مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1
´تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے`
«. . . يَقُولُ: إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ . . .»
”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترک وطن) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ: 1]
تشریح:
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع صحیح کے افتتاح کے لیے یا تو صرف «بسم الله الرحمن الرحيم» ہی کو کافی سمجھا کہ اس میں بھی اللہ کی حمد کامل طور پر موجود ہے یا آپ نے حمد کا تلفظ زبان سے ادا فرما لیا کہ اس کے لیے لکھنا ہی ضروری نہیں۔ یا پھر آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی کو ملحوظِ خاطر رکھا ہو کہ تحریرات نبوی کی ابتدا صرف «بسم الله الرحمن الرحيم» ہی سے ہوا کرتی تھی جیسا کہ کتب تواریخ و سیر سے ظاہر ہے۔ حضرت الامام قدس سرہ نے پہلے ”وحی“ کا ذکر مناسب سمجھا اس لیے کہ قرآن وسنت کی اولین بنیاد ”وحی“ ہے۔ اسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت موقوف ہے۔
وحی کی تعریف علامہ قسطلانی شارح بخاری کے لفظوں میں یہ ہے «والوحي الاعلام فى خفاءوفي اصطلاح الشرع اعلام الله تعالىٰ انبياءه الشي امابكتاب او برسالة ملك او منام اوالهام» [ارشاد الساری 48/1] یعنی وحی لغت میں اس کو کہتے ہیں کہ مخفی طور پر کوئی چیز علم میں آ جائے اور شرعاً وحی یہ ہے کہ اللہ پاک اپنے نبیوں رسولوں کو براہِ راست کسی مخفی چیز پر آگاہ فرما دے۔ اس کی بھی مختلف صورتیں ہیں، یا تو ان پر کوئی کتاب نازل فرمائے یا کسی فرشتے کو بھیج کر اس کے ذریعہ سے خبر دے یا خواب میں آگاہ فرما دے، یادل میں ڈال دے۔ وحی محمدی کی صداقت کے لیے حضرت امام نے آیت کریمہ «انآاوحينآ اليك كما اوحينا الي نوح» [النساء: 163] درج فرما کر بہت سے لطیف اشارات فرمائے ہیں، جن کی تفصیل طوالت کا باعث ہے۔ مختصر یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ عالیہ حضرت آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ وجملہ انبیاء ورسل علیہم السلام سے مربوط ہے اور اس سلسلے کی آخری کڑی حضرت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس طرح آپ کی تصدیق جملہ انبیاء و رسل علیہم السلام کی تصدیق ہے اور آپ کی تکذیب جملہ انبیاء و رسل علیہم السلام کی تکذیب ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں «ومناسبة الآية للترجمة واضح من جهة ان صفة الوحي الٰي نبينا صلى الله عليه وسلم توافق صفة الوحي الٰي من تقدمه من النبيين» [فتح الباری9/1] یعنی باب بدء الوحی کے انعقاد اور آیت «انااوحينا اليك» الآیۃ میں مناسبت اس طور پر واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول قطعی طور پر اسی طرح ہے جس طرح آپ سے قبل تمام نبیوں رسولوں پر وحی کا نزول ہوتا رہا ہے۔
ذکر وحی کے بعد حضرت الامام نے الحدیث «انما الاعمال بالنيات» کو نقل فرمایا، اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ ان میں سے ایک وجہ یہ ظاہر کرنا بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خزانہ وحی سے جو کچھ بھی دولت نصیب ہوئی یہ سب آپ کی اس پاک نیت کا ثمرہ ہے جو آپ کو ابتداء عمر ہی سے حاصل تھی۔ آپ کا بچپن، جوانی، الغرض قبل نبوت کا سارا عرصہ نہایت پاکیزگی کے ساتھ گزرا۔ آخر میں آپ نے دنیا سے قطعی علیحدگی اختیار فرماکر غار حرا میں خلوت فرمائی۔ آخر آپ کی پاک نیت کا ثمرہ آپ کو حاصل ہوا اور خلعت رسالت سے آپ کو نوازا گیا۔ روایت حدیث کے سلسلہ عالیہ میں حضرت الامام قدس سرہ نے امام حمیدی رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی سند کا افتتاح فرمایا۔ حضرت امام حمیدی رحمہ اللہ علم و فضل، حسب و نسب ہر لحاظ سے اس کے اہل تھے اس لیے کہ ان کی علمی و عملی جلالت شان کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اساتذہ میں سے ہیں، حسب ونسب کے لحاظ سے قریشی ہیں۔ ان کا سلسلہ نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم و حضرت خدیجۃ الکبریٰ ر ضی اللہ عنہا سے جا ملتا ہے ان کی کنیت ابوبکر، نام عبداللہ بن زبیر بن عیسیٰ ہے، ان کے اجداد میں کوئی بزرگ حمید بن اسامہ نامی گزرے ہیں، ان کی نسبت سے یہ حمیدی مشہور ہوئے۔ اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حمیدی سے جو کہ مکی ہیں، لا کر یہ اشارہ فرما رہے ہیں کہ وحی کی ابتدا مکہ سے ہوئی تھی۔
حدیث «انماالاعمال بالنيات» کی بابت علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وهذاالحديث احد الاحاديث التى عليها مدار الاسلام و قال الشافعي واحمد انه يدخل فيه ثلث العلم» [ارشاد الساري 56,57/1] یعنی یہ حدیث ان احادیث میں سے ایک ہے جن پر اسلام کا دارومدار ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور احمد رحمہ اللہ جیسے اکابر امت نے صرف اس ایک حدیث کو علم دین کا تہائی یا نصف حصہ قرار دیا ہے۔ اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور بھی تقریباً بیس اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرمایا ہے۔ بعض علماءنے اسے حدیث متواتر بھی قرار دیا ہے۔ اس کے راویوں میں سعد بن ابی وقاص، علی بن ابی طالب، ابوسعیدخدری، عبداللہ بن مسعود، انس، عبداللہ بن عباس، ابوہریرہ، جابر بن عبداللہ، معاویہ بن ابی سفیان، عبادۃ بن صامت عتبہ بن عبدالسلمی، ہلال بن سوید، عقبہ بن عامر، ابوذر عقبہ بن المنذر عقبہ بن مسلم اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسمائے گرامی نقل کئے گئے ہیں۔ (قسطلانی رحمہ اللہ)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی جامع صحیح کو اس حدیث سے اس لیے شروع فرمایا کہ ہر نیک کام کی تکمیل کے لیے خلوص نیت ضروری ہے۔ احادیث نبوی کا جمع کرنا، ان کا لکھنا، ان کا پڑھنا، یہ بھی ایک نیک ترین عمل ہے، پس اس فن شریف کے حاصل کرنے والوں کے لیے آداب شرعیہ میں سے یہ ضروری ہے کہ اس علم شریف کو خالص دل کے ساتھ محض رضائے الٰہی و معلومات سنن رسالت پناہی کے لیے حاصل کریں، کوئی غرض فاسد ہرگز درمیان میں نہ ہو۔ ورنہ یہ نیک عمل بھی اجر و ثواب کے لحاظ سے ان کے لیے مفید عمل نہ ہو سکے گا۔ جیسا کہ اس حدیث کے شان و رود سے ظاہر ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت ام قیس نامی کو نکاح کا پیغام دیا تھا، اس نے جواب میں خبر دی کہ آپ ہجرت کر کے مدینہ آ جائیں تو شادی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ وہ شخص اسی غرض سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچا اور اس کی شادی ہو گئی۔ دوسرے صحابہ کرام اس کو مہاجر ام قیس کہا کرتے تھے۔ اسی واقعہ سے متاثر ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی۔
حضرت امام قسطلانی فرماتے ہیں۔ «واخرجه المولف فى الايمان والعتق والهجرة والنكاح والايمان والنذور وترك الحيل ومسلم والترمذي والنسائي وابن ماجة واحمد والدارقطني وابن حبان والبيهقي» یعنی امام بخاری رحمہ اللہ اپنی جامع صحیح میں اس حدیث کو یہاں کے علاوہ کتاب الایمان میں بھی لائے ہیں اور وہاں آپ نے یہ باب منعقد فرمایا ہے «باب ماجاءان الاعمال بالنية والحسبة ولكل امرءما نوي» یہاں آپ نے اس حدیث سے استدلال فرمایا ہے کہ وضو، زکوۃ، حج روزہ جملہ اعمال خیر کا اجر اسی صورت میں حاصل ہو گا کہ خلوص نیت سے بغرض طلب ثواب ان کو کیا جائے۔ یہاں آپ نے استشہاد مزید کے لیے قرآنی آیت کریمہ «قل كل يعمل على شاكلته» کو نقل کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ «شاكلته» سے نیت ہی مراد ہے۔ مثلاً کوئی شخص اپنے اہل و عیال پر بہ نیت ثواب خرچ کرتا ہے تو یقینا اسے ثواب حاصل ہو گا۔ تیسرے امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کتاب العتق میں لائے ہیں۔ چوتھے باب الہجرۃ میں پانچویں کتاب النکاح میں چھٹے نذورکے بیان میں۔ ساتویں کتاب الحیل میں۔ ہر جگہ اس حدیث کی نقل سے غرض یہ ہے کہ صحت اعمال و ثواب اعمال سب نیت ہی پر موقوف ہیں اور حدیث ہذا کا مفہوم بطور عموم ہر دو صورتوں کو شامل ہے۔ اس حدیث کے ذیل میں فقہاء شوافع صرف صحت اعمال کی تخصیص کرتے ہیں اور فقہاء احناف صرف ثواب اعمال کی۔ حضرت مولاناانور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو کی تغلیط فرماتے ہوئے امام المحدثین بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہی کے موقف کی تائید کی ہے کہ یہ حدیث ہر دو صورتوں کو شامل ہے۔ دیکھئے: [انوارالباری 16,17/1]
نیت سے دل کا ارادہ مراد ہے۔ جو ہر فعل اختیاری سے پہلے دل میں پیدا ہوتا ہے، نماز، روزہ، وغیرہ کے لیے زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا غلط ہے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر اکابر امت نے تصریح کی ہے کہ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنے کا ثبوت نہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے نہ صحابہ رضی اللہ عنہ و تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے، لہٰذا زبان سے نیت کے الفاظ کا ادا کرنا محض ایجاد بندہ ہے جس کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔
آج کل ایک جماعت منکرین حدیث کی بھی پیدا ہو گئی ہے جو اپنی ہفوات کے سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی بھی استعمال کیا کرتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ روایت حدیث کے خلاف تھے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع صحیح کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے شروع فرمایا ہے۔ جس سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ منکرین حدیث کا حضرت عمررضی اللہ عنہ پر یہ الزام بالکل غلط ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ خود احادیث نبوی کو روایت فرمایا کرتے تھے۔ ہاں صحت کے لیے آپ کی طرف سے احتیاط ضرور مدنظر تھا۔ اور یہ ہر عالم، امام، محدث کے سامنے ہونا ہی چاہئیے۔ منکرین حدیث کو معلوم ہونا چاہئیے کہ سیدنا حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں احادیث نبوی کی نشر و اشاعت کا غیر معمولی اہتمام فرمایا تھا اور دنیائے اسلام کے گوشہ گوشہ میں ایسے جلیل القدر صحابہ کو اس غرض کے لیے روانہ فرمایا تھا، جن کی پختگی سیرت اور بلندی کردار کے علاوہ ان کی جلالت علمی تمام صحابہ میں مسلم تھی۔ جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ازالۃ الخفاءمیں تحریر فرماتے ہیں۔ جس کا ترجمہ یہ ہے:
”فاروق اعظم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ایک جماعت کے ساتھ کوفہ بھیجا۔ اور معقل بن یسار وعبداللہ بن مغفل و عمران بن حصین کو بصرہ میں مقرر فرمایا اور عبادہ بن صامت اور ابودرداءکو شام روانہ فرمایا اور ساتھ ہی وہاں کے عمال کو لکھا کہ ان حضرات کو ترویج احادیث کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ حضرات جو حدیث بیان کریں ان سے ہرگز تجاوز نہ کیا جائے۔ معاویہ بن ابی سفیان جو اس وقت شام کے گورنر تھے ان کو خصوصیت کے ساتھ اس پر توجہ دلائی۔“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ 7 نبوی میں ایمان لائے اور آپ کے مسلمان ہونے پر کعبہ شریف میں مسلمانوں نے نماز باجماعت ادا کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ باطل کے مقابلہ پر حق سر بلند ہوا۔ اسی وجہ سے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاروق کا لقب عطا فرمایا۔ آپ بڑے نیک، عادل اور صائب الرائے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی تعریف میں فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری کر دیا ہے۔ 13 نبوی میں آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد خلافت اسلامیہ کو سنبھالا اور آپ کے دور میں فتوحات اسلامی کا سیلاب دور دور تک پہنچ گیا تھا۔ آپ ایسے مفکر اور ماہر سیاست تھے کہ آپ کا دور اسلامی حکومت کا زریں دور کہا جاتا ہے۔ مغیرہ بن شعبہ کے ایک پارسی غلام فیروز نامی نے آپ کے دربار میں اپنے آقا کی ایک غلط شکایت پیش کی تھی۔ چنانچہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس پر توجہ نہ دی۔ مگر وہ پارسی غلام ایسا برافروختہ ہوا کہ صبح کی نماز میں خنجر چھپا کر لے گیا اور نماز کی حالت میں آپ پر اس ظالم نے حملہ کر دیا۔ اس کے تین دن بعد یکم محرم 24 ھ کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے مخلص رفیق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں قیامت تک کے لیے سو گئے۔ «انا لله وانااليه راجعون۔ اللهم اغفرلهم اجمعين۔ آمين۔»
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6689
6689. حضرت عمر بن خطاب ؓ روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئےسنا: ”اعمال کا دارمدار نیت پر ہے۔ ہر انسان کو وہی حاصل ہوگا جو اس نے نیت کی۔ جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوگی اس کی ہجرت واقعی اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا کمانے کے لیے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے ہوگی تو اس کی ہجرت اسی لیے ہوگی جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6689]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری کا منشا یہ ثابت کرنا ہےکہ قسم کھانے پر اس کی پختگی یا برعکس کا فیصلہ کرنا خود قسم کھانے والے کی سوچ پر موقوف ہے اس کی جیسی نیت ہوگی وہی حکم لگایا جائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6689
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6953
6953. حضرت علقمہ بن وقاص سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں حضرت عمر ؓ کو دوران خطبہ میں کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اے لوگو! اعمال کا دار مدار نیتوں پر ہے۔ ہر آدمی کو وہی کچھ ملے گا جس کی وہ نیت کرے گا، لہذا جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے تو یقیناً اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا کمانے اور کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے ہے تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6953]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری نے حیلوں کے عدم جواز پر دلیل لی ہے کیوں کہ حیلہ کرنے والوں کی نیت دوسری ہوتی ہے اس لیے حیلہ ان کے لیے کچھ مفید نہیں ہو سکتا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6953
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2529
2529. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اعمال کا اعتبار نیت کے لحاظ سے ہے۔ جس کی ہجرت (نیت کے اعتبار سے) اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ہے تو اس کی ہجرت(ثواب کے اعتبارسے) اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ہی ہوگی۔ اور جس کی ہجرت دنیا کمانے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے ہے تواس کی ہجرت اسی کام کے لیے ہوگی جس کی طرف اس نے ہجرت کی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2529]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی شرح اوپر گزرچکی ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ نکالا ہے کہ جب ہر کام کے درست ہونے کے لیے نیت شرط ہوئی تو اگر کسی شخص کی طلاق کی نیت نہ تھی لیکن بے اختیار کہنا کچھ چاہتا تھا زبان سے یہ نکل گیا انت طالق طلاق نہ پڑے گی۔
(وحیدی)
مترجم کہتا ہے کہ یہ دل کی بات اور نیت کا معاملہ ہے۔
صاحب معاملہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بارے میں خود اپنے دل سے فیصلہ کرے اور خدا کو حاضر و ناظر جان کر کرے اور پھر خود ہی اپنے بارے میں فتویٰ لے کہ وہ ایسی مطلقہ کو واپس لاسکتا ہے یا نہیں۔
جو لوگ بحالت ہوش و حواس اپنی عورتوں کو صاف طور پر طلاق دیتے ہیں، بعد میں حیلے بہانے کرکے واپس لانا چاہتے ہیں۔
ان کو جان لینا چاہئے کہ حلال ہونے کے باوجود طلاق عنداللہ نہایت ہی مبغوض ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2529
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3898
3898. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اعمال، نیت پر موقوف ہیں۔ جس نے دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہے جس طرف اس نے ہجرت کی۔ اور جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی، اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ہی سمجھی جائے گی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3898]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں ہجرت کا ذکر ہے اسی لئے یہاں لائی گئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3898
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6953
´حیلے چھوڑنے کا بیان`
«. . . عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَخْطُبُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ، وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ هَاجَرَ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ . . .»
”. . . علقمہ بن وقاص لیثی نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے خطبہ میں سنا انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: اے لوگو! اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی وہ نیت کرے گا پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو اسے ہجرت (کا ثواب ملے گا) اور جس کی ہجرت کا مقصد دنیا ہو گی کہ جسے وہ حاصل کر لے یا کوئی عورت ہو گی جس سے وہ شادی کر لے تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہو گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحِيَلِ: 6953]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6953 کا باب: «بَابٌ في تَرْكِ الْحِيَلِ وَأَنَّ لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى فِي الأَيْمَانِ وَغَيْرِهَا:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت سے قبل ”حیلہ“ کے بارے میں ضروری وضاحت کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے، جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کتاب الحیل کی ابتداء میں ذکر فرمائی ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کتاب الحیل کا تعارف کرواتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«جمع حيلة و هي ما يتوصل به إلى مقصود بطريق خفي وهي عند العلماء على أقسام بحسب الحامل عليها، فان توصل بها بطريق مباح إلى إبطال حق أو إثبات باطل فهي حرام، أو إلى إثبات حق أو دفع باطل فهي واجبة أو مستحبة، و ان توصل بها بطريق مباح إلى سلامة من وقوع فى مكره فيه مستحبة أو مباحة، أو إلى ترك مندوب فهي مكروهة.» [فتح الباري لابن حجر: 780/13]
”حیلہ کہتے ہیں ایک پوشیدہ تدبیر سے اپنا مقصود حاصل کرنے کو، اور یہ علماء کے نزدیک بحسب حامل اقسام پر ہے، پس اگر حیلہ کر کے حق کا ابطال یا باطل کا اثبات کیا جائے تب تو یہ حیلہ حرام ہو گا، اور اگر حق کا اثبات اور باطل کا ابطال کیا جائے تو وہ واجب یا مستحب ہو گا، اور اگر کسی آفت سے بچنے کے لیے کیا جائے تو مباح ہو گا، اگر ترک مستحب کے لیے کیا جائے تو مکروہ ہو گا، اب علماء میں اختلاف ہے کہ پہلی قسم کا حیلہ کرنا صحیح ہے یا غیر صحیح، اور نافذ ہے یا غیر نافذ، اور ایسا حیلہ کرنے سے آدمی گناہ گار ہو گا یا نہیں؟“
اس مختصر سی تعریف کو سمجھیں اور اب دیکھیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ «باب فى ترك الحيل» میں کون سا مسئلہ سمجھانا چاہتے ہیں اور ترجمۃ الباب اور حدیث میں کیا مناسبت ہو گی۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے «إنما الأعمال بالنية» والی حدیث کو پیش کر کے حیلوں کے عدم جواز پر دلیل کو اخذ فرمایا ہے، کیوں کہ حیلہ کرنے والے حضرات ظاہر میں کسی اور چیز کو واضح کرتے ہیں جبکہ نیت ظاہری عمل کے مخالف ہوتی ہے، اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث پیش فرمائی تاکہ عدم جواز کی دلیل کو اخذ کیا جائے۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وجه مطابقة الحديث للترجمة التى هي ترك الحيل: أن مهاجر أم قيس جعل الهجرة حيلة فى تزوج أمّ قيس.» [ارشاد الساري: 316/11]
”یعنی ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت اس جہت سے ہے کہ اس میں ترک حیلہ کا جواز ہے، کیونکہ مہاجر ام قیس نے جو ہجرت کی تھی وہ ام قیس سے نکاح کے لیے تھی۔“
امام قسطلانی رحمہ اللہ کے مطابق مہاجر ام قیس نے جب ہجرت کی تو آپ نے وہاں پر حیلہ کو اختیار فرمایا تاکہ ام قیس سے آپ کا نکاح ہو جائے۔
دراصل امام بخاری رحمہ اللہ اس مقام پر عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات پر بھی قیاس فرما رہے ہیں کہ جس طرح عبادات میں مطلق حیلہ جائز نہیں بعین اسی طرح سے معاملات میں بھی جائز نہیں ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ کہنا «وان لكل امرىءٍ ما نوى فى الإيمان و غيرها»
اس میں «في الإيمان و غيرها» امام بخاری رحمہ اللہ کا تفقہ ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
”یہ الفاظ امام بخاری رحمہ اللہ کے تفقہ میں سے ہے، حدیث کے الفاظ نہیں ہیں۔“
اس مناسبت کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اتسع البخاري فى الاستنباط، و المشهور عند النظار حمل الحديث على العبادات، وحمله البخاري عليها وعلى المعاملات.» [فتح الباري لابن حجر: 386/13]
”یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے استنباط میں توسیع پیدا فرمائی ہے، جبکہ دیکھنے والے کے ہاں مشہور اس حدیث کا حمل عبادات پر ہے، مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے ساتھ معاملات پر بھی اسے محمول فرمایا ہے۔“
امام بخاری رحمہ اللہ کی عادات میں یہ امر شامل ہے کہ آپ حدیث کے کسی ٹکڑے سے بہت دور کے مسائل کو بھی حل فرماتے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی عادات کو تفصیلی جاننے کے لیے علامہ عبدالحق بن عبدالواحد الہاشمی المکی رحمہ اللہ کی کتاب «عادات الامام البخاري فى صحيحه» کا مطالعہ مفید رہے گا، یا پھر امام بخاری رحمہ اللہ کے ابواب کے مقاصد اور انواع کی تفصیلی بحث اور معلومات کے لیے راقم کی کتاب «تحفة القاري فى أنواع التراجم للبخاري» کا مطالعہ مفید رہے گا۔ ان شاء اللہ
ان گفتگو کا خلاصہ یہ ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑے دقیق انداز سے حدیث ام قیس سے عدم حیلہ کا جواز اخذ فرمایا ہے اور ساتھ ہی ساتھ عبادات سے معاملات کا استنباط فرمایا ہے، لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ حدیث «إنما الأعمال . . . . .» میں اعمال صرف عبادات کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ معاملات میں بھی یہ مسئلہ داخل ہے۔
ایک ضروری وضاحت:
مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ اپنی شرح ”فیض الباری“ میں فرماتے ہیں: «إنما الأعمال بالنيات» والی حدیث کا جو قصہ ہے وہ مہاجر سیدہ ام قیس رضی اللہ عنہا کا ہے، چنانچہ آپ کہتے ہیں: «واقعته: ما رواه الطبراني بسند رجاله ثقات عن ابن مسعود رضي الله عنه قال: كان فبينا رجل خطب امرأة يقال لها: أم قيس . . . . .» [فيض الباري: 80/1]، شاہ صاحب کی یہ بات محل نظر ہے کہ حدیث «إنما الأعمال . . . . .» کا تعلق قصہ مہاجر ام قیس کے ساتھ ہے بلکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بایں طور پر واضح فرمایا کہ ”اس واقعہ میں ایسی کوئی بات مذکور نہیں ہے جو اس پر دلالت کرے کہ «إنما الأعمال . . . . .» والی حدیث اس کی وجہ سے بیان ہوئی ہے۔“ ہمارے شیخ محدث گوندلوی رحمہ اللہ اور حافظ نور پوری رحمہ اللہ نے شاہ صاحب کی فیض الباری سے کئی مسائل کا نقد فرمایا ہے، تفصیل کے لیے مطالعہ فرمائیں: «إرشاد القاري إلى نقد فيض الباري» ۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 266
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1
´تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے`
«. . . يَقُولُ: إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ . . .»
”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترک وطن) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ: 1]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
➊ امام بخاری رحمہ اللہ نے ”عملوں کے دارومدار نیت پر ہے۔“ اس حدیث کو کتاب الوحی میں اس لیے ذکر فرمایا کہ بخاری شریف پڑھنے والا اپنی نیت کو درست کر لے کیونکہ احادیث مبارکہ بھی وحی ہوا کرتی ہیں، لہٰذا طالب حق بخاری کی تلاوت سے قبل اپنی نیت کو خالص کر لے تاکہ علم نبوت اس کے قلب پر جا کے اثر ہو اور زندگی میں اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتداء ہو۔
➋ حدیث مشتمل ہے ہجرت پر کیونکہ ہجرت صرف اور صرف اللہ وحدہ لا شریک کے لیے ہی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہجرت کی اور آپ کے ہجرت کرنا بلا کسی تردد و شک کے وحی کی اقتدا میں تھا، لہٰذا اگر کوئی شخص اپنی نیت کو خالص کر کے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہجرت کرتا ہے تو یقیناً وہ شخص اپنی نیت کو خالص کرنے کی وجہ سے وحی کی پیروی کرتا ہے۔
◈ علامہ محمود حسن رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
”شروع اصول میں ہم عرض کر چکے ہیں بسا اوقات ترجمتہ الباب کا مدلول مطابق مؤلف کو مطلوب نہیں ہوتا، بلکہ اس سے کسی خاص غرض کی طرف اشارہ ہوتا ہے اسی کو احادیث باب سے ثابت کرنا منظور ہوتا ہے۔ یہاں یہی صورت ہے، اول تو ملاحظہ فرمائیے کہ مؤلف نے کتاب کو باب وحی سے شروع کیوں فرمایا؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ حالانکہ دیگر کتب احادیث کے موافق ابواب فضائل قرآن کو اپنے موقع پر بیان کیا ہے اور متعدد ابواب نزول وحی کے متعلق وہاں مذکور ہیں۔ یہاں صرف ایک باب کے مقدم لانے میں کیا غرض ہے؟ اس لیے سب سے پہلے حتی کہ ایمان اور علم سے بھی اول وحی کا ذکر مناسب ہوا۔ چنانچہ شراح محققین صاف یہی ارشاد فرماتے ہیں۔ سو اس سے معلوم ہو گیا کہ مؤلف رحمہ اللہ کی غرض اس موقع میں یہ ہے کہ وحی پر چونکہ جملہ امور اسلامیہ کا مدار ہے اور یہی ایک ایسی دلیل ہے کہ جس میں کسی طرف سے خطاء و غلطی کا ادنیٰ احتمال نہیں ہو سکتا۔ (پس یہیں سے ترجمة الباب اور احادیث میں مناسبت ہو گی)۔“ [الابواب والتراجم للمحمود حسن۔ ص16-17]
➌ کتاب الوحی میں «انما الاعمال بالنيات» کی حدیث کو درج کرنے کی غرض یہ ہے کہ تمام اعمال، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ کا علم یہ سب کچھ وحی کے ذریعے دیا گیا ہے۔ چنانچہ مذکورہ حدیث کا تعلق باب کے ساتھ یہی ہے کہ اسلام میں ہر رکن کا تعلق وحی کے ساتھ لازم و ملزوم ہے کیونکہ وحی ہی کے ذریعے تمام اعمالوں کی تعلیم دی گئی ہے۔ لہٰذا یہیں سے باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت ہے۔
فائدہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ پہلی وحی تھی جس میں قرآن کی پہلی سورت « ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ﴾ » نازل ہوئی آیت مبارک کے پس منظر میں جو بھی واقعہ پیش آیا قرآن کی اس سورت کے ساتھ ساتھ وہ واقعہ بھی محفوظ ہے، امت کا اس امر پر اجماع ہے کہ جس طرح قرآن مجید اللہ تعالی کی وحی ہے بعین ہی اسی طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان آپ کی احادیث بھی اللہ تعالی کی وحی ہیں۔
حسان بن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
«كان جبريل عليه السلام ينزل بالقرآن والسنة»
”جبريل عليه السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن و حدیث دونوں لے کر اترتے تھے۔“ [ذم الکلام ج2 ص149]
اور عیسی و روح کی روایت میں اضافہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح قرآن سکھایا جاتا اسی طرح سے حدیث بھی۔ [ذم الکلام ج2ص149]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس مسئلے کو واضح فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی شان ہے:
”خبردار مجھے قرآن کے ساتھ اس جیسی ایک اور بھی چیز دی گئی ہے (یعنی احادیث رسول)۔“ [سنن ابي داؤد رقم الحديث 4604]
واضح ہوا کہ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث بھی وحی ہیں اور ان دونوں کا تعلق بہت گہرا ہے۔
الشیخ موسی جار اللہ رحمہ اللہ جو مصنف ہیں «الوشيعة فى النقد على عقائد الشيعه» کے آپ ایک روسی عالم دین ہیں آپ نے سنت کے دفاع پر اور اس کی وحی ہونے کے بارے میں ایک عمدہ اور لطیف وضاحت فرماتے ہیں آپ لکھتے ہیں:
«السنه أصل اول من بين اصول الأدلة الاربعة فى شرع الاسلام فى اثبات الاحكام، لم يثبت حكم فى الاسلام اول ثبوته الا بالسنه وآيات الكتاب الكريم كانت تنزل بعد مؤيدة مثبتة لفعل النبى صلى الله عليه وسلم و اقراره و افعاله» [كتاب السنة لموسيٰ جار الله ص32]
”اثبات احکام کے لحاظ سے ادلہ اربعہ میں سنت کا درجہ اول ہے اسلام کے تمام احکامات اولاً سنت میں ثابت ہوئے اس کے بعد قرآن عزیز نے ان کی تائید فرمائی اور یہ تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقرار، افعال سب کو حاصل ہوئی“
شیخ اس مسئلے پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں:
”ایمان ارکان دین، فرائص ابتدا سنت سے ثابت ہوئے اس کے بعد قرآن مجید نے اس کی تائید فرمائی۔ سورۃ مائدہ 6 ہجری میں نازل ہوئی اور اس میں وضو کا ذکر کیا گیا ہے نماز اس سے بہت پہلے مکہ معظمہ میں فرض ہوئی معلوم ہے کہ سالہا سال تک نماز بے وضو تو ادا نہیں ہوتی رہی، ظاہر ہے کہ وضو کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سنت کے طور پر بتا دیا گیا تھا 6ھ میں قرآن حکیم نے اس حکم کی تائید فرما دی۔ معزوریاں انسان کے لوازم سے ہیں، عرب کی سرزمین میں پانی کی قلت معمولات میں سے ہے، بیماریاں بھی کسی قائدے کی پابند نہیں معلوم ہے کہ ان حالات میں تیمم کے سوا چارہ نہیں لیکن تیمم کا حکم سورۃ مائدہ کی آیت نمبر [6] میں مرقوم ہے جو سن 6ھ کے بعد اتری اصل تیمم سنت سے ثابت ہوا قرآن نے اس کی تائید فرمائی۔۔۔۔“
موسی جار اللہ رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے کئی ایک فوائد حاصل ہوئے جس میں سب سے مفید نکتہ یہ ہے کہ اگر سنت وحی نہ ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وضو اور تیمم کا طریقہ کس اعتبار سے سکھاتے جب کہ قرآن کئی سالوں بعد اس فعل کی تائید کرتا ہے لہٰذا وحی کی دو قسمیں واضح ہوئیں ایک وحی جلی (Express Revelation) قرآن مجید اور دوسری وحی، وحی خفی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم (Tacit Revelation) جو کہ دونوں قطعی اور منزل من اللہ ہیں۔
نوٹ: احادیث کے بارے میں شکوک و شبہات کے مستحکم جوابات کے لئے راقم کی کتاب ”اسلام کے مجرم کون؟“ کا مطالعہ مفید رہے گا۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 90
الشيخ عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1
´ خلوص نیت `
«إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى»
”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔“ [صحیح بخاري/بدء الوحي: 1]
فوائد:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کے مکمل الفاظ حسب ذیل ہیں۔
«الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ»
”اگر کوئی اپنا وطن اللہ اور اس کے رسول کے لیے چھوڑتا ہے تو اس کی یہ ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی اور اگر کسی کی ہجرت دنیا کمانے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لئے ہو گی تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہے جس کے لئے اس نے ہجرت کی ہے۔“ [صحیح بخاري/الايمان: 54]
نیت کے شرعی معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے کسی کام کا ارادہ کیا جائے، اس شرعی معنی کے اعتبار سے صرف عبادات میں حسن نیت کی ضرورت ہوتی ہے، عادات وغیرہ میں حسن نیت یعنی اخلاص کی ضرورت نہیں مثلاً کھانا، پینا اور سونا وغیرہ۔ ان کاموں میں حسن نیت کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ اس کے بغیر ہی دنیاوی مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں۔ البتہ اخلاص اور حسن نیت سے ایسے کاموں کو عبادات میں شامل کیا جا سکتا ہے اور ان کی بجاآوری باعث ثواب ہو سکتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِذَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ يَحْتَسِبُهَا فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ»
”جب مرد اپنے اہل و عیال پر ثواب کی نیت سے خرچ کرتا ہے تو وہ اس کے حق میں صدقہ بن جاتا ہے۔“ [صحیح بخاري/الايمان: 55]
اسی طرح رات کو سونا انسان کی عادت اور طبعی تقاضا ہے لیکن اگر سوتے وقت یہ نیت کی کہ صبح جلدی اٹھوں گا اور نماز فجر باجماعت ادا کروں گا تو اس بناء پر سونا مقدمہ عبادت ہونے کی وجہ سے باعث اجر و ثواب ہے، واضح رہے کہ اخلاص کے لیے درج ذیل تین چیزوں میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے۔
➊ عبادت اللہ کی رضا کے لیے ہو۔
➋ جنت حاصل کرنے کے لیے کی جائے۔
➌ جہنم سے ڈرتے ہوئے کی جائے۔
انوار حدیث، حدیث/صفحہ نمبر: 14
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1
1. حضرت علقمہ بن وقاص لیثی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو منبر پر یہ کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ”اعمال کا مدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل ملے گا، پھر جس شخص نے دنیا کمانے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے وطن چھوڑا تو اس کی ہجرت اسی کام کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو نیت کی اہمیت یا اس کے احکام ومسائل بیان کرنے کے لیے پیش نہیں کیا کیونکہ انھوں نے اس مقدمے کے لیے کتاب الایمان کے آخر میں ایک الگ باب بعنوان (بَابٌ:
مَا جَاءَ إِنَّ الأَعْمَالَ بِالنِّيَّةِ وَالحِسْبَةِ)
قائم کیا ہے۔
حضرت امام غالباً اس مقام پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ عمل کا تعلق وحی کے ساتھ بھی ہے اور عامل کی نیت کے ساتھ بھی، وہ اس طرح کہ انسان کو اس عالم رنگ وبو میں ایسے اعمال کے بجا لانے کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے جن کا اچھا یا بُرا ہونا وحی الٰہی پر موقوف ہے۔
پھر اللہ کے ہاں ان اعمال کا اعتبار کیا جائے گا جو خلوص نیت پر مبنی ہوں گے، یعنی نہ تو کوئی انسان وحی کے بغیر اچھے اعمال اختیار کر سکتا ہے اور نہ نیت کے بغیر اچھے اعمال لائق اعتبار ہی ہوسکتے ہیں۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ آیت کریمہ سے بھی عظمت وحی کو ثابت کرتے ہیں، ان کا استدلال آیت کے ان الفاظ سے ہے:
﴿إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ﴾ یعنی ہم نے وحی بھیجی ہے۔
مقصد یہ ہے کہ کسی معمولی ذات نے وحی کا نزول نہیں کیا کہ اس کی عظمت و تقدیس میں کچھ قصور(کمی)
ہو۔
پھر حدیث نیت لا کر یہ اشارہ فرمایا کہ اتنی عظیم الشان وحی کے نزول کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اعلیٰ درجے کااخلاص نیت ہی ہے۔
3۔
اس حدیث کی مذکورہ بالا عنوان سے بایں طور مطابقت بیان کی گئی ہے کہ اگرچہ نبوت ورسالت ایسی چیز نہیں ہے جسے محنت و ریاضت کے بل بوتے پر حاصل کیا جا سکے بلکہ یہ خاص عنایات ربانی کا نتیجہ ہے، تاہم اہل دنیا سے کٹ کر اللہ کی طرف ہجرت کرکے غارحرامیں خلوت گزیں ہونا عطیہ نبوت ملنے کا سبب ضرور بنا ہے۔
اور یہ خلوت گزینی بھی اللہ کے فضل اور احسان ہی سے نصیب ہوئی۔
گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے گھر سے غارحرا تک ہجرت کرنا نزول وحی کا مقدمہ اور مکے سے مدینے کی طرف ہجرت کرنا ظہور وحی کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوا کیونکہ مکے میں کفار کی مخالفت کی وجہ سے وحی کو عام کرنے کا موقع نہ مل سکا اور ہجرت مدینہ کے بعد اس وحی کا خوب چرچا ہوا۔
(المتواري علي تراجم ابواب البخاري، ص: 49)
4۔
اس حدیث میں اعمال سے مراد انسان کے وہ اختیاری افعال ہیں جو عبادات کے زمرے میں آتے ہیں کیونکہ عبادات ہی میں اخلاص اور حسن نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔
فساد نیت سے عبادات کی ادائیگی نہ صرف ثواب سے محرومی کا باعث ہے بلکہ اللہ کے ہاں اس پر سخت سزا کا بھی اندیشہ ہے۔
اس کے برعکس عادات و معاملات نیت کے بغیر بھی وقوع پذیر ہو جاتے ہیں، مثلاً:
کوئی شخص کسی کو ہزار روپے دیتا ہے تو دوسرے کی ملکیت ثابت ہوجائے گی، البتہ اگر وہ اس میں نیت اللہ کی رضا کرلے تو پھر اخلاص آجانے سے اسے بھی عبادت کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے جس پر اللہ کے ہاں اجروثواب کا وعدہ ہے۔
5۔
چونکہ نیت دل کا فعل ہے، اس لیے زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا تکلف محض ہے، نیز جن عبادات واعمال کا تعلق ہی دل سے ہے، مثلاً:
خشیت وانابت اور خوف ورجا وغیرہ، ان میں سرے سے نیت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
بہرحال حج اور عمرے کی نیت کے علاوہ کسی بھی عمل کی نیت کے لیے زبان سے نیت کے الفاظ بولنا بدعت ہے۔
ہرعمل کے لیے دل میں جو نیت ہوتی ہے، وہی کافی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:54
54. حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اعمال کا مدار نیت پر ہے۔ ہر انسان کو وہی ملے گا جو اس نے نیت کی۔ اگر کوئی اپنا وطن اللہ اور اس کے رسول کے لیے چھوڑتا ہے تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی۔ اگر کسی کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے ہو، تو اس کی ہجرت اسی کام کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:54]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو نیت کی اہمیت اور اس کے مسائل و احکام بتانے کے لیے یہاں لائے ہیں۔
ان کے نزدیک ایمان بھی عمل کی ایک صورت ہے لہٰذا اس کے لیے بھی نیت کی ضرورت ہے بصورت دیگر اگر ایمان، تصدیق کے معنی میں ہو تو اس کے لیے نیت کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ یہ دل کا فعل ہے جیسے خشیت وانابت اور خوف ورجا کے لیے نیت نہیں ہوتی۔
یہ تو اللہ ہی کے لیے ہوتے ہیں نیت اس لیے ہوتی ہے کہ اعمال میں امتیاز ہو جائے۔
کہ یہ عمل اللہ کے لیے ہے۔
یا مراتب اعمال کی تمیز کے لیے نیت کام آتی ہے کہ یہ فرض ہے اور یہ مستحب ہے۔
یا نیت اس لیے ہوتی ہے کہ عبادت عادت سے ممتاز ہو جائے مثلاً ایک آدمی کسی طبیب کے کہنے سے صبح سے شام تک کھانا پینا بند کر دیتا ہے یہ روزہ نہیں ہو گا وغیرہ۔
(صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2329 (1006)
2۔
نیت اور ارادے کے لحاظ سے احکام شریعت کی چار اقسام ہیں:
(1)
عمل شریعت کے مطابق اور نیت بھی شریعت کے موافق ہو، مثلاً:
نماز اللہ نے اس لیے فرض کی ہے کہ اس کے ادا کرنے سے اس کی رضا حاصل ہو، نماز پڑھتے وقت یہی مقصد نمازی کا ہونا چاہیے اگر نمازی اپنی نماز شریعت کے مطابق پڑھتا ہے اور نیت بھی اللہ کی رضا کا حصول ہے تو اس کی نماز صحیح اور باعث نجات ہے۔
(2)
عمل شریعت کے مخالف اور نیت بھی شریعت کی خلاف ورزی کرنا ہو، مثلاً:
چوری کرنا شریعت کی مخالفت ہے اور چوری کرتے وقت ارادہ بھی شریعت کی مخالفت کا ہے تو ایسے انسان کا عمل باطل اور قیامت کے دن باعث عتاب ہے۔
(3)
عمل شریعت کے مطابق لیکن نیت شریعت کے مخالف ہو مثلاً:
نماز صحیح پڑھتا ہے لیکن مقصد ریا کاری ہے شریعت کے مقصد کے خلاف ہے ارادے کے خراب ہونے سے عمل بھی خراب اور قیامت کے دن باعث سزا ہوگا۔
(4)
عمل شریعت کے مخالف لیکن نیت نیک ہو، مثلاً جانور ذبح کرتے وقت (بسم الله والله أكبر)
کی بجائے چاروں قل حصول ثواب کی خاطر پڑھ کر چھری پھیرتا ہے تو جانور حلال نہ ہو گا۔
کیونکہ نیت اگرچہ نیک ہے لیکن یہ عمل مشروع نہیں۔
3۔
نیت کے شرعی معنی یہ ہیں کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کےلیے کسی کام کا ارادہ کیا جائے۔
اس شرعی معنی کے اعتبار سے صرف عبادات ہیں جن میں نیت یعنی اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے باقی چیزوں میں اخلاص کی ضرورت نہیں مثلاً کھانا پینا اور سونا وغیرہ یہ کام کرنے سے دنیاوی مقاصد حاصل ہوتے ہیں البتہ اخلاص اور حسن نیت سے ایسے کاموں کو عبادت میں شامل کیا جا سکتا ہے اور ان کی بجا آوری باعث ثواب ہو سکتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 54
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2529
2529. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اعمال کا اعتبار نیت کے لحاظ سے ہے۔ جس کی ہجرت (نیت کے اعتبار سے) اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ہے تو اس کی ہجرت(ثواب کے اعتبارسے) اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ہی ہوگی۔ اور جس کی ہجرت دنیا کمانے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے ہے تواس کی ہجرت اسی کام کے لیے ہوگی جس کی طرف اس نے ہجرت کی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2529]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اعمال کی صحت نیت پر مبنی ہے۔
اگر نیت نہیں تو عمل بھی صحیح نہیں ہو گا۔
اسی طرح دوسرے اعمال نماز، روزہ، زکاۃ اور حج وغیرہ نیت کے بغیر صحیح نہیں، چنانچہ نیت کے بغیر اگر کوئی شخص بے ساختہ زبان سے لفظ طلاق یا عتاق کہہ دیتا ہے تو مذکورہ اعمال صحیح نہیں، یعنی بیوی کو طلاق ہو گی نہ غلام آزاد ہو گا۔
(2)
اس حدیث سے یہ مراد نہیں کہ نیت کے بغیر اعمال کا وجود ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ شریعت میں اعمال کے احکام کی صحت نیت پر موقوف ہے۔
کسی چیز کے صحیح یا غیر صحیح ہونے میں نیت ایک فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے، تاہم جنایات، مثلاً:
قتل، چوری وغیرہ میں نیت کا عمل دخل نہیں ہے بلکہ اگر کوئی جرم کا مرتکب ہو گا تو اسے سزا ملے گی۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2529
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3898
3898. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اعمال، نیت پر موقوف ہیں۔ جس نے دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہے جس طرف اس نے ہجرت کی۔ اور جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی، اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ہی سمجھی جائے گی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3898]
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ حدیث، حدیث نیت یا حدیث ہجرت کے نام سے مشہور ہے۔
مقصد یہ ہے کہ ہرکام میں اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی مقصود ہونی چاہیے۔
اللہ کے ہاں اس کام کے ثمر آور ہونے کی یہی ایک صورت ہے۔
2۔
ہجرت کے لیے بھی یہی ضابطہ ہے کہ وہ بھی اپنا دین بچانے اورآخرت بنانے کے لیے ہو، دیگر دنیا کا مال ومتاع توحسب تقدیر مل ہی جائے گا۔
اگرنیت دنیا حاصل کرنے کی ہے تو آخرت میں محرومی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔
اس بناپر جولوگ دنیا کمانے کے لیے غیر ممالک کا رخ کرتے ہیں، انھیں اپنے رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے بالخصوص وہ لوگ جو روپے پیسے کی خاطر مغربی ممالک کا رخ کرتے ہیں اور وہاں جاکر اپنے بچے کھچے دین کو بھی داؤپر لگادیتے ہیں۔
العیاذباللہ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3898
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6689
6689. حضرت عمر بن خطاب ؓ روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئےسنا: ”اعمال کا دارمدار نیت پر ہے۔ ہر انسان کو وہی حاصل ہوگا جو اس نے نیت کی۔ جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوگی اس کی ہجرت واقعی اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا کمانے کے لیے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے ہوگی تو اس کی ہجرت اسی لیے ہوگی جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6689]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے اعمال میں نیت کے معتبر ہونے کو ثابت کیا ہے، مثلاً:
اگر کسی نے قسم کھائی کہ وہ زید سے گفتگو نہیں کرے گا اور نیت اس کے گھر میں کلام کرنے سے متعلق تھی تو اگر اس کے گھر سے باہر زید سے گفتگو کرتا ہے تو قسم نہیں ٹوٹے گی۔
بہرحال قسم کے متعلق فیصلہ قسم کھانے والے کی نیت پر موقوف ہے، اس کی جو نیت ہو گی اس کے مطابق حکم لگایا جائے گا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6689
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6953
6953. حضرت علقمہ بن وقاص سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں حضرت عمر ؓ کو دوران خطبہ میں کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اے لوگو! اعمال کا دار مدار نیتوں پر ہے۔ ہر آدمی کو وہی کچھ ملے گا جس کی وہ نیت کرے گا، لہذا جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے تو یقیناً اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا کمانے اور کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے ہے تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6953]
حدیث حاشیہ:
1۔
اگرحیلہ سازی کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام کیا جائے یا اس کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال کیا جائے تو ایسا کرنا حرام ہے،مثلاً:
ایک آدمی کسی مطلقہ عورت سے نکاح کرتا ہے، اگراس کی نیت اس عورت کو آباد کرنا اور اسے سہارا مہیا کرنا ہے تو وہ نکاح جائز اور حلال ہے اور اس نکاح کو بطور حیلہ پہلے خاوند کے لیے حلال کرنا ہے تو اس قسم کا نکاح حرام اورناجائز ہے۔
نیت کا فساد، اس نکاح پر اثر انداز ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کی خاطرحلالہ کیا گیا ہے دونوں پر لعنت کی ہے۔
(سن أبي داود، النکاح، حدیث 2076)
اگر نکاح کرتے وقت اس قسم کی نیت نہ تھی بلکہ محض اپنا گھر آباد کرنا مقصود تھا تو پھر ایسا نکاح بابرکت ہے۔
اسی طرح ایک آدمی اپنے استعمال کے لیے جانور ذبح کرتا ہے اور ایک دوسرا غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کرتا ہے، ان دونوں کی صورت تو ایک ہے لیکن نیت الگ الگ ہے نیت کے اچھے ہونے کی بنا پر پہلی صورت جائز اور نیت کی خرابی دوسری صورت کے ناجائز ہونے کا باعث ہے۔
2۔
بہرحال نیت کی خرابی اعمال پر اثر انداز ہوتی ہے، اس لیے کسی کام کے جائز یا ناجائز ہونے میں انسان کی نیت کا عمل دخل ہوتا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث نیت سے ترک حیل (حیلہ سازی نہ کرنے)
پر استدلال کیا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6953
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 75
´وضو میں نیت کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، آدمی کے لیے وہی چیز ہے جس کی اس نے نیت کی، تو جس نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو گی، اور جس نے دنیا کے حصول یا کسی عورت سے شادی کرنے کی غرض سے ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی چیز کے واسطے ہو گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی“ ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 75]
75۔ اردو حاشیہ: (1) یہ حدیث دین اسلام کی چند اساسی احادیث میں سے ہے جن پر دین کی بنیاد ہے۔ اعمال سے نیک اعمال ہی مراد ہیں، یعنی ان کی صحت و اعتبار کے لیے نیت کا خالص ہونا شرط ہے، بخلاف برے اعمال کے کہ وہ اچھی نیت سے اچھے نہیں بن سکتے جبکہ نیک اعمال خراب نیت سے برے بن سکتے ہیں۔
➋ اس حدیث کی رو سے نیت کے بغیر کوئی عمل معتبر نہیں جن میں وضو بھی داخل ہے اور یہی جمہور اہل علم و فقہاء اور محدثین کا مسلک ہے مگر احناف کے نزدیک وضونیت کے بغیر بھی معتبر ہے کیونکہ یہ اصل عبادت نہیں، بلکہ اصل عبادت (نماز وغیرہ) کے لیے وسیلہ ہے، حالانکہ صحیح احادیث کی رو سے ضو گناہوں کی معافی اور درجات کے حصول کا بھی سبب ہے۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 832]
اور یہ بغیر نیت کے ممکن نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 75
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3467
´اگر کسی بات کے کئی معنی نکلتے ہوں تو کہنے والا جو معنی مراد لے گا وہی معنی صحیح مانا جائے گا۔`
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ آدمی جیسی نیت کرے گا ویسا ہی پھل پائے گا، جو اللہ و رسول کے لیے ہجرت کرے گا تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے سمجھی جائے گی (اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرنے کا ثواب ملے گا) اور جو کوئی دنیا حاصل کرنے کے لیے ہجرت کرے گا تو اسے دنیا ملے گی، یا عورت حاصل کرنے کے لیے ہجرت کرے گا [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3467]
اردو حاشہ:
امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ متکلم اپنے کلام سے جو معنیٰ مراد لے گا‘ وہی معتبر ہوگا بشرطیکہ کلام ان کا احتمال رکھتا ہو۔ کوئی مخاطب اپنی مرضی کے معنیٰ کسی کلام سے کشید نہیں کرسکتا۔ اپنے کلام کا مقصود بیان کرنا متکلم کا حق ہے کہ مخاطب کا۔ چونکہ نیت اصل ہے اور نیت متکل ہی بیان کرسکتا ہے‘ لہٰـذا اگر کوئی شخص ایسا لفظ بولے جو طلاق کے معنیٰ کا بھی احتمال رکھتا ہوں اور دوسرے معنیٰ کا بھی‘ طلاق تبھی مراد ہوگی اگر متکلم طلاق کے معنیٰ مراد لے ورنہ طلاق نہیں ہوگی‘ مثلا: کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے: ”میرے گھر سے نکل جا۔“ یہ حدیث تفصیلاً گزر چکی ہے۔ دیکھیے‘ حدیث:75۔ کتاب الوضو)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3467
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3825
´قسم میں نیت کے اعتبار کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور آدمی کو اسی کا ثواب ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو، تو جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہو گی تو اس کی ہجرت اسی کی طرف ہو گی جس کی خاطر اس نے ہجرت کی ہے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3825]
اردو حاشہ:
یہ اصولی اور جامع حدیث ہے جس کا تعلق شرعی امور سے بھی ہے اور دنیوی امور سے بھی۔ اگر شرعی امور سے اس کا تعلق ہو تو اس کے شرعی معنیٰ مراد ہوں گے‘ یعنی خلوص لوجہ اللہ۔ اور اگر اس کا تعلق امور دنیا سے ہو تو اس کے لغوی معنیٰ مراد ہوںگے‘ یعنی قصد وارادہ۔ قسم بھی دنیوی امور سے ہے‘ لہٰذا جس نیت سے قسم کھائی جائے گی‘ وہی نیت معتبر ہوگی۔ یا قسم کا مفہوم وہی معتبر ہوگا جو قسم کھانے والے کا مقصود تھا۔ (یہ حدیث اور اس کی تفصیلی بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے‘ حدیث: 75)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3825