ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے یزید بن حبیب نے، ان سے عراک بن مالک نے اور ان سے عروہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے لیے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میں آپ کا بھائی ہوں۔ (تو عائشہ سے کیسے نکاح کریں گے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے دین اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کے رشتہ سے تم میرے بھائی ہو اور عائشہ میرے لیے حلال ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 5081]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5081
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کم عمر عورت سے بڑی عمر کے مرد کی شادی جائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5081
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5081
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سامنے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے نکاح کرنے کی خواہش کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا: وہ تو آپ کی بھتیجی ہے اور بھتیجی سے نکاح درست نہیں۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ تم میرے دینی اور اسلامی بھائی ہو اور اسلامی اخوت، نکاح میں رکاوٹ نہیں بنتی، البتہ حقیقی بھتیجی سے نکاح حرام ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ کم عمر لڑکی کا بڑی عمر کے مرد سے نکاح جائز ہے، شرعاً اس میں کوئی ممانعت نہیں۔ ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہما کو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کہ وہ ان کے پاس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے نکاح کا ذکر کریں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ تو ان کی بھتیجی ہے۔ اس سے نکاح کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟ حضرت خولہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا کلام ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”انھیں کہو کہ تم میرے دینی بھائی ہو، اس لیے تمہاری بیٹی میرے لیے حلال ہے۔ “ حضرت خولہ رضی اللہ عنہما حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ذکر کی تو انھوں نے کہا: جاؤ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لاؤ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کا نکاح ان سے کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خولہ رضی اللہ عنہما کے کلام کو اپنا کلام قرار دیا کیونکہ وہ آپ کی طرف سے وکیل تھیں۔ (مسند أحمد: 211/6، والسنن الكبريٰ للبيهقي: 7/129، و فتح الباري: 156/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5081
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5158
5158. سیدنا عروہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا جبکہ وہ چھ برس کی تھیں اور آپ نے ان سے خلوت فرمائی جبکہ وہ نوبرس کی تھیں اور آپ ﷺ کے ساتھ نو برس تھ رہیں [صحيح بخاري، حديث نمبر:5158]
حدیث حاشیہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اٹھارہ سال کی تھی۔ عرب جیسے گرم ملک میں عورتیں عموماً نو سال کی عمر میں بالغ ہو جایا کرتی تھیں۔ ابتدائے بلوغ کا تعلق موسم اور آب و ہوا کے ساتھ بھی بہت حد تک ہے۔ بہت زیادہ گرم خطوں میں عورتیں اور مرد جلد بالغ ہو جاتے ہیں، اس کے برعکس بہت زیادہ سرد خطوں میں اوسطاً اٹھارہ بیس سال میں ہوتا ہے لہٰذا یہ کوئی بعید از عقل نہیں ہے۔ اس بارے میں بعض علماء نے بہت سے تکلّفات کئے ہیں مگر ظاہر حقیقت یہی ہے جو روایت میں مذکور ہے تکلف کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ عرب میں نو سال کی لڑکیوں کا بالغ ہو جانا بعید از عقل بات نہیں تھی اس کے مطابق ہی یہاں ہوا۔ واللہ أعلم با لصواب۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5158
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3896
3896. حضرت عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سیدہ خدیجہ ؓ نے نبی ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لے جانے سے تین برس قبل وفات پائی۔ پھر آپ ﷺ دو سال یا اس کے لگ بھگ ٹھہرے (اور آپ نے کسی خاتون سے شادی نہیں کی۔ بعد ازاں) آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے نکاح کیا جبکہ ان کی عمر چھ برس تھی، پھر ان کی رخصتی کی گئی جبکہ وہ نو برس کی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3896]
حدیث حاشیہ: اس حدیث کے متعلق ایک مشہور اشکال ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ ہجرت سے تین برس پہلے فوت ہوئیں۔ اگران کی وفات کے تین سال بعد نکاح کیا ہو تو وہ ہجرت کے وقت یا اس کے بعد ہوا ہوگا، حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ دراصل اس حدیث میں وفات خدیجہ ؓ اور نکاح عائشہ ؓ کا بیان ہے، یعنی حضرت خدیجہ ؓ کی وفات ہجرت سے تین سال پہلے ہے۔ ان کی وفات کے بعد آپ مکہ معظمہ میں دوسال یا اس سے زیادہ عرصہ ٹھہرے۔ نکاح عائشہ ؓ اور ان کی رخصتی ایک مستقل امر ہے جس کا کلام سابق سے کوئی تعلق نہیں کہ ان سے نکاح ہوا تو وہ چھ سال کی تھیں، پھرہجرت کے پہلے سال ان کی رخصتی عمل میں آئی تو وہ نوبرس کی تھیں، چنانچہ اس کی تائید علامہ اسماعیلی کی روایت سے ہوتی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ہجرت سے تین سال قبل حضرت خدیجہ ؓ کی وفات ہوئی۔ ان کی وفات کے بعد حضرت عائشہ ؓ سے نکاح ہوا جبکہ وہ چھ برس کی تھیں اور مدینہ طیبہ آنے کے بعد ان کی رخصتی ہوئی جبکہ وہ نوبرس کی تھیں۔ (فتح الباري: 281/7) حضرت خدیجہ ؓ کے سالِ وفات اور اس بنا پر حضرت عائشہ ؓ کے نکاح کی تاریخ میں جو بھی اختلاف ہومگر اس امر پر کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نکاح کے وقت چھ برس کی اور رخصتی کے وقت نوبرس کی تھیں۔ یہی روایت حدیث کی تمام کتابوں میں ہے۔ یہ واقعہ خود حضرت عائشہ ؓ خود بیان کرتی ہیں اور ان سے سن کر حضرت عروہ بیان کرتے ہیں۔ حضرت عروہ کون ہیں؟ حضرت اسماء ؓ کے صاحبزادے جن کے سال وعمر سے حضرت عائشہ کے سال نکاح کا تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، حالانکہ خود حضرت عائشہ ؓ کےلیے نوسال کی عمر میں رخصتی ہونا اتنایقینی امر ہے کہ نوبرس کی عمر کو ایک عرب لڑکی کے بلوغ کا زمانہ متعین کرتی ہیں ان کافرمان ہے کہ جب لڑکی نوبرس کی ہوجائے تو وہ عورت ہے۔ (جامع الترمذي، النکاح، حدیث: 1109) عقلی طور پر یہ بات بعید از امکان نہیں کہ نوبرس کی لڑکی بالغ ہوسکتی ہے، چنانچہ امام شافعی ؒ کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ انھوں نے اکیس سال کی ایک نانی دیکھی تھی جسے نو سال کی عمر میں حیض آیا اور دس سال کی عمر میں اس نے ایک بیٹی کو جنم دیا۔ اس کی بیٹی کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ (فتح الباري: 341/5۔ ) لڑکوں کے متعلق بھی یہی معاملہ ممکن ہے، چنانچہ مغیرہ بن مقسم ضمی کوفی کہتے ہیں کہ میں بارہ سال کی عمر میں بالغ ہوگیا تھا۔ (صحیح البخاري، الشھادات، باب: 18، قبل حدیث: 2664۔ ) اس طرح حضرت عمروبن عاص ؓ اور ان کے بیٹے عبداللہ بن عمرو ؓ کی عمر میں صرف بارہ سال کا فرق تھا، یعنی باپ بیتے کی عمر میں صرف بارہ سال کافرق تھا۔ (فتح الباري: 341/5۔ ) آخر میں ہمارا دعویٰ ہے کہ انتہائی معتبر، مستند اور متفقہ روایات کے مطابق چھ سال کی عمر میں حضرت عائشہ ؓ کا نکاح ہوا اور نوبرس کی عمر میں ان کی رخصتی ہوئی، نیز تمام واقعات اور سالوں کی تطبیق کے مطابق نبوت کے پانچویں سال کے آخر میں پیدا ہوئیں۔ شوال 11 نبوی میں نکاح ہوا اور شول 1ہجری میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئیں، پھر اٹھارہ سال کی عمر میں بیوگی سے دوچار ہوئیں۔ ۔ ۔ رضي اللہ عنھا وعن سائر المسلمین۔ ۔ ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3896
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5158
5158. سیدنا عروہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا جبکہ وہ چھ برس کی تھیں اور آپ نے ان سے خلوت فرمائی جبکہ وہ نوبرس کی تھیں اور آپ ﷺ کے ساتھ نو برس تھ رہیں [صحيح بخاري، حديث نمبر:5158]
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کی عمر اٹھارہ برس تھی۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رخصتی کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کی عمر نوبرس تھی اور آپ بالغ ہو چکی تھیں۔ دراصل بلوغ کا تعلق موسم اور آب و ہوا کے ساتھ بہت گہرا ہے۔ گرم خطوں میں بلوغ جلدی آ جاتا ہے جبکہ سرد علاقوں میں اس میں دیر ہو جاتی ہے۔ پھر انسانی صحت کا بھی اس میں بہت عمل دخل ہے۔ کمزور اور نحیف عورت جلدی بالغ ہو جاتی ہے جبکہ صحت مند عورتوں کو دیر سے بلوغ آتا ہے۔ بعض اہل علم نے اس مقام پر بہت تکلفات سے کام لیا ہے، حالانکہ عرب جیسے علاقوں میں نو برس کی عمر میں لڑکی کا بالغ ہونا بعید از عقل بات نہیں۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ برصغیر کے علاقے میں بھی نو برس میں کچھ بچیاں بالغ ہو جاتی ہیں۔ والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5158