حدیث حاشیہ: 1۔
عراق میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اثر و رسوخ زیادہ تھا اور وہ عراقی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مصحف کی ترتیب کے مطابق قرآن کریم کی تلاوت کرتا تھا اور ان کے مصحف کی ترتیب مصحف عثمان کے مطابق نہ تھی۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب مصاحف کو نقل کرنے کے بعد ایک نسخہ کوفے بھیجا تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ترتیب کردہ مصحف سے رجوع نہ کیا بلکہ اس کے مطابق قراءت کو جاری رکھا۔
چونکہ مصحف عثمانی پر جمہور امت نے اتفاق کیا تھا، اس لیے عراقی اس کے خلاف عمل کرنے پرراضی نہ تھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مصحف دیکھنے کی خواہش کی بنیاد بھی یہی تھی۔
مصحف عثمانی میں ترتیب نزولی کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس کا جواب دیا کہ ترتیب نزول میں لوگوں کے رجحانات کا خیال رکھا گیا ہے کیونکہ ابتدا میں لوگوں کے دل فرمانبردار نہیں تھے، اس لیے احکام و مسائل نازل نہیں ہوئے بلکہ عقائد و نظریات سے متعلق آیات نازل ہوئیں، لیکن جب لوگوں میں اطاعت و فرمانبرداری کا جذبہ پیدا ہوگیا تو احکام سے متعلقہ سورتیں، مثلاً:
سورہ بقرہ اور سورہ نساء وغیرہ نازل ہوئیں۔
بہرحال ہمارے ہاں قابل اعتماد ترتیب مصحف عثمانی والی ہے جسے جمہور امت نے شرف قبولیت سے نوازا ہے۔
واللہ اعلم۔
2۔
واضح رہے کہ علمائے امت نے قرآنی سورتوں کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے:
۔
السبع الطوال:
۔
سات لمبی لمبی سورتیں، یعنی البقرہ، آل عمران، النساء، المائدۃ، الانعام اور الاعراف، ساتویں میں اختلاف ہے کہ آیا وہ الانفال اورتوبہ ہے جس کے درمیان بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لا کرانھیں الگ الگ نہیں کیا گیا یا وہ سورہ یونس ہے۔
۔
ا لمثون:
۔
وہ سورتیں جن کی آیات کی تعداد سو سے زیادہ ہے۔
۔
المثانی:
۔
وہ سورتیں جن کی آیات دو سو کے لگ بھگ ہیں۔
۔
المفصل:
۔
اس سے مراد وہ سورتیں ہیں کہ ان کے درمیان بکثرت بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لا کر انھیں ایک دوسری سے الگ الگ کیا گیا ہے اور یہ سورۃ الحجرات سے آخر قرآن تک ہیں۔
پھر ان کی تین قسمیں ہیں:
۔
طوال مفصل:
سورۃ الحجرات سے سورۃ النبا تک۔
۔
اوساط مفصل:
سورہ النبا سے سورہ والضحیٰ تک۔
۔
قصار مفصل:
سورہ والضحیٰ سے لے کر آخر قرآن تک۔
چونکہ حدیث میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مفصل سورت کا ذکر کیا تھا، اس لیے مذکورہ ترتیب بیان کی گئی ہے۔