4582. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔“ میں نے عرض کی: بھلا میں آپ کو کیا سناؤں، خود آپ پر تو قرآن نازل ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے دوسروں سے سننا اچھا لگتا ہے۔“ چنانچہ میں نے سورہ نساء پڑھنا شروع کر دی حتی کہ میں اس آیت پر پہنچا: ”بھلا اس دن کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے، پھر آپ کو ان لوگوں پر بحیثیت گواہ کھڑا کریں گے۔“ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بس رک جاؤ۔“ میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4582]
حدیث حاشیہ: 1۔
محدثین نے رسول اللہ ﷺ کے رونے کے تین اسباب بیان کیے ہیں۔
۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ کو شہادت دینا ہوگی اور آپ کی شہادت پر ہی فیصلہ ہو گا آپ شافع بھی ہوں گے تو آپ اپنی امت کے گناہ گاروں کو یاد کر کے رو دیے۔
۔
ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ فضیلت پر انتہائی خوشی کی وجہ سے دوسرے اللہ تعالیٰ کی اس عطا پر انتہائی شکر گزاری کے طور پر آنسو بہہ پڑے۔
۔
اس دن کی ہولناکی کے تصور سے رو پڑے جس کا اس آیت کریمہ میں تذکرہ ہے یعنی اس دن حضرات انبیاء ؑ اپنی امتوں کے حق میں یا ان کے خلاف بطور گواہ پیش ہوں گے۔
2۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دوسروں سے قرآن سننا تدبر کا زیادہ باعث ہے جبکہ خود پڑھنے سے اس قدر غور و فکر نہیں ہوتا۔
اس سے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی بھی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔