کے خلاف پیش کرنا انہی لوگوں کا کام ہے جو حدیث کو حجت نہیں مانتے اور اپنے خود ساختہ مفہوم قرآنی کو حجت بنا لیتے ہیں۔
مشہور ثقہ تابعی، ابوحازم سلمہ بن دینار المدنی رحمہ اللہ کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:
➊ امام احمد بن حنبل نے کہا: «ثقه» ۔ [الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم:159/4، وسندہ صحیح]
➋ ابوحاتم الرازی نے کہا: «ثقه» ۔ [ایضاً]
➌ امام یحییٰ بن معین نے کہا: «مشهور مدني ثقه» ۔ [التاريخ الكبير لابن ابي خيثمه،ص:411، وسنده صحيح]
➍ احمد بن عبداللہ العجلی نے کہا: «مدني تابعي ثقه رجل صالح» ۔ [تاریخ العجلی:641]
➎ ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں ذکر کر کے کہا: ”وہ مدینے والے عبادت گزار زاہدوں کو قاضیوں (یا واعظوں) میں سے تھے، سلیمان بن عبدالملک (اموی خلیفہ) نے انہیں بلانے کے لیے (امام) زہری کو بھیجا۔ زہری نے کہا: امیر کی دعوت قبول کریں۔ انہوں (ابوحازم) نے فرمایا: مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ان کے پاس جاؤں، اگر انہیں کوئی ضرورت ہے تو وہ میرے پاس آئیں۔“ [ج:4، ص:316]
➏ سفیان ثوری نے کہا: «رحم الله أبا حازم» اللہ ابوحازم پر رحم کرے۔ [كتاب العلل و معرفته الرجال للام احمد:373/2،فقره:2659، و سنده صحيح]
➐ ابن سعد نے کہا: «وكان عابدا زاهدا» ”اور وہ عابد زاہد تھے۔“ [تاريخ دمشق لابن عساكر:15/24، وسنده حسن]
➑ بخاری، مسلم، ترمذی اور ابن الجارود وغیرہم نے ابوحازم کی حدیث کو صحیح قرار دے کر انہیں ثقہ و صدوق قرار دیا ہے۔ کسی محدث نے ابوحازم رحمہ اللہ پر جرح نہیں کی مگر معترض (منکرین حدیث اپنی کتاب میں) انہیں گالیا ں دے کر اپنی باطنی خباثت عیاں کر رہا ہے۔
توفيق الباري في تطبيق القرآن و صحيح بخاري، حدیث/صفحہ نمبر: 38
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 350
´حق مہر کا بیان`
«. . . 411- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جاءته امرأة فقالت: يا رسول الله، إني قد وهبت نفسي لك؛ فقامت قياما طويلا، فقام رجل فقال: يا رسول الله، زوجنيها إن لم تكن لك بها حاجة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”هل عندك من شيء تصدقها إياه؟“ قال: ما عندي إلا إزاري هذا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إن أعطيتها إزارك جلست لا إزار لك، فالتمس شيئا“ قال: ما أجد شيئا، قال: ”التمس ولو خاتم حديد“ فالتمس فلم يجد شيئا، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”هل معك من القرآن شيء“ قال: نعم، سورة كذا وسورة كذا لسور سماها لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”قد زوجتكها بما معك من القرآن.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا سہل رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت نے آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنی جان آپ کو ہبہ کرتی ہوں پھر وہ کافی دیر کھڑی رہی تو ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ! اگر آپ کو ضرورت نہیں ہے تو اس کا نکا ح میرے ساتھ کر دیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو تم اسے حق مہر میں دے سکو؟“ اس آدمی نے کہا: میرے پاس اس ازار کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اسے اپنا ازار دے دو گے تو پھر تمہارے پاس کوئی ازار نہیں رہے گا، جاؤ اور کوئی چیز تلاش کرو“ انہوں نے کہا: میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تلاش کرو اگرچہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔“ اس آدمی نے تلاش کیا تو کچھ بھی نہ پایا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ”کیا قرآن میں سے کچھ تمہیں یاد ہے؟“ اس نے کہا: جی ہاں! فلاں فلاں سورت یاد ہے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ سورتوں کے نام لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: میں نے اس عورت کا نکا ح تمہارے ساتھ اس قرآن کے عوض کر دیا جو تمہیں یاد ہے۔ . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 350]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5135، و الترمذي 1114، من حديث مالك به و رواه مسلم 1424، من حديث ابي حازم به]
تفقه:
➊ یہ حدیث قرآن مجید کی سورۃ الاحزاب کی آیت: 50 کی تشریح ہے۔
➋ اگر فریقین راضی ہوں تو حق مہر میں مال ودولت کا ہونا ضروری نہیں بلکہ تعلیمِ قرآن کے بدلے میں بھی نکاح ہو سکتا ہے اور اس حالت میں یہی حق مہر ہے۔
➌ جب تعلیم قرآن کے بدلے میں نکاح جائز ہے تو ثابت ہوا کہ تعلیم قرآن پر اجرت لینا بھی جائز ہے۔ اس سلسلے میں راقم الحروف کا ایک فتویٰ ماہنامہ الحدیث حضرو [عدد 18 ص 12، 13،] سے پیش خدمت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إن أحق ما أخذتم عليه أجرًا كتاب الله» ”تم جس پر اُجرت لیتے ہو ان میں سب سے زیادہ مستحق کتاب اللہ ہے۔“ [صحيح بخاري: 5737] اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ [كتاب الإجاره، باب ما يعطي فى الرقية على أحياء العرب بفاتحة الكتاب، قبل ح2276] میں بھی لائے ہیں۔ اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «واستدل به للجمهور فى جواز أخذ الأجرة على تعليم القرآن» اور اس سے جمہور کے لئے دلیل لی گئی ہے کہ تعلیم القرآن پر اجرت لینا جائز ہے۔ [فتح الباري ج4 ص453]
اب چند آثار پیش خدمت ہیں:
① حکم بن عتیبہ (تابعی صغیر) رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: «ما سمعت فقیھا یکرھہ» میں نے کسی فقیہ کو اسے (اجرت معلم کو) مکروہ (کراہت تحریمی) قرار دیتے ہوۓ نہیں سنا۔ [مسند على بن الجعد: 1105، وسنده صحيح]
② معاویہ بن قرۃ (تابعی) رحمہ اللہ نے فرمایا: «اني لارجو ان يكون له فى ذالك خير» مجھے یہ امید ہے کہ اس کے لئے اس میں اجر ہوگا۔ [مسند على بن الجعد: 1104، و سنده صحيح]
③ ابوقلابہ (تابعی) رحمہ اللہ تعلیم دینے والے معلم کی اجرت (تنخواہ) میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ [ديكهئے مصنف ابن ابي شيبه ج6 ص220 ح20824 وسنده صحيح]
④ طاؤس (تابعی) رحمہ اللہ بھی اسے جائز سمجھتے تھے۔ [ابن ابي شيبه ايضاً، ح: 20825 وسنده صحيح]
⑤ محمد بن سیرین (تابعی) رحمہ اللہ کے قول سے بھی اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 6/223 ح20835 وسنده صحيح]
⑥ ابراہیم نخعی (تابعی صغیر) رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ «كانوا يكرهون أجر المعلم» وہ (اگلے لوگ، سلف صالحین) معلم کی اجرت کو مکروہ (کراہتِ تنزیہی) سمجھتے تھے۔ [مسند على بن الجعد: 1106، وسنده قوي]
اس پر استدراک کرتے ہوئے اما شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ، امام ابوالشعثاء جابر بن زید (تابعی) رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ بہتر و افضل یہی ہے کہ تعلیم وتدریس کی اجرت نہ لی جائے تاہم اگر کوئی شخص اجرت لیتا ہے تو جائز ہے۔
تنبیہ:
➊: سب آثار کو مدنظر رکھتے ہوئے، ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے قول ”یکرھون“ میں کراہت سے کراہتِ تنزیہی مراد ہے اور حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ کے قول ”یکرھه“ میں کراہتِ تحریمی مراد ہے۔ واللہ اعلم
تنبیہ:
➋: بعض آثار صحیح بخاری [قبل ح2276] میں کچھ اختلاف کے ساتھ مذکور ہیں۔ اجرت تعلیم القرآن کا انکار کرنے والے بعض الناس جن آیات وروایات سے استدلال کرتے ہیں ان کا تعلق دو امور سے ہے:
⓵ اجرتِ تبلیغ (یعنی جو تبلیغ فرض ہے اس پر اجرت لینا) «لَا اَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا» اور «وَلَا تَشْتَرُوْا بِآيَاتِيْ ثَمَنًا قَلِيْلًا» وغیرہ آیات کا یہی مفہوم ہے۔ نیز دیکھئے ”دینی امور پر اجرت کا جواز“ [76]
⓶ قرأت قرآن پر اجرت (یعنی نماز تراویح میں قرآن سنا کر اس کی اجرت لینا) حدیث «أقرؤا القرآن ولا تأكلوا به» وغیرہ کا یہی مطلب ومفہوم ہے۔
دیکھئے [مصنف ابن ابي شيبه ج2 ص400 باب فى الرجل يقوم بالناس فى رمضان فيعطي، ح7742]
➍ حق مہر میں کوئی خاص مقدار مقرر نہیں ہے بلکہ فریقین جس پر راضی ہوجائیں بشرطیکہ وہ کتاب و سنت کے خلاف نہ ہو تو نکاح صحیح ہے۔
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے پوچھا: گیا کہ ایک آدمی دس درہم (حق مہر) پر شادی کرتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: مسلمان اس سے کم اور زیادہ پر شادیاں کرتے رہے ہیں۔ [مصنف ابن ابي شيبه 4/187 ح16362، وسنده صحيح]
➎ شوہر اپنی بیوی کو بطور حق مہر جو کچھ دے دیتا ہے تو وہ اس کا مالک نہیں رہتا بلکہ اس کی بیوی اس کی مالک ہو جاتی ہے۔
➏ جس عورت کا رخصتی سے پہلے شوہر فوت ہوجائے اور حق مہر مقرر نہ ہو تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے لئے کوئی حق مہر نہیں ہے اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ وارث ہوگی اور عدت گزارے گی۔ [مصنف ابن ابي شيبه 4/301 بعد ح17106، وسنده صحيح]
➐ اس حدیث سے لوہے کی انگوٹھی کا جواز ثابت ہوتا ہے اور دوسری حدیث میں اسے جہنمیوں کا زیور کہا گیا ہے۔ دیکھئے [سنن الترمذي 1785، وقال: غريب، وسنن ابي داود 4223، وغيرهما وهو حديث حسن وله شاهد حسن عند مسدد فى مسنده، انظر اتحاف الخيرة للبوصيري 6/112 ح5580] ان دونوں حدیثوں میں تطبیق یہ ہے کہ عورتوں کے لئے لوہے کی انگوٹھی پہننا جائز ہے جبکہ مردوں کے لئے اسے پہننا جائز نہیں ہے۔
➑ اگر سرپرست کی مرضی شامل ہو تو شادی کرنے والا خود بھی اپنی منگنی کا پیغام بھیج سکتا ہے۔
➒ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نکاح میں ایجاب وقبول ایک دفعہ ہی کافی ہے، اس کے لئے تین دفعہ تکرار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
➓ امیر ہو یا غریب، ہر آدمی کو کتاب و سنت کا علم سیکھنے میں کوشاں رہنا چاہئے اور اس علم کو آگے اپنے اہل و عیال، دوستوں اور رشتہ داروں وغیرہ میں پھیلانے کی کوشش بھی کرنی چاہئے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 411
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3202
´رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کے نکاح کا بیان اور اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے جائز قرار دیا اور اپنی مخلوق کو منع کیا تاکہ ساری مخلوق پر آپ کی بزرگی اور فضیلت ظاہر ہو سکے۔`
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں قوم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں ایک عورت نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کے لیے اپنے آپ کو ہبہ کرتی ہوں، میرے متعلق آپ کی جیسی رائے ہو کریں، تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا (اللہ کے رسول!) اس عورت سے میرا نکاح کرا دیجئیے۔ آپ نے فرمای۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3202]
اردو حاشہ:
(1) یہ عورت بھی شاید بے آسرا تھی اور اولیاء نہ تھے۔ تبھی آپ نے بطور حاکم ولی بن کر اس کا نکاح کردیا۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی کے پاس مہر کے لیے کوئی رقم یا کوئی چیز نہ ہو تو تعلیم کے عوض بھی نکاح کیا جاسکتا ہے، نیز اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مہر کی کوئی حد مقرر نہیں۔ تبھی تو آپ نے فرمایا: ”چاہے لوہے کی انگوٹھی ہی لے آ۔“ جن حضرات نے مہر کی حد مقرر سمجھی ہے وہ تاویل کرتے ہیں کہ اصل مہر الگ تھا۔ مگر تعجب ہے کہ اس مہر کا کہیں ذکر ہی نہیں؟ لہٰذا یہ تاویل کمزور مقرر ہے نہ زیادہ سے زیادہ۔ البتہ فریقین کی رضا مندی شرط ہے۔
(2) ہبہ فی النکاح، یعنی عورت کا نکاح کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنا نبی اکرمﷺ کے ساتھ خاص تھا۔ کسی اور شخص کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہوسکتا۔
(3) تاکید کے لیے قسم کھانا جائز ہے اگرچہ مطالبہ نہ ہو۔
(4) نکاح میں حق مہر ضروری ہے۔
(5) مہر مؤجل جائز ہے۔
(6) کفو آزادی اور دین داری میں ہوتا ہے، نسب اور مال میں نہیں۔
(7) آدمی اپنا پیغام نکاح خود دے سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3202
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3282
´نکاح جن کلمات سے منعقد ہوتا ہے اس کا بیان۔`
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں لوگوں کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت نے کھڑے ہو کر کہا: اللہ کے رسول! اس (بندی) نے اپنے آپ کو آپ کے حوالے کر دیا، آپ جیسا چاہیں کریں۔ آپ خاموش رہے اور اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ عورت پھر کھڑی ہوئی اور کہا: اللہ کے رسول! اس نے اپنے آپ کو آپ کی سپردگی میں دے دیا ہے۔ تو اس کے بارے میں آپ کی جو رائے ہو ویسا کریں۔ (اتنے میں) ایک شخص کھڑا ہو اور اس نے کہا: اللہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3282]
اردو حاشہ:
معلوم ہوا جو الفاظ ایجاب وقبول پر دلالت کرتے ہوں ان سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے۔ اس نے کہا: میرا اس سے نکاح فرمادیں۔ آپ نے فرمایا: ”میں نے تیرا نکاح کردیا۔“ یہ ایجاب وقبول ہے۔ ایجاب خاوند یا بیوی کسی طرف سے ہوسکتا ہے۔ اسی طرح قبول بھی۔ ایک فریق ایجاب کرے، دوسرا قبول۔ مناسب ہے کہ یہ ایجاب وقبول گوہوں کے سامنے علانیہ کروایا جائے۔ (باقی تفصیلات کے لیے دیکھیے، حدیث: 3202)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3282
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3341
´قرآن کی کچھ سورتیں سکھا دینے کے عوض شادی کر دینے کا بیان۔`
سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آئی ہوں کہ اپنے آپ کو آپ کے حوالے کر دوں، (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا اور نیچے سے اوپر تک دھیان سے دیکھا۔ پھر آپ نے اپنا سر جھکا لیا (غور فرمانے لگے کہ کیا کریں)، عورت نے جب دیکھا کہ آپ نے اس کے متعلق (بروقت) کچھ نہیں فیصلہ فرمایا تو وہ (انتظار میں) بیٹھ گئی، اتنے میں آپ کے ایک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3341]
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث: 3202 اور 3282۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3341
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3361
´عورت کا اپنے آپ کو کسی مرد کے لیے بغیر مہر کے ہبہ کر دینے کا بیان۔`
سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے کہنے لگی: اللہ کے رسول! میں نے اپنی ذات کو آپ کے لیے ہبہ کر دیا ہے (یہ کہہ کر) وہ کافی دیر کھڑی رہی تو ایک شخص اٹھا اور آپ سے عرض کیا (اللہ کے رسول!) اگر آپ کو اسے رکھنے کی ضرورت نہ ہو تو آپ میری شادی اس سے کرا دیجئیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس (بطور مہر دینے کے لیے) کچھ ہے؟“ اس نے کہا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3361]
اردو حاشہ:
یہ حدیث کئی دفعہ گزر چکی ہے۔ یہاں مقصود یہ ہے کہ اس عورت نے ہبہ کا لفظ استعمال کیا تھا اور ہبہ بلا معاوضہ ہوتا ہے‘ لہٰذا یہ پیش کش بھی بلا مہر ہوگی۔ بعض ائمہ نے بلا مہر پیش کش کو رسول اللہﷺ کے لیے جائز قراردیا مگر صحیح معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ دراصل نکاح کی ہی پیش کش تھی اور نکاح مہر کے ساتھ ہی ہوتا ہے جیسا کہ آپ نے بعد میں اس کا دوسرے صحابی کے ساتھ مہر والا نکاح ہی پڑھایا۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3361
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2310
2310. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں خود کو آپ کے لیے ہبہ کرتی ہوں۔ ایک شخص بولا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ اس کا نکاح میرے ساتھ کردیں۔ آپ نے فرمایا: ”میں نے اس قرآن کے بدلے جو تجھے یادہے اس کا نکاح تجھ سے کردیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2310]
حدیث حاشیہ:
یہ وکالت امام بخاری ؒ نے عورت کے اس قول سے نکالی کہ میں نے اپنی جان آپ کو بخش دی۔
داؤدی نے کہا حدیث میں وکالت کا ذکر نہیں ہے۔
اور آنحضرت ﷺ ہر مومن اور مومنہ کے ولی ہیں بموجب آیت النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ الخ اور اسی ولایت کی وجہ سے آپ نے اس عورت کا نکاح کر دیا۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مہر میں تعلیم قرآن بھی داخل ہوسکتی ہے۔
اگرکچھ اس کے پاس مہر میں پیش کرنے کے لیے نہ ہو۔
حضرت موسیٰ ؑ نے دختر حضرت شعیب ؑ کے مہر میں اپنی جان کو دس سال کے لیے بطور خادم پیش فرمایا تھا۔
جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2310
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5029
5029. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک خاتون نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ اس نے خود کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے وقف کر دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اب مجھے عورتوں سے نکاح کو کوئی ضرورت نہیں۔“ وہاں بیٹھے ایک آدمی نے عرض کی: آپ اس کا نکاح مجھ سے کردیں۔ آپ نے فرمایا: ”اسے حق مہر کے طور پر کوئی کپڑا دو۔“ اس نے کہا: مجھے یہ میسر نہیں ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اسے کچھ تو دو۔ خواہ لوہے کی انگھوٹھی ہو۔“ وہ شخص بہت افسردہ ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تجھے کتنا قرآن یاد ہے؟“ مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر میں نے تیرا اس سے نکاح ان سورتوں کے عوض کر دیا جو تجھے یاد ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5029]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ تو یہ سورتیں اس عورت کو سکھلا دے یہی مہر ہے۔
اس حدیث کی مزید تشریح کتاب النکاح میں آئے گی اور باب کا مطلب اس سے یوں نکلتا ہے کہ آپ نے قرآن کی عظمت اس طرح سے ظاہر کی کہ وہ دنیا میں بھی مال و دولت کے قائم مقام ہے اور آخرت کی عظمت تو ظاہر ہے۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5029
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5030
5030. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں خود آپ کی خدمت میں ہبہ کرنے کے لیے حاضر ہوئی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا پھر نگاہ نیچے کرلی اور سر جھکا لیا۔ جب خاتون نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے تو وہ بیٹھ گئی۔ اس دوران میں آپ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ میں سے ایک صاحب اٹھے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی ضرورت نہیں تو میرے ساتھ اس کا نکاح کر دیں آپ ﷺ نےفرمایا: ”کیا تیرے پاس کچھ ہے؟ اس نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! کچھ نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے گھر جاؤ وہاں جا کر دیکھو شاید کوئی چیز مل جائے۔“ چنانچہ وہ گیا پھر لوٹ آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے وہاں کوئی چیز نہیں ملی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر شاید دیکھ لوہے کی انگوٹھی ہی مل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5030]
حدیث حاشیہ:
انتہائی ناداری کی حالت میں آج بھی یہ حدیث دین کے آسان ہونے کو ظاہر کر رہی ہے۔
مگر صد افسوس کہ فقہاء کی خود ساختہ حد بندیوں نے دین کو بے حد مشکل بلکہ ناقابل عمل بنا دیا ہے، اس سے قرآن مجید کو حفظ کرنے کی بھی فضیلت نکلتی ہے مبارک ہیں وہ مسلمان جن کو قرآن مجید پورا برزبان یاد ہے اللہ پاک عمل کی بھی سعادت نصیب کرے۔
آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5030
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5121
5121. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی ﷺ کو اپنے نفس کی پیش کش کی۔ ایک شخص نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ اللہ کے رسول! مجھ سے اس کا نکاح کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیرے پاس اسے دینے کے لیے کیا ہے؟“ اس نے کہا: میرے پاس کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا: جاؤ تلاش کرو، اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو۔“ چنانچہ وہ گیا اور واپس آ کر عرض کی: اللہ کی قسم! مجھے تو کچھ نہیں ملا اور نہ لوہے کی انگوٹھی ہی دستیاب ہوئی ہے، البتہ یہ میرا تہبند ہے، اس میں سے نصف دے دیں۔ سیدنا سہل ؓ نے کہا: اس کے پاس اوڑھنے کے لیے چادر نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ اس تہبند کو کیا کرے گی؟“ اگر تو نے اسے پہنا تو اس پر کچھ نہیں ہوگا اور اگر اس نے پہنا تو تیرے لیے کچھ نہیں ہوگا۔ پھر وہ آدمی بیٹھ گیا اور تادیر بیٹھا رہا۔ جب وہ اٹھ کر جانے لگا تو نبی ﷺ نے اسے دیکھ کر اپنے پاس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5121]
حدیث حاشیہ:
جو سورتیں تم کو یاد ہیں ان کو بھی یاد کرا دینا۔
تمہارا یہی مہر ہے۔
حنفیہ نے کہا ہے کہ قرآن کی سورتوں کا یاد کرا دینا مہر نہیں قرار پا سکتا مگر یہ قول سراسر حدیث ہذا کے خلاف ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5121
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5126
5126. سیدنا سہل بن سعد سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں آپ کی خدمت میں خود کو ہبہ کرنے کے لیے آئی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا اپنی نظر کو اس کی طرف اونچا کیا، پھر اسے نیچا کرلیا پھر سر مبارک جھکا لہا۔ جب خاتون نے دیکھا کہ آپ نےاس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ آپ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ میں ایک صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی ضرورت نہیں تو اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس کوئی چیز ہے؟“ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میرے پاس کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے گھر جاؤ شاید کوئی چیز مل جائے۔“ وہ دوبارہ گیا اور وآپس آکر کہا: اللہ کے رسول! مجھے لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی لیکن میرا تہبند حاضر ہے۔۔۔ سیدنا سہل ؓ کہتے ہیں کہ اس کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5126]
حدیث حاشیہ:
ان سورتوں کو اسے یاد کرا دو۔
تشریح:
اس شخص نے اس عورت کو دیکھ کر اور پسند کر کے نکاح کی خواہش ظاہر کی تھی باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5126
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5141
5141. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت، نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور خود کو آپ پر پیش کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے آج کل جسئ دوسری عورت کی حاجت نہیں۔“ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ كے رسول! آپ اس کا نکاح مجھ سے کر دیں۔ آپ نے (اسے) فرمایا: ”تیرے پاس کیاہے؟“ اس نے کہا: میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ آپنے فرمایا: ”اسے کچھ نہ کچھ تو دینا پڑے گا خواہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔“ اس نے پھر عرض کی: میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تو نے کچھ قرآن یاد کیا ہے؟“ اس نے کہا: ہاں، اتنا قرآن یاد ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے اسے تمہارے نکاح میں دے دیا اس قرآن کے بدلے جو تمہیں یاد ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5141]
حدیث حاشیہ:
اس واقعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بطور ولی کے تھے۔
آپ سے اس شخص نے اس عورت سے نکاح کردینے کی درخواست کی، آپ نے نکاح کرا دیا۔
باب اور حدیث میں مطابقت ہوگئی۔
مرزا حیرت صاحب مرحوم کی حیرت انگیز جسارت! حضرت مرزا حیرت صاحب مرحوم نے بھی بخاری شریف کا اردو ترجمہ شائع کیا تھا مگر بعض بعض جگہ آپ حیر ت انگیز جسارت سے کام لے جاتے ہیں چنانچہ اس حدیث کے ذیل آپ کی جسارت ملاحظہ ہو، لکھتے ہیں:
”بخاری اس حدیث سے یہ سمجھ گئے کہ تعلیم قرآن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مہر قرار دیا حالانکہ اس سے لازم نہیں آتا۔
بلکہ مہر مؤجل مقرر کر دیا ہوگا اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے بزرگی قرآن یاد ہونے کی وجہ سے اس کا نکاح تجھ سے کر دیا۔
بخاری نے باء کے معنی عوض کے لے کر مسئلہ قائم کر دیا حالانکہ باء مسببہ ہے (صحیح بخاري، جلد:
سوم /ص22)
مرزا صاحب مرحوم نے حضرت امیر المومنین فی الحدیث کو جس لا ابالی پن سے یاد کیا ہے وہ آپ کی حیرت انگیز جسارت ہے پھر مزید جسارت یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نکاح کر دینے کی بڑی ہی بھونڈی تصویر پیش کی ہے۔
جس کے صاف الفاظ یہ ہیں (فقد ملکتکھا بما معك من القرآن)
تجھ کو جو قرآن زبانی یاد ہے اس کے عوض اس عورت کا میں نے تجھ کو مالک بنا دیا۔
یہ اس وقت ہوا جب کہ سائل کے گھر میں ایک لوہے کی انگوٹھی یا چھلا بھی نہ تھا مگر مرزا صاحب کی جسارت ملاحظہ ہو کہ آپ لکھتے ہیں ”بلکہ مہر مؤجل مقرر کر دیا ہوگا۔
“ اگر ایسا ہوا ہوتا تو تفصیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ضرور ذکر فرماتے مگر صاف واضح ہے کہ مرزا صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ محض قیاسی افتراء بازی کی ہے جس کی بنا پر آپ حضرت امام بخازی رحمۃاللہ علیہ کی فقاہت حدیث پر حملہ کر رہے ہیں اور اپنی فہم کے آگے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی فہم حدیث کو ہیچ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
اللہ پاک حضرت مرزا صاحب کی اس جسارت کو معاف فرمائے۔
در اصل تعصب تقلید اتنا برا مرض ہے کہ آدمی اس میں بالکل اندھا بہرہ بن کر حقیقت سے بالکل دور ہو جاتا ہے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں جو مسئلہ ثابت فرمایا ہے وہ ایسے حالات میں یقینا ارشاد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
ولا شك فیه علی رغم انوف المقلدین الجامدین رحمھم اللہ أجمعین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5141
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5150
5150. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک آدمی سے فرمایا: ”تم نکاح کرو اگرچہ لوہے کی ایک انگوٹھی کے عوض ہی ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5150]
حدیث حاشیہ:
اس سے صاف ظاہر ہوا کہ نکاح میں ایک معمولی رقم کے مہر پر بھی ہو سکتا ہے حتی کہ ایک لوہے کی انگوٹھی پر بھی جبکہ دولہا بالکل مفلس ہو۔
الغرض شریعت نے نکاح کا معاملہ بہت آسان کر دیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5150
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5871
5871. حضرت سہل ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: میں خود کو ہبہ کرنے آئی ہوں۔ وہ دیر تک وہاں کھڑی رہی آپ ﷺ نے اسے دیکھ کر نگاہ نیچی کر لی۔ جب وہ دیر تک کھڑی رہی توایک آدمی نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی حاجت نہیں ہے تو اس کا نکاح مجھ سے کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیرے پاس اسے مہر دینے کے لیے کوئی چیز ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”جاؤ، تلاش کرو۔“ وہ گیا اور واپس آ کر عرض کرنے لگا: اللہ کی قسم! مجھے کچھ نہیں ملا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ”جاؤ، تلاش کرو اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو۔“ وہ گیا واپس آ کر کہا: اللہ کی قسم! مجھے لوہے کی انگوٹھی نہیں ملی۔ اس نے ایک تہبند پہنا ہوا تھا اوڑھنے کے لیے اس کے پاس کوئی چادر نہ تھی اس نے عرض کی: میں اپنا تہبند اگر اس نے پہن لیا تو تمہارے لیے کچھ نہ ہوگا اگر تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5871]
حدیث حاشیہ:
ان حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرد کی حاجت ساتھ ہی انتہائی ناداری دیکھ کر آخر میں قرآن مجید کی جو سورتیں اسے یاد تھیں وہ سورتیں اس عورت کو یاد کرا دینے ہی کو مہر قرار دے دیا۔
ایسے حالات میں اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔
ان حالات میں اب بھی یہی حکم ہے، اس شخص سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوہے کی انگوٹھی کا ذکر فرمایا تھا اس وجہ سے اس حدیث کو اس باب میں لایا گیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5871
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5087
5087. سیدنا سہل بن سعد ساعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں حاضر خدمت ہوں اور اپنی ذات کو ہبہ کرتی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے نظر اوپر اٹھا کر اسے دیکھا۔ پھر اپنی نگاہ نیچے کی اور سے مبارک جھکا لیا۔ جب اس خاتون نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ تب آپ کے صحابہ کرام ؓ میں ایک صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی حاجت نہیں ہے تو اس کا نکاح مجھ سے کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس کچھ مال ہے؟“ اس نے کہا اللہ کے رسول! اللہ کی قسم میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے گھر جاؤ، ممکن ہے کہ وہاں سے کوئی چیز مل جائے۔“ چنانچہ ہو گئے اور وآپس آ کر کہا: اللہ کی قسم! میں نے وہاں کچھ نہیں پایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دیکھو اگر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5087]
حدیث حاشیہ:
تمہارا مہر یہی ہے کہ تم اس کو وہ سورتیں جو تم کو یاد ہیں ان کو یاد کرا دینا۔
نسائی اور ابو داؤد کی روایت میں سورۃ بقرہ اور اس کے پاس والی سورت آل عمران مذکور ہے۔
دارقطنی کی روایت میں سورۃ بقرہ اورمفصل کی چند سورتیں مذکور ہیں۔
ایک روایت میں یوں ہے حضرت ابوامامہ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کا نکاح سات سورتوں پر کر دیا۔
ایک روایت میں یوں ہے کہ اس کو بیس آیتیں سکھلا دے وہ تیری جورو ہے۔
اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے اور حنفیہ نے برخلاف ان احادیث صحیحہ کے یہ حکم دیا ہے کہ تعلیم قرآن مہر نہیں ہو سکتی اورکہتے ہیں ﴿أن تَبتَغُو ا بِأموالِکُم﴾ ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم قرآن کو بھی مال قرار دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قرآن کو تم نہیں جانتے۔
واللہ اعلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5087
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5132
5132. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک عورت آئی اور اس نے خود کو آپ ﷺ پر پیش کیا۔ آپ نے اس عورت کو اوپر سے نیچھ دیکھا آپ کا (اس سے شادی کا) ارادہ نہ بنا۔ آپ کے صحابہ کرام ؓ میں سے ایک شخص نے عرض کی: اللہ کے رسول! اس کا میرے ساتھ نکاح کر دیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس کوئی چیز ہے؟“ اس نے عرض کیا: میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں؟“ اس نے کہا کہ لوہے کی انگوٹھی بھی میرے پاس نہیں، لیکن میں اپنی اس چادر کے دو ٹکڑے پاس رکھ لیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”ایسا تو نہیں ہو سکتا، اچھا بتاؤ تمہیں کچھ قرآن یاد ہے؟“ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”جاؤ، اس حفظ قرآن کے عوض میں نے اس سے تیری شادی کر دی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5132]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مناسبت باب سے اس طرح ہے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پسند کرتے اپنا نکاح آپ اس سے کرلیتے۔
آپ اس عورت کے اور سب مسلمانوں کے ولی تھے بعضوں نے کہا کہ مناسبت یہ ہے کہ جب اس مرد نے پیغام دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو سب مسلمانوں کے ولی تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اس کا نکاح کر دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5132
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7417
7417. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک آدمی سے فرمایا تھا: ”کیا تیرے پاس قرآن سے کوئی شے ہے؟“ اس نے کہا: ہاں فلاں فلاں سورت یاد ہے اس نے ان سورتوں کے نام بھی لیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7417]
حدیث حاشیہ:
یہ آپ نےاس آدمی سےفرمایا تھا جس نےایک عورت سےنکاح کی درخواست کی تھی مگر مہر کے لیے اس کے پاس کچھ نہ تھا۔
قرآن کو لفظ شے سے تعبیر کیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7417
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2310
2310. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں خود کو آپ کے لیے ہبہ کرتی ہوں۔ ایک شخص بولا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ اس کا نکاح میرے ساتھ کردیں۔ آپ نے فرمایا: ”میں نے اس قرآن کے بدلے جو تجھے یادہے اس کا نکاح تجھ سے کردیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2310]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عورت نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:
میں نے خود کو آپ کے لیے ہبہ کردیا ہے تو گویا اس نے آپ کو اس بات کا وکیل بنایا کہ آپ اس کا نکاح اپنے ساتھ کرلیں یا جس کے ساتھ آپ مناسب خیال کریں اس کے ساتھ کردیں۔
عنوان بھی یہی ہے۔
ہبہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مہر وغیرہ کا میری طرف سے کوئی مطالبہ نہیں اور میں اپنے آپ کو آپ کے نکاح میں دیتی ہوں لیکن رسول اللہ ﷺ نے اسے قانون کی حوصلہ افزائی نہیں فرمائی بلکہ دوسری روایت میں ہے کہ آپ کچھ دیر سوچتے رہے۔
یہ تردد دیکھ کر ایک شخص نے عرض کی:
اللہ کے رسول! آپ اس کا نکاح مجھ سے کردیں۔
(صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5135،5126)
(2)
واضح رہے کہ عورت کا کسی کو اپنا نفس ہبہ کرنا صرف رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت ہے، کسی امتی کے لیے اس طرح عورت کا ہبہ جائز نہیں، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ مہر میں تعلیم قرآن بھی طے ہوسکتی ہے۔
والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2310
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5029
5029. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک خاتون نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ اس نے خود کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے وقف کر دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اب مجھے عورتوں سے نکاح کو کوئی ضرورت نہیں۔“ وہاں بیٹھے ایک آدمی نے عرض کی: آپ اس کا نکاح مجھ سے کردیں۔ آپ نے فرمایا: ”اسے حق مہر کے طور پر کوئی کپڑا دو۔“ اس نے کہا: مجھے یہ میسر نہیں ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اسے کچھ تو دو۔ خواہ لوہے کی انگھوٹھی ہو۔“ وہ شخص بہت افسردہ ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تجھے کتنا قرآن یاد ہے؟“ مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر میں نے تیرا اس سے نکاح ان سورتوں کے عوض کر دیا جو تجھے یاد ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5029]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ تم یاد کی ہوئی سورتیں اس عورت کو سکھا دو۔
تیرا یہی حق مہر ہے۔
2۔
اس حدیث کی باب سے مناسبت اس طرح ہے کہ یہ قرآن دنیا میں بھی مال و دولت کے قائم مقام ہے اور مقصود کے حصول کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔
آخرت کی عظمت ظاہر ہے۔
اس میں تو کوئی شک نہیں۔
3۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس چیز پر فریقین، یعنی بیوی خاوند راضی ہو جائیں وہ مہر ہو سکتی ہے، خواہ وہ کتنی ہی معمولی ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا تھا:
”جاؤ کچھ تو لاؤ اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو۔
“ واللہ اعلم۔
(فتح الباري: 97/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5029
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5030
5030. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں خود آپ کی خدمت میں ہبہ کرنے کے لیے حاضر ہوئی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا پھر نگاہ نیچے کرلی اور سر جھکا لیا۔ جب خاتون نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے تو وہ بیٹھ گئی۔ اس دوران میں آپ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ میں سے ایک صاحب اٹھے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی ضرورت نہیں تو میرے ساتھ اس کا نکاح کر دیں آپ ﷺ نےفرمایا: ”کیا تیرے پاس کچھ ہے؟ اس نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! کچھ نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے گھر جاؤ وہاں جا کر دیکھو شاید کوئی چیز مل جائے۔“ چنانچہ وہ گیا پھر لوٹ آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے وہاں کوئی چیز نہیں ملی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر شاید دیکھ لوہے کی انگوٹھی ہی مل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5030]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے حفظ قرآن کی مشروعیت اور اس کے استحباب کو ثابت کیا ہے جیسا کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ قرآن پڑھو اور یہ مصاحف جو معلق ہیں تمھیں فخر و غرور میں مبتلا نہ کریں۔
بے شک اللہ تعالیٰ اس دل کو عذاب نہیں دے گا۔
جس نے قرآن کریم کو اپنے اندر محفوظ کر رکھا ہو گا۔
(سنن الدارمي، فضائل القرآن، حدیث: 3185 و فتح الباري: 99/9)
2۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ناداری اور مفلسی کی حالت میں تعلیم قرآن کو حق مہر قرار دیا جا سکتا ہے، مگر افسوس کہ فقہاء کی خود ساختہ حد بندیوں نے دین کو بے حد مشکل بنا دیا ہے راقم الحروف کے نکاح کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا تھا۔
میری اہلیہ نے اٹھارہ پارے یاد کر رکھے تھے اور بارہ پارے حق مہر میں رکھ دیے گئے کہ میں انھیں یاد کراؤں گا۔
و للہ الحمد حمداً کثیراً مبارک ہیں وہ خواتین و حضرات جنھوں نے پورا قرآن اپنے سینوں میں محفوظ کر رکھا ہے اللہ تعالیٰ انھیں عمل کی بھی سعادت نسیب فرمائے۔
آمین۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5030
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5087
5087. سیدنا سہل بن سعد ساعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں حاضر خدمت ہوں اور اپنی ذات کو ہبہ کرتی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے نظر اوپر اٹھا کر اسے دیکھا۔ پھر اپنی نگاہ نیچے کی اور سے مبارک جھکا لیا۔ جب اس خاتون نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ تب آپ کے صحابہ کرام ؓ میں ایک صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی حاجت نہیں ہے تو اس کا نکاح مجھ سے کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس کچھ مال ہے؟“ اس نے کہا اللہ کے رسول! اللہ کی قسم میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے گھر جاؤ، ممکن ہے کہ وہاں سے کوئی چیز مل جائے۔“ چنانچہ ہو گئے اور وآپس آ کر کہا: اللہ کی قسم! میں نے وہاں کچھ نہیں پایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دیکھو اگر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5087]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ وقتی طور پر اگر کوئی نادار یا مفلس ہے تو یہ ناداری نکاح میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں مذکور ایک نادار و مفلس شخص کا نکاح قرآن کی چند سورتوں کے بدلے میں کر دیا تھا، اگر ناداری و مفلسی رکاوٹ کا باعث ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نکاح نہ کرتے۔
(2)
تنگدست آدمی نکاح کر سکتا ہے۔
نکاح کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی تنگدستی دور کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن اس وعدے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو بھی محتاج شادی کرے گا شادی کے بعد وہ مال دار غنی ہو جائے گا بلکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان نکاح کے بعد احساس ذمہ داری کی وجہ سے پوری محنت کرنے لگتا ہے جو پہلے نہیں کرتا تھا۔
کبھی بیوی اس کے کسب معاش کے سلسلے میں معاون بن جاتی ہے، کبھی بیوی کے کنبے والے اس سلسلے میں اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں، کبھی مرد کے لیے کمائی اور آمدنی کی ایسی راہیں کھل جاتی ہیں جس کا اسے پہلے وہم گمان بھی نہیں ہوتا۔
بہر حال مفلسی اور ناداری کو نکاح کے لیے رکاوٹ خیال نہیں کرنا چاہیے اور یقین رکھنا چاہیے کہ رزق کی تنگی اور فراخی کا انحصار نہ نکاح کرنے پر ہے اور نہ مجرد رہنے ہر، لہٰذا اس بنا پر نکاح سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وقتی طور پر تنگ دستی کو نکاح میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نکاح کے بعد رزق کے دروازے اس کے لیے کھول دے۔
(فتح الباري: 164/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5087
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5121
5121. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی ﷺ کو اپنے نفس کی پیش کش کی۔ ایک شخص نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ اللہ کے رسول! مجھ سے اس کا نکاح کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیرے پاس اسے دینے کے لیے کیا ہے؟“ اس نے کہا: میرے پاس کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا: جاؤ تلاش کرو، اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو۔“ چنانچہ وہ گیا اور واپس آ کر عرض کی: اللہ کی قسم! مجھے تو کچھ نہیں ملا اور نہ لوہے کی انگوٹھی ہی دستیاب ہوئی ہے، البتہ یہ میرا تہبند ہے، اس میں سے نصف دے دیں۔ سیدنا سہل ؓ نے کہا: اس کے پاس اوڑھنے کے لیے چادر نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ اس تہبند کو کیا کرے گی؟“ اگر تو نے اسے پہنا تو اس پر کچھ نہیں ہوگا اور اگر اس نے پہنا تو تیرے لیے کچھ نہیں ہوگا۔ پھر وہ آدمی بیٹھ گیا اور تادیر بیٹھا رہا۔ جب وہ اٹھ کر جانے لگا تو نبی ﷺ نے اسے دیکھ کر اپنے پاس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5121]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاري رحمہ اللہ نے اس حدیث سے بھی عورت کا خود کو نیک مرد پر پیش کرنے کا جواز ثابت کیا ہے کہ وہ اس سے نکاح کرے جبکہ وہ اس کی بزرگی اور صلاحیت میں رغبت رکھتی ہو۔
اس میں کوئی عار والی بات نہیں ہے۔
(2)
دنیوی غرض کی وجہ سے ایسا کرنا بے حیائی اور بے شرمی ہے۔
اگرچہ کسی عورت کا خود کو بطور ہبہ پیش کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے لیکن اس حدیث کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی نیک آدمی اس سے نکاح کر سکتا ہے۔
بہرحال ایسا کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اگر بزرگ آدمی نکاح میں دلچسپی رکھے تو اس سے نکاح کرے۔
اگر نکاح کی رغبت نہ ہو تو خاموش رہے۔
صراحت کے ساتھ جواب دے کر عورت کی حوصلہ شکنی نہ کرے۔
(فتح الباری)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5121
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5126
5126. سیدنا سہل بن سعد سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں آپ کی خدمت میں خود کو ہبہ کرنے کے لیے آئی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا اپنی نظر کو اس کی طرف اونچا کیا، پھر اسے نیچا کرلیا پھر سر مبارک جھکا لہا۔ جب خاتون نے دیکھا کہ آپ نےاس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ آپ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ میں ایک صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی ضرورت نہیں تو اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس کوئی چیز ہے؟“ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میرے پاس کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اپنے گھر جاؤ شاید کوئی چیز مل جائے۔“ وہ دوبارہ گیا اور وآپس آکر کہا: اللہ کے رسول! مجھے لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی لیکن میرا تہبند حاضر ہے۔۔۔ سیدنا سہل ؓ کہتے ہیں کہ اس کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5126]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے بہت سے مسائل اخذ کیے ہیں۔
اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ جب اس خاتون نے خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کیا تو آپ نے اسے دیکھا اور اس کی طرف اپنی نظر مبارک اٹھائی۔
اس سے معلوم ہوا کہ کسی ضرورت کے پیش نظر اجنبی عورت کو دیکھا جا سکتا ہے لیکن بلا وجہ اجنبی عورت کو دیکھنے کی سخت ممانعت ہے۔
(2)
ایک دوسرے انداز سے بھی عنوان کو ثابت کیا جا سکتا ہے کہ مذکورہ شخص نے اس عورت کو دیکھا اور پسند کرنے کے بعد اس سے نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
(3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ کچھ حضرات نکاح سے پہلے اپنی منگیتر کو دیکھنے کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ وہ اجنبی ہے اور اجنبی کو دیکھنا جائز نہیں لیکن مذکورہ احادیث سے اس موقف کی تردید ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 228/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5126
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5132
5132. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک عورت آئی اور اس نے خود کو آپ ﷺ پر پیش کیا۔ آپ نے اس عورت کو اوپر سے نیچھ دیکھا آپ کا (اس سے شادی کا) ارادہ نہ بنا۔ آپ کے صحابہ کرام ؓ میں سے ایک شخص نے عرض کی: اللہ کے رسول! اس کا میرے ساتھ نکاح کر دیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس کوئی چیز ہے؟“ اس نے عرض کیا: میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں؟“ اس نے کہا کہ لوہے کی انگوٹھی بھی میرے پاس نہیں، لیکن میں اپنی اس چادر کے دو ٹکڑے پاس رکھ لیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”ایسا تو نہیں ہو سکتا، اچھا بتاؤ تمہیں کچھ قرآن یاد ہے؟“ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”جاؤ، اس حفظ قرآن کے عوض میں نے اس سے تیری شادی کر دی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5132]
حدیث حاشیہ:
(1)
علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر اس شخص کے ولی ہیں جس کا کوئی سرپرست نہ ہو، لہٰذا جب آپ نے اس مفلس آدمی کا نکاح اس عورت سے کر دیا تو آپ نے یہ نکاح ولی ہونے کی حیثیت سے کیا۔
(عمدة القاري: 85/14)
لیکن اس مطابقت میں بہت بعد ہے کیونکہ عنوان یہ ہے کہ ولی خود اپنے ساتھ نکاح کرے لیکن اس حدیث میں جس کے ساتھ عورت کا نکاح کیا گیا وہ ولی کے علاوہ کوئی دوسرا ہے، البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو پیش کرنے والی سے اعراض فرمایا، اگر آپ نکاح کرتے تو خود اپنے آپ کے ولی ہوتے یا کسی دوسرے کو نکاح کرانے کا حکم دیتے تو اس اطلاق سے عنوان ثابت ہوتا ہے۔
لیکن صحیح جواب یہ ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے تھا کہ خود اپنے آپ سے نکاح کرائیں یا ولی کے بغیر نکاح کریں یا بغیر گواہوں کے یا لفظ ہبہ کے ساتھ نکاح کریں آپ پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
(فتح الباري: 238/9)
والله اعلم (2)
ہمارے رجحان کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر اس عورت کو پسند کرتے تو خود اپنا نکاح اس سے کرلیتے۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5132
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5135
5135. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور عرض کی: میں خود کو آپ کے لیے ہبہ کرتی ہوں، پھر وہ دیر تک وہاں کھڑی رہی۔ اتنے میں ایک شخص نے کہا اگر آپ کو اس کی ضرورت نہ ہو تو مجھ سے اس کا نکاح کر دیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”کیا تیرے پاس اسے مہر دینے کے لیے کوئی چیز ہے؟“ اس نے کہا میرے پاس اس تہبند کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اگر تم اپنا تہبند اسے دے دو گے تو تمہارے پہننے کے لیے کوئی تہبند نہیں ہو گا کوئی اور چیز تلاش کرلو۔“ اس نے عرض کی: میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کچھ تو تلاش کرو اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو۔“ تاہم اسے وہ بھی مل نہ سکی تو آپ نے اسے فرمایا: ”کیا تجھے کچھ قرآن یاد ہے؟“ اس نے کہا: ہاں، فلاں فلاں سورت یاد ہے اس نے چند سورتوں کا نام لیا۔ آخر کار آپ ﷺ نے فرمایا: ”جاؤ ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5135]
حدیث حاشیہ:
(1)
ابن بطال نے کہا ہے کہ تمام اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کا سرپرست حاکم وقت ہے، نیز جب لڑکی اپنا ہم پلہ پائے اور اس کا سر پرست نکاح نہ کرے تو حاکم وقت اس کا سرپرست ہوگا، چنانچہ وہ اس کا نکاح کر دےگا۔
(عمدة القاري: 88/14)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے اور حاکم وقت ہر اس عورت کا ولی ہے جس کا کوئی سرپرست نہ ہو۔
“ (جامع الترمذي، النکاح، حدیث: 1101)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبرانی کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث پیش کی ہے جس کے الفاظ یہ ہین:
”خیر خواہ سرپرست یا حاکم وقت کےبغیر نکاح نہیں ہوتا۔
“ (المعجم الأوسط للطبراني: 318/1، رقم: 525، و إرواء الغلیل: 239/6) (2)
ہمارے رجحان کے مطابق اگر حاکم وقت تک عورت کی رسائی نہ ہوسکے تو گاؤں کے معزز آدمی پنچایت کے طور پر اس کی سرپرستی کریں اور اس عورت کا نکاح کر دیں۔
والله اعلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دور میں حاکم وقت بھی تھے، اس لیے آپ نے اس عورت کا نکاح ایک مفلس اور نادار سے کر دیا۔
جن احادیث میں حاکم وقت کی سرپرستی کی صراحت ہے وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط کے مطابق نہ تھیں، اس لیے اس حدیث سے اپنا مدعا ثابت کیا ہے۔
(فتح الباري: 239/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5135
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5141
5141. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت، نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور خود کو آپ پر پیش کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے آج کل جسئ دوسری عورت کی حاجت نہیں۔“ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ كے رسول! آپ اس کا نکاح مجھ سے کر دیں۔ آپ نے (اسے) فرمایا: ”تیرے پاس کیاہے؟“ اس نے کہا: میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ آپنے فرمایا: ”اسے کچھ نہ کچھ تو دینا پڑے گا خواہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔“ اس نے پھر عرض کی: میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تو نے کچھ قرآن یاد کیا ہے؟“ اس نے کہا: ہاں، اتنا قرآن یاد ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے اسے تمہارے نکاح میں دے دیا اس قرآن کے بدلے جو تمہیں یاد ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5141]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو سرسے پاؤں تک ایک نظر دیکھا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ضرورت تھی لیکن اس حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
”مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔
“ (صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5126)
شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نکاح کی خاطر نہ دیکھا ہو۔
چونکہ آپ ساری امت کے باپ اور آپ کی بیویاں امت کی مائیں ہیں، اس لیے آپ کے لیے دیکھنا جائز تھا۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے کسی اور مصلحت کے پیش نظر اسے دیکھا ہو۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ مرد کا سرپرست سے درخواست کرنا ہی قبول کے قائم مقام تھا، اس کے بعد اظہار قبول کی ضرورت نہ تھی۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرد، عورت دونوں کے سرپرست تھے اور آپ ہی ایجاب و قبول کے متولی تھے، اس لیے قبول کا اظہار نہیں کیا گیا۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5141
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5150
5150. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک آدمی سے فرمایا: ”تم نکاح کرو اگرچہ لوہے کی ایک انگوٹھی کے عوض ہی ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5150]
حدیث حاشیہ:
(1)
لوہے کی انگوٹھی کے عوض نکاح کرنا تو نص حدیث سے ثابت ہے، اس کے علاوہ دیگر سامان وغیرہ کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے، الغرض نکاح کا معاملہ انتہائی آسان ہے، ہم نے خواہ مخواہ اسے مشکل بنا دیا ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ حق مہر کے لیے نقدی کا ہونا ضروری نہیں، اس کے علاوہ کسی بھی سامان کو، خواہ وہ معمولی ہو، حق مہر ٹھہرایا جا سکتا ہے بشرطیکہ فریقین اس پر راضی اور مطمئن ہوں۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5150
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5871
5871. حضرت سہل ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: میں خود کو ہبہ کرنے آئی ہوں۔ وہ دیر تک وہاں کھڑی رہی آپ ﷺ نے اسے دیکھ کر نگاہ نیچی کر لی۔ جب وہ دیر تک کھڑی رہی توایک آدمی نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی حاجت نہیں ہے تو اس کا نکاح مجھ سے کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیرے پاس اسے مہر دینے کے لیے کوئی چیز ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”جاؤ، تلاش کرو۔“ وہ گیا اور واپس آ کر عرض کرنے لگا: اللہ کی قسم! مجھے کچھ نہیں ملا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ”جاؤ، تلاش کرو اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو۔“ وہ گیا واپس آ کر کہا: اللہ کی قسم! مجھے لوہے کی انگوٹھی نہیں ملی۔ اس نے ایک تہبند پہنا ہوا تھا اوڑھنے کے لیے اس کے پاس کوئی چادر نہ تھی اس نے عرض کی: میں اپنا تہبند اگر اس نے پہن لیا تو تمہارے لیے کچھ نہ ہوگا اگر تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5871]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے لوہے کی انگوٹھی استعمال کرنے کا جواز ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مفلس آدمی کو لوہے کی انگوٹھی تلاش کرنے کا حکم دیا۔
لوہے کی انگوٹھی کے متعلق جو ممانعت پر مشتمل احادیث ہیں وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک صحیح نہیں ہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا جس نے پیتل کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میں تجھ سے بت کی بو پاتا ہوں۔
“ اس نے وہ انگوٹھی پھینک دی۔
وہ پھر حاضر خدمت ہوا تو اس نے لوہے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میں تجھ پر اہل جہنم کا زیور دیکھ رہا ہوں۔
“ اس نے اسے پھینک دیا اور عرض کی:
اللہ کے رسول! میں کس چیز کی انگوٹھی پہنوں؟ تو آپ نے فرمایا:
”چاندی کی انگوٹھی جو ایک مثقال سے کم ہو۔
“ (سنن أبي داود، الخاتم، حدیث: 4223)
ایک مثقال 4.25 گرام کا ہوتا ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث پر جرح کی ہے اور لکھا ہے کہ اگر صحیح ہے تو اس سے مراد خالص لوہے کی انگوٹھی ہے۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 397/10) (3)
ہمارے رجحان کے مطابق لوہے کی انگوٹھی پہننا جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مفلس اور غریب آدمی کو لوہے کی انگوٹھی تلاش کرنے کا حکم دیا، اگر اسے پہننا جائز نہ ہوتا تو آپ قطعاً اسے تلاش کرنے کا حکم نہ دیتے۔
اس کی تاویل کرنا کہ انگوٹھی کی تلاش اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے تھی اسے پہننا مراد نہیں، یہ تاویل محل نظر ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5871
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7417
7417. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک آدمی سے فرمایا تھا: ”کیا تیرے پاس قرآن سے کوئی شے ہے؟“ اس نے کہا: ہاں فلاں فلاں سورت یاد ہے اس نے ان سورتوں کے نام بھی لیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7417]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دعوی کے اثبات میں دو آیات اور ایک حدیث پیش کی ہے۔
پہلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کریمہ کو شے کہا ہے۔
اس سے مراد اپنے وجود کو ثابت کرنا اور عدم کی نفی کرنا ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کو شے کہا جا سکتا ہے کہ وہ موجود ہے۔
دوسری آیت کریمہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر شے ہلاک ہونے والی ہے عربی قواعد کےاعتبار سے مستثنیٰ متصل ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی شے میں داخل ہے پھر حرف استثناء کے ذریعے سے اسے خارج کیا گیا ہے۔
حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو شے کہا ہے۔
اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی صفات ذات میں سے ایک صفت ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو شے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
2۔
شارح صحیح بخاری ابن بطال فرماتے ہیں کہ مذکورہ آیات و آثار سے مراد اس شخص کی تردید ہے جوذات باری تعالیٰ پر شے کا اطلاق جائز خیال نہیں کرتا جیسا کہ عبد اللہ الناشئی کا نظریہ ہے اسی طرح اس شخص کی بھی تردید مقصود ہے جو معدوم کو شے کہنا ہے کیونکہ لفظ شے سے کسی کا موجود ہونا مراد ہے اور لاشے سے موجود کی نفی کی جاتی ہے ہاں اگر مذمت کرنا ہو تو موجود کو لاشے کہا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 496/13)
مذکورہ حدیث انتہائی اختصار کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صرف اتنا حصہ ذکر کیا ہے جسے بطور دلیل پیش کرنا تھا۔
اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث کتاب النکاح سے متعلق ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7417