مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4600
4600. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے درج ذیل آیت: ﴿وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ ۖ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ۔۔۔ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ﴾ کی تفسیر میں فرمایا: کسی آدمی کے پاس کوئی یتیم بچی ہوتی، وہ اس کا متولی بھی ہوتا اور وارث بھی۔ وہ لڑکی اس کو اپنے مال حتی کہ کھجور کے درخت میں بھی شریک کر لیتی۔ وہ مال کی وجہ سے اس کے ساتھ نکاح کرنے میں رغبت رکھتا اور کسی دوسرے سے اس کے نکاح کو ناپسند کرتا، مبادا وہ یتیم لڑکی کے شریک ہونے کے باعث اس کے مال میں شریک ہو جائے گا، اس لیے وہ اس لڑکی کو کسی دوسرے سے نکاح کرنے میں رکاوٹ کھڑی کر دیتا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4600]
حدیث حاشیہ:
وہ شخص خود بھی واجبی مہر پر اس لڑکی سے نکاح نہ کرے بلکہ مہر کم دینا چاہے تو ایسے نکاح سے اللہ نے منع فرمایا اور یہ حکم دیا کہ اگر تم پورے پورے مہر پر اس سے نکاح کرنا نہ چاہو تو دوسرے شخص سے اسے نکاح کرنے سے منع نہ کرو۔
کہتے ہیں کہ حضرت جابر ؓ کی ایک چچیری بہن تھی، بد صورت۔
حضرت جابر ؓ خود اس سے نکاح کرنا نہیں چاہتے تھے اور مال اسباب کے خیال سے یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ کوئی دوسرا شخص اس سے نکاح کرے کیونکہ وہ اس کے مال کا دعویٰ کرے گا۔
اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت سے صاف ظاہر ہے کہ صنف نازک کا کسی بھی قسم کا نقصان شریعت میں سخت نا پسند ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4600
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6965
6965. حضرت عروہ سے روایت ہے انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے درج زیل آیت کی تفسیر کے متعلق پوچھا: ”اور اگر تمہیں اندیشہ ہوکہ تم یتیم بچیوں کے متعلق انصاف نہ کر سکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے نکاح کر لو جو تمہیں پسند ہوں“ سیدہ عائشہ ؓ نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اس سے مراد ایسی یتیم بچی ہے جو اپنے سر پرست کی کفالت میں ہو وہ اس کے مال ومتاع اور حسن وجمال کی وجہ سے اس میں شوق رکھتا ہو۔ پھر دوسری عورتوں کے معروف مہر سے کم حق مہر دے کر اس سے نکاح کرے۔ ایسے سرپرستوں کو ان لڑکیوں سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ہاں اگر وہ (سرپرست) پورا حق مہر دے کر انصاف کرے تو جائز ہے۔ اس کے بعد لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے درج زیل آیت نازل فرمائی: ”اور لوگ آپ سے عورتوں کے متعلق فتویٰ پوچھتے ہیں۔“ پھر انہوں نے بقیہ حدیث ذکر فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6965]
حدیث حاشیہ:
آدمیوں کو اپنے زیرتربیت یتیم بچیوں سے ظالمانہ طریق پر نکاح کر لینے سے منع کیا گیا۔
ایسے میں اگر وہ نکاح کرے گا تو اہل ظاہر کے نزدیک وہ نکاح صحیح نہ ہوگا اور جمہور کے نزدیک صحیح ہو جائے گا مگر اس کو مہر مثل دینا پڑے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6965
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2763
2763. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے اس آیت کریمہ کے متعلق سوا ل کیا: ”اوراگر تمھیں خطرہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے متعلق تم انصاف نہیں کرسکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے نکاح کرلو جو تمھیں پسند ہوں۔“ حضرت عائشہ ؓ نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: یتیم لڑکی اپنے سرپرست کی پرورش میں ہوتی تھی اور وہ اس کے حسن وجمال اور مال ومتاع میں رغبت کرتا لیکن وہ چاہتا کہ اس کے خاندان کی عورتوں کے مہر سے کم مہر کے عوض اس سے نکاح کرلے، اس لیے انھیں ایسی عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے سے روک دیا گیا مگر اس صورت میں کہ ان کے حق مہر کی پوری ادائیگی کریں۔ اورانھیں حکم دیا گیا کہ ان کے علاوہ دوسری عورتوں سے نکاح کرلیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: پھر لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بعد فتویٰ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”یہ لوگ آپ سےعورتوں کےمتعلق فتویٰ پوچھتے ہیں تو آپ فرمادیں کہ اللہ تمھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2763]
حدیث حاشیہ:
تاریخ و روایات میں مذکور ہے کہ یتیم لڑکیاں جو اپنے ولی کی تربیت میں ہوتی تھیں اور وہ لڑکی اس ولی کے مال وغیرہ میں بوجہ قرابت کے شریک ہوتی تواب دوصورتیں پیش آتی تھیں‘ کبھی تو یہ صورت پیش آتی کہ وہ لڑکی خوبصورت ہوتی اور ولی کو اس کے مال وجمال ہر دو کی رغبت کی وجہ سے اس سے نکاح کی خواہش ہوتی اور وہ تھوڑے سے مہر پر اس سے نکاح کرلیتا کیونکہ کوئی دوسرا شخص اس لڑکی کا دعویدار نہیں ہوتا تھا اور کبھی یہ صورت پیش آتی کہ یتیم لڑکی صورت شکل میں حسین نہ ہوتی مگر اس کا وہ ولی یہ خیال کرتا کہ دوسرے کسی سے اس کا نکاح کردوں گا تو لڑکی کا مال میرے قبضے سے نکل جائے گا۔
اس مصلحت سے وہ نکاح تو اس لڑکی سے طوعاً و کرھاً کرلیتا مگر ویسے اس سے کچھ رغبت نہ رکھتا۔
اس پر اس آیت کا نزول ہو ااور اولیاءکو ارشاد ہواکہ اگر تم کو اس بات کا ڈر ہے کہ تم ایسی یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے اور ان کے مہر اور ان کے ساتھ حسن معاشرت میں تم سے کوتاہی ہوگی تو تم ان سے نکاح مت کرو بلکہ اور عورتیں جو تم کو مرغوب ہوں ان سے ایک چھوڑ چار تک کی تم کو اجازت ہے۔
قاعدہ شرعیہ کے مطابق ان سے نکاح کرلو تاکہ یتیم لڑکیوں کو بھی نقصان نہ پہنچے کیونکہ تم ان کے حقوق کے حامی رہوگے اور تم بھی کسی گناہ میں نہ پڑوگے۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ بہرحال اولیاء کا فرض ہے کہ یتیم بچوں اور بچیوں کے مال کی خدا ترسی کے ساتھ حفاظت کریں اور ان کے بالغ ہونے پر جیسے ان کے حق میں بہتر جانیں وہ مال ان کو ادا کردیں۔
واللہ أعلم
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2763
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2494
2494. حضرت عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ کے منطق سوال کیا: ”اور اگر تمھیں اندیشہ ہوکہ تم(یتیم لڑکیوں کے بارے میں) انصاف نہیں کرسکو گے(تو پھر دوسری عورتوں میں سے جو تمھیں پسند آئیں دودو، تین تین) چار چار تک(نکاح کرلو)۔“ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میرے بھانجے!یہ آیت کریمہ اس یتیم بچی کے متعلق نازل ہوئی جو اپنے کسی سرپرست کی کفالت میں ہو اور اس کے مال میں شریک بننے والی ہو، تو وہ سرپرست اس کے مال اور حسن وجمال سے متاثر ہوکر اس سے نکاح کرنا چاہتا ہو مگر اس کے مہر میں انصاف سے کام نہ لے کہ اسے اتنا مہر دے جتنا دوسرے لوگ دیتے ہیں تو ایسے لوگ ان(یتیم بچیوں) سے نکاح کرنے سے روک دیے گئے، البتہ اگر وہ ان سے انصاف کریں اوردستور کے مطابق ان تک پورا حق مہر پہنچائیں تو ان سے نکاح کیاجاسکتا ہے بصورت دیگر انھیں حکم ہوا کہ تم، ان کےعلاوہ، ان عورتوں سے نکاح کرو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2494]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں مذکور دو آیات میں دو قسم کی عورتوں کا بیان ہے:
٭ وہ یتیم بچی جس کے حسن و جمال اور مال و دولت کی وجہ سے سرپرست نکاح کی خواہش مند ہے۔
٭ حسن و جمال اور مال و دولت کی کمی کی وجہ سے سرپرست کی نکاح میں کوئی رغبت نہیں۔
مطلب یہ ہے کہ وہ یتیم بچی جس کے پاس مال و دولت اور حسن و جمال نہیں اسے تم چھوڑ دیتے ہو اور نکاح کے لیے دوسری عورتیں تلاش کرتے ہو، اس اعتبار سے تمہیں اس صورت میں بھی انہیں چھوڑ دینا چاہیے جب ان کے مال اور جمال میں رغبت کی وجہ سے تم نکاح تو کرنا چاہتے ہو لیکن دستور کے مطابق حق مہر نہیں ادا کرنا چاہتے۔
ہاں اگر ان کے حقوق کی ادائیگی کی جائے اور حق مہر بھی پورا دینے کا ارادہ ہو تو اس صورت میں تمہیں ان سے نکاح کا حق پہنچتا ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ یتیم کے مال میں شراکت کے متعلق وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ یتیم کے مال میں شراکت صرف اس صورت میں جائز ہے کہ یتیم کی اس میں بھلائی پیش نظر ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ ۖ قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ ۖ وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ﴾ ”اور لوگ آپ سے یتیموں کے متعلق سوال کرتے ہیں۔
ان سے کہہ دیں کہ ان کی اصلاح اور فلاح و بہبود ہی میں بھلائی ہے اور اگر انہیں اپنے ساتھ رکھ لو تو وہ تمہارے ہی بھائی ہیں اور اللہ تعالیٰ اصلاح کرنے والے اور بگاڑ کرنے والے کو خوب جانتا ہے۔
“ (البقرة: 220: 2)
الغرض یتیموں کے تمام معاملات میں عدل و انصاف کا برتاؤ ہونا چاہیے، شراکت میں بھی اس پہلو کو مدنظر رکھنا ہو گا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2494
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2763
2763. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے اس آیت کریمہ کے متعلق سوا ل کیا: ”اوراگر تمھیں خطرہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے متعلق تم انصاف نہیں کرسکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے نکاح کرلو جو تمھیں پسند ہوں۔“ حضرت عائشہ ؓ نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: یتیم لڑکی اپنے سرپرست کی پرورش میں ہوتی تھی اور وہ اس کے حسن وجمال اور مال ومتاع میں رغبت کرتا لیکن وہ چاہتا کہ اس کے خاندان کی عورتوں کے مہر سے کم مہر کے عوض اس سے نکاح کرلے، اس لیے انھیں ایسی عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے سے روک دیا گیا مگر اس صورت میں کہ ان کے حق مہر کی پوری ادائیگی کریں۔ اورانھیں حکم دیا گیا کہ ان کے علاوہ دوسری عورتوں سے نکاح کرلیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: پھر لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بعد فتویٰ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”یہ لوگ آپ سےعورتوں کےمتعلق فتویٰ پوچھتے ہیں تو آپ فرمادیں کہ اللہ تمھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2763]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طرح ہے کہ اوقاف کی حفاظت اس شخص کے ذمے ہے جو ان کا متولی ہو جس طرح یتیموں کے مال کی نگہداشت ان کے سرپرستوں کے ذمے ہے تاکہ وہ ان کے اموال کی حفاظت اور خیال کریں۔
(2)
مذکورہ آیات و حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس یتیم لڑکی ہو اور وہ اسے مہر مثل ادا نہ کر سکتا ہو تو وہ نکاح کے لیے دوسری عورتوں کی طرف رجوع کرے کیونکہ یتیم لڑکی کے علاوہ اور عورتیں بکثرت ہیں۔
اور اگر ضرور یتیم لڑکی سے نکاح کرنا ہے تو اس کا حق مہر پورا ادا کیا جائے جو اس کی ہم عصر عورتوں کا ہے، اس میں کسی قسم کی کمی نہ کی جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2763
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4600
4600. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے درج ذیل آیت: ﴿وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ ۖ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ۔۔۔ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ﴾ کی تفسیر میں فرمایا: کسی آدمی کے پاس کوئی یتیم بچی ہوتی، وہ اس کا متولی بھی ہوتا اور وارث بھی۔ وہ لڑکی اس کو اپنے مال حتی کہ کھجور کے درخت میں بھی شریک کر لیتی۔ وہ مال کی وجہ سے اس کے ساتھ نکاح کرنے میں رغبت رکھتا اور کسی دوسرے سے اس کے نکاح کو ناپسند کرتا، مبادا وہ یتیم لڑکی کے شریک ہونے کے باعث اس کے مال میں شریک ہو جائے گا، اس لیے وہ اس لڑکی کو کسی دوسرے سے نکاح کرنے میں رکاوٹ کھڑی کر دیتا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4600]
حدیث حاشیہ:
1۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ابن ابی حاتم کے حوالے سے اس آیت کا شان نزول ذکر کیا ہے کہ حضرت جابر ؓ کی چچا زاد بدصورت تھی اور وہ اپنے والد کی میراث پانے کی وجہ سے مال دار بھی تھی۔
حضرت جابر ؓ کے ہاں وہ زیر کفالت بھی تھی۔
بد صورت ہونے کی وجہ سے حضرت جابر ؓ اس سے نکاح کرنے میں کوئی رغبت نہیں ر کھتے تھے لیکن کسی سے نکاح کردینے میں بھی رضا مند نہ تھے کیونکہ اس طرح اس کا مال اس کے شوہر کو مل جاتا۔
اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔
(الأنفال: 60/8)
2۔
عربی زبان میں "رغب" کا لفظ صلہ کے اعتبار سے دو معنوں میں استعمال ہوتاہے:
اگر اس کے بعد في ہو تو اس کے معنی ہیں:
رغبت کرنا اور شوق رکھنا اور اگر اس کے بعد عن آ جائے تو یہ رو گردانی اورنفرت کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
آیت کریمہ میں دونوں معنوں کے گنجائش کے پیش نظر اس کاصلہ حذف کر دیا گیا ہے۔
اس میں رغبت کرنا اور نفرت کرنا دونوں معنی مقصود ہیں کیونکہ دورجاہلیت میں یتیم لڑکیوں کے ساتھ دوقسم کا ظلم روا رکھا جاتا تھا:
اگر وہ مال دار صاحب جمال ہوتی تو خود سرپرست اس کے ساتھ نکاح کرنے میں رغبت رکھتا اورنکاح کرلیتا لیکن یتیم ہونے کی وجہ سے حق مہر دینے میں بخل اور بے انصافی کی جاتی اور گروہ مال دار ہونے کے ساتھ ساتھ بدصورت ہوتی تو اس کے ساتھ نکاح کرنے سے نفرت کی جاتی اورآگے اس کا نکاح کردینے میں بھی کوئی دلچسپی نہ رکھی جاتی تاکہ اس کا مال ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
اس آیت کریمہ سے دونوں قسم کے ظلم وستم کا سد باب کیا گیا ہے اورقرآن کریم کا یہ اعجاز ہے کہ اس میں نفرت اور دلچسپی دونوں معنوں کی گنجائش رکھی گئی ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4600
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5140
5140. سیدنا عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے پوچھا اور عرض کی: اے اماں جان! اس آیت کریمہ کی تفسیر کیا ہے: ”اور تمہں یہ خطرہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے جو تمہیں پسند آئیں نکاح کرلو۔۔۔“ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: اے میرے بھانجے! یہ وہ یتیم لڑکی ہے جو اپنے سر پرست کی کفالت میں ہوتی وہ اس کی مالداری اور خوبصورتی میں دلچسپی رکھتا۔ (اور اپنے ساتھ نکاح کرلیتا) لیکن اس کے حق مہر میں کمی کر دیتا، اس لیے یتیم بچیوں سے انہیں نکاح کرنے سے روک دیا گیا مگر یہ کہ انہیں پورا پورا حق مہر دیں، نیز بصورت دیگر انہیں نکاح کرنے سے حکم دیا گیا۔ سیدہ عائشہ ؓ نے سلسلہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے) فرمایا: اس کے بعد لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو اللہ تعالٰی نے ان کے لیے یہ آیت نازل فرمائی: ”لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5140]
حدیث حاشیہ:
یتیم لڑکیوں کے سرپرست ان سے نکاح کرنے کے سلسلے میں کئی طرح کی بے انصافیوں کا ارتکاب کرتے تھے جس کا اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء، آیت: 3 میں نوٹس لیا، پھر ان بے انصافیوں سے بچنے کے لیے ایسی یتیم لڑکیوں کے سرپرستوں نے یہ محتاط رویہ اختیار کیا کہ ان سے نکاح کرنا ہی چھوڑ دیا لیکن یہ رویہ بھی کئی طرح سے نقصان دہ ثابت ہوا کیونکہ جس قدر اخوت اور بہتر سلوک انھیں سرپرستوں سے نکاح کرنے میں میسر آسکتا تھا غیروں کے ساتھ نکاح کرنے میں وہ میسر آہی نہ سکتا تھا، بعض دفعہ ان کی زندگی انتہائی تلخ ہو جاتی، اس آخری آیت کے ذریعے سے سرپرستوں کو ان کے زیر کفالت یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی گئی مگر اس شرط کے ساتھ کہ ان کے حق مہر میں کمی نہ کی جائے اور ان سے طے کردہ معاملات بھی ضرور پورے کیے جائیں، پھر دوسرے حقوق جو وراثت وغیرہ سے متعلق ہیں انھیں بھی ضرور پورا کیا جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5140
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6965
6965. حضرت عروہ سے روایت ہے انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے درج زیل آیت کی تفسیر کے متعلق پوچھا: ”اور اگر تمہیں اندیشہ ہوکہ تم یتیم بچیوں کے متعلق انصاف نہ کر سکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے نکاح کر لو جو تمہیں پسند ہوں“ سیدہ عائشہ ؓ نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اس سے مراد ایسی یتیم بچی ہے جو اپنے سر پرست کی کفالت میں ہو وہ اس کے مال ومتاع اور حسن وجمال کی وجہ سے اس میں شوق رکھتا ہو۔ پھر دوسری عورتوں کے معروف مہر سے کم حق مہر دے کر اس سے نکاح کرے۔ ایسے سرپرستوں کو ان لڑکیوں سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ہاں اگر وہ (سرپرست) پورا حق مہر دے کر انصاف کرے تو جائز ہے۔ اس کے بعد لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے درج زیل آیت نازل فرمائی: ”اور لوگ آپ سے عورتوں کے متعلق فتویٰ پوچھتے ہیں۔“ پھر انہوں نے بقیہ حدیث ذکر فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6965]
حدیث حاشیہ:
1۔
اگر یتیم بچی بدصورت اور مال ودولت کے اعتبار سے غریب ہوتی تو سرپرست حضرات کو اس سے کوئی دلچپسی نہ ہوتی۔
اور اگرمال دار خوبصورت ہوتی تو حیلہ سازی کرکے اس سے خود نکاح کر لیتے۔
ان کے متعلق حیلہ سازی یہ ہوتی تھی کہ انھیں معمولی حق مہر دیا جاتا۔
اللہ تعالیٰ نے اس دوہرے کردار کا اس آیت کریمہ میں نوٹس لیا ہے۔
ہاں، اگرحیلہ سازی سے بچتے ہوئے اسے پورا پورا حق مہر دیں اور عدل وانصاف سے کام لیں توایسی یتیم بچیوں سے نکاح کی اجازت ہے۔
2۔
اہل ظاہر کا موقف ہے کہ اگر کوئی سرپرست اس طرح ظالمانہ طریقے سے نکاح کر لیتا ہے تو وہ صحیح نہیں ہوگا مگر جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ نکاح صحیح ہے مگر سرپرست کے لیے ضروری ہے کہ وہ یتیم بچی کو مہرمثل ادا کرے۔
بہرحال اس قسم کی حیلہ سازی کی ممانعت ہے۔
اس سے ایک مسلمان کو ہرحال میں بچنا چاہیے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6965