کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «حولين كاملين لمن أراد أن يتم الرضاعة»”پورے دو سال اس شخص کے لیے جو چاہتا ہو کہ رضاعت پوری کرے اور رضاعت کم ہو جب بھی حرمت ثابت ہوتی ہے اور زیادہ ہو جب بھی۔“[صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: Q5102]
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اشعث نے، ان سے ان کے دادا نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو دیکھا کہ ان کے یہاں ایک مرد بیٹھا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا گویا کہ آپ نے اس کو پسند نہیں فرمایا عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ میرے دودھ والے بھائی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو، سوچ سمجھ کر کہو کون تمہارا بھائی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 5102]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5102
حدیث حاشیہ: شاید وہ ابو قعیس کا کوئی بیٹا ہو جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رضائی باپ تھا اور جس نے یہ مرد عبید اللہ بن یزید بتلایا ہے، اس نے غلط کہا۔ وہ بالاتفاق تابعین میں سے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5102
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5102
حدیث حاشیہ: (1) دودھ کا رشتہ اس وقت قائم ہوتا ہے جب صغر بچپن، یعنی بالکل ہی چھوٹی عمر میں دودھ پیا جائے اس کی مدت قرآن کریم نے دوسال بیان کی ہے، یعنی اس رضاعت کا اعتبار کیا جائے گا جو بچے کو دوسرے ہر قسم کے کھانے سے بے نیاز کر دے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رضاعت وہ ہے جو ہڈی کو مضبوط کرے اور گوشت پیدا کرے۔ (سنن أبي داود، النكاح، حديث: 2059) یعنی وہ دودھ رضاعت کی حرمت کا باعث ہوگا جو گوشت پیدا کرے، اس سے ہڈیاں مضبوط ہوں اور وہ جسم کا حصہ بنے جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی وضاحت ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مدتِ رضاعت دو سال ہے اور وہ اس سے وقت معتبر ہوگی جب بھوک کو مٹائے اور گوشت کو پیدا کرے، چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ رضاعت حرمت کا سبب ہوگی جو بچے کی انتڑیوں کے کھلنے کا باعث ہو اور یہ دودھ چھڑانے سے پہلے پہلے ہو۔ “(جامع الترمذي، الرضاع، حديث: 1152)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5102
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 965
´دودھ پلانے کا بیان` سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ضرور غور کر لیا کرو کہ تمہارے بھائی کون ہیں کیونکہ رضاعت اس وقت معتبر ہے جب دودھ بھوک کے وقت پیا جائے۔“(بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 965»
تخریج: «أخرجه البخاري، النكاح، باب من قال لا رضاع بعد حولين...، حديث:5102، 2647، ومسلم، الرضاع، باب إنما الرضاعة من المجاعة، حديث:1455.»
تشریح: اس حدیث میں ایک قصے کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ اس وقت میرے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ یہ بات آپ کی طبع مبارک پر گراں گزری اور میں نے چہرۂ انور پر ناراضی کے آثار دیکھ کر کہا: اے اللہ کے رسول! یہ تو میرا رضاعی بھائی ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: ”غور سے دیکھ لیا کرو کہ تمھارے بھائی کون ہیں؟ … الخ۔ “
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 965
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3314
´کس قدر دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے (اس وقت) میرے پاس ایک شخص بیٹھا ہوا تھا یہ آپ پر بڑا گراں گزرا، میں نے آپ کے چہرہ مبارک پر ناراضگی دیکھی تو کہا: اللہ کے رسول! یہ شخص میرا رضاعی بھائی ہے، آپ نے فرمایا: ”اچھی طرح دیکھ بھال لیا کرو کہ تمہارے رضاعی بھائی کون ہیں، کیونکہ دودھ پینے کا اعتبار بھوک میں (جبکہ دودھ ہی غذا ہو) ہے۔“[سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3314]
اردو حاشہ: وہ رضاعت جو رشتے قائم کرتی ہے‘ اس دور میں ہوتی ہے جب بچہ دودھ ہی پر گزارا کرتا ہو اور دودھ ہی اس کی پوری خوراک ہو۔ اگر کوئی اور چیز کھاتا بھی ہو تو بہت کم‘ اصل خوارک دودھ ہی ہو۔ اور یہ دوسال پورے ہونے تک ہے۔ اگر کسی نے دو سال کی عمر کے بعد دودھ پیا تو کوئی رضاعی رشتہ ثابت نہ ہوگا۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے آتا ہے کہ وہ احتیاطاً ڈھائی سال کی عمر تک رضاعت کے قائل ہیں مگر یہ قرآن مجید کی صریح نص ﴿وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ﴾ کے خلاف ہے‘ لہٰذا رضاعت دو سال کی عمر تک ہی معتبر ہے۔ البتہ بعض کبیر کے بھی قائل ہیں اور اس کے بھی کچھ دلائل ان کے پاس ہیں‘اس کی تفسیر ”احسن البیان“ کے ضمیمے ”رضاعت کے ضروری مسائل“ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3314
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2058
´بڑی عمر والے کی رضاعت کا حکم۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، ان کے پاس ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، (حفص کی روایت میں ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات ناگوار گزری، آپ کا چہرہ متغیر ہو گیا (پھر حفص اور شعبہ دونوں کی روایتیں متفق ہیں) عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول یہ تو میرا رضاعی بھائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھی طرح دیکھ لو کون تمہارے بھائی ہیں؟ کیونکہ رضاعت تو غذا سے ثابت ہوتی ہے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2058]
فوائد ومسائل: یعنی رضاعت فی الحقیقت وہی معتبر ہے کہ بچے نے اپنی دودھ پینے کی عمر میں دودوھ پیا ہو، اسی سے حرمت ثابت ہوتی ہے دوسال کے بعد بچہ روٹی سالن اور دیگر خوراک سے اپنی بھوک مٹانے لگتا ہے، اس لیے جمہور کے نزدیک اس وقت دودھ پینے کا اعتبار نہیں۔ علاوہ ازیں رضاعت وہی معتبر ہے جو بھوک کی بنا پر ہو کا مطلب ہے بچے نے دودھ اتنی مقدار میں پیا ہو کہ جس سے اس کی بھوک مٹ گئی ہو اور اس کی وضاحت دسوری حدیث میں اس طرح ہے کہ وہ پانچ مرتبہ دودھ پیے وہ یوں کہ پستان منہ میں لے کر دودھ پیتا رہے اور پھر اسے اپنی مرضی سے چھوڑے۔ یہ ایک مرتبہ پینا (ایک رضعہ) ہے۔ اس طرح پانچ رضعات سے رضاعت سے ثابت ہوگی۔ ایک دو رضعوں سے نہیں (تفصیل کےلیے دیکھیئے: ضمیمہ تفسیر احس البیان بعنوان رضاعت کے چند ضروری مسائل، از حافظ صلاح الدین یوسف)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2058
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1945
´دودھ چھٹنے کے بعد پھر رضاعت ثابت نہیں ہے۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، اور اس وقت ایک شخص ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”یہ کون ہیں“؟ انہوں نے کہا: یہ میرے بھائی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیکھو جن لوگوں کو تم اپنے پاس آنے دیتی ہو انہیں اچھی طرح دیکھ لو (کہ ان سے واقعی تمہارا رضاعی رشتہ ہے یا نہیں) حرمت تو اسی رضاعت سے ثابت ہوتی ہے جو بچپن کی ہو جس وقت دودھ ہی غذا ہوتا ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1945]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) رضاعت سے محرم کا رشتہ تب قائم ہوتا ہے جب بچے کو دو سال کی عمر کے اندر دودھ پلایا گیا ہو۔ اور کم از کم پانچ بار پیٹ بھر کر دودھ پلایا گیا ہو۔ اگر کسی بچے کو دو سال کی عمر ہو جانے کے بعد دودھ پلایا گیا ہو تو یہ دودھ پلانا معتبر نہیں اس سے دودھ کا رشتہ قائم نہیں ہوگا۔ سوائے ناگزیر صورتحال کے جیسا کہ گزشتہ روایات میں بیان ہوا ہے۔
(2) رضاعت کے معاملات میں احتیاط ضروری ہے تاکہ غیر محرم کو محرم یا محرم کو غیر محرم نہ سمجھ لیا جائے۔
(3) مرد کو چاہیے کہ بیوی کو غلطی پر تنبیہ کرے اگر کس سے لا علمی کی بنا پر غلطی ہو جائے تو اسے سختی سے تنبیہ کرنے کے بجائے نرمی سے مسئلہ بتا دینا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1945
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3606
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس اس وقت تشریف لائے جبکہ ایک آدمی میرے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ تو یہ چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ناگوار گزری اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غصہ کے آثار دیکھے۔ تو میں نے عرض کی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! یہ میرا رضاعی بھائی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے رضاعی بھائیوں کے بارے میں غور و فکر کر لیا کرو، رضاعت وہی معتبر ہے جو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3606]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے جب دودھ پینے والا بچہ صرف دودھ کا خواہش مند ہو اور اس سے اس کی بھوک مٹتی ہو ایسی صورت میں اگر وہ عورت کا دودھ کسی طریقہ سے بھی پیٹ میں داخل ہونے دے گا تو وہ رضیع سمجھا جائے گا۔ اگر دودھ ایسے وقت میں بچہ کو دیا گیا ہے۔ جس سے اس کی بھوک نہیں ختم ہوتی اوروہ اس کی غذا نہیں بنتا، تو رضاعت ثابت نہیں ہوگی جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے: (لَا رِضَاعَ إِلَّا مَا شَدَّ الْعَظْمَ وَأَنْبَتَ اللَّحْمَ) رضاعت وہی معتبر ہے جو ہڈیوں کو مضبوط کرے اور گوشت کو نشوونما دے، اور یہ حقیقت ہے کہ عام طور پر دودھ یہ کام اسی صورت میں کرتا ہے جب کئی دفعہ پیا جائے محض ایک دو دفعہ پینے سے یہ بچے کی نشوونما اور تعمیر وتشکیل کا باعث نہیں بنتا۔ اورانتہائی عجیب بات ہے کہ علامہ تقی: (اِنَّمَا الرَّضَاعُ مِنَ الْمَجَاعَةِ) کی توضیع وتشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں، کہ اس رضاعت سے حرمت ثابت ہو گی جو چھوٹی عمر میں ہو جب بچہ دودھ پی رہا ہو اور(يَسُدُّ الَّلَبَنُ جُوْعَتَهُ) دودھ اس کی بھوک کو ختم کرے کیونکہ اس کا معدہ کمزور ہوتا ہے۔ اس لیے دودھ ہی اس کے لیے کافی ہوتا ہے، اور اس سے اس کا گوشت نشوونما پاتا ہے جس سے وہ ایک طرح سے مرضعہ کا جزو بن جاتا ہے۔ (تکملہ ج 1۔ ص 58) لیکن جب اس سے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے پانچ رضعات کے معتبر ہونے پر استدلال کیا، تو اس کا جواب دیا کہ مِنْ سَبَبِیَّہ ہے اور معنی یہ ہے کہ وہ رضاع باعث تحریم ہے۔ (مَا كَانَ بِسَبَبِ الْجُوْعِ) جو بھوک کی وجہ سے ہو یہ معنی نہیں ہے اور وہ رضاع محرم ہے جو (مَا سَدَّ الْجُوْعَ) جوبھوک کا انسداد وخاتمہ کرے اور اس سے بچہ سیر ہو جائے (تکملہ ج1ص 65) اور آ گے لکھتے ہیں گوشت پوست کو نشوونما کی معرفت کی کوئی صورت نہیں ہے کیونکہ بسا اوقات رضاع قلیل سے وہ نشوونما پایا جاتا ہے اور بسا اوقات کثیر سے بھی نشوونما نہیں پاتا۔ لہذا مطلق رضاع ہی محرم ہے۔ اگریہی صورت حال ہے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا: (لَا يُحَرِّمُ مِنْ الرِّضَاعَةِ إِلَّا مَا فَتَقَ الْأَمْعَاءَ) وہی رضاعت تحریم کا باعث ہے جو انتڑٖیوں کو کشادہ کردے پھر مطلق رضاعت ہی معتبر ہے پھر تو ابن حزم کاقول صحیح ہے مجاعہ کے عموم میں چھوٹے بڑے میں کوئی فرق نہیں ہے اس لیے رضاعت کبیر معتبرہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3606
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2647
2647. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ میرے گھر تشریف لائے تو ایک شخص میرے پاس بیٹھا تھا۔ آپ نے دریافت کیا: ”عائشہ ؓ! یہ کون ہے؟“ میں نے عرض کیا: یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”عائشہ ؓ!ذرا اپنے رضاعی بھائی کے بارے میں غور و فکر کر لیا کرو۔ کیونکہ اس رضاعت کا اعتبار ہے جس میں دودھ بھوک کی وجہ سے پیا جائے۔“ ابن مہدی نے سفیان سے روایت کرنے میں محمد بن کثیر کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2647]
حدیث حاشیہ: بچے کا اسی زمانہ میں کسی عورت کے دودھ پینے کا اعتبار ہے جبکہ بچے کی زندگی کے لیے وہ ضروری ہو یعنی مدت رضاعت جو دو سال کی ہے۔ اگر اس کے اندر دو بچے کسی ماں کا دودھ پئیں تو اس کا اعتبار ہوگا اور دونوں میں حرمت ثابت ہوگی ورنہ حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ مدت رضاعت حولین کاملین خود قرآن مجید سے ثابت ہے یعنی پورے دو سال، اس سے زیادہ دودھ پلانا غلط ہوگا۔ حنفیہ کے نزدیک یہ مدت تین ماہ اور زائد تک ہے جو ازروئے قرآن مجید صحیح نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2647
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2647
2647. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ میرے گھر تشریف لائے تو ایک شخص میرے پاس بیٹھا تھا۔ آپ نے دریافت کیا: ”عائشہ ؓ! یہ کون ہے؟“ میں نے عرض کیا: یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”عائشہ ؓ!ذرا اپنے رضاعی بھائی کے بارے میں غور و فکر کر لیا کرو۔ کیونکہ اس رضاعت کا اعتبار ہے جس میں دودھ بھوک کی وجہ سے پیا جائے۔“ ابن مہدی نے سفیان سے روایت کرنے میں محمد بن کثیر کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2647]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ دودھ کا رشتہ غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے کہ جو لڑکی کسی کا دودھ پی لے تو اس کا بیٹا اس کا بھائی نہیں بن جاتا بلکہ رضاعت اس عمر میں ثابت ہو گی جب بچہ دودھ کے علاوہ اور کوئی چیز استعمال نہ کرتا ہو، پھر دیگر احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ کم از کم پانچ مرتبہ دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے۔ اگر کسی عورت نے یونہی روتے ہوئے بچے کو چپ کرانے کے لیے اپنی چھاتی اس کے منہ میں دے دی تو اس سے رضاعت ثابت نہیں ہو گی۔ بہرحال ان احادیث کو پیش کرنے سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ نسب، رضاعت اور موت قدیم شہرت سے ثابت ہوں گی۔ انہیں ثابت کرنے کے لیے گواہی کی ضرورت نہیں ہے۔ (2) ان احادیث سے نسب اور رضاعت کا ثبوت ملتا ہے اور موت قدیم کا ثبوت بحکم الحاق ثابت ہوتا ہے۔ ان احادیث میں بیان کی جانے والی رضاعت کو شہرت کی بنیاد پر تسلیم کیا گیا ہے۔ (3) واضح رہے کہ عنوان میں موت قدیم کا ذکر ہے کیونکہ تازہ موت شہرت سے ثابت نہیں ہو گی۔ اس کے لیے شہادت ضروری ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ اپنی بہنوں کو وراثت سے محروم کرنے کے لیے پٹواری کے کاغذات میں انہیں مردہ ظاہر کر دیتے ہیں، حالانکہ وہ زندہ ہوتی ہیں، اس لیے عنوان میں موتِ قدیم کا ذکر ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2647