مجاہد نے کہا «كنود» کا معنی ناشکرا ہے۔ «فأثرن به نقعا» یعنی صبح کے وقت دھول اڑاتے ہیں، گرد اٹھاتے ہیں۔ «لحب الخير» یعنی مال کی قلت کی وجہ سے۔ «لشديد» بخیل ہے بخیل کو «لشديد» کہتے ہیں۔ «حصل» کے معنی جدا کیا جائے یا جمع کیا جائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4964-9]
«كالفراش المبثوث» یعنی پریشان ٹڈیوں کی طرح کی جیسے وہ ایسی حالت میں ایک دوسرے پر چڑھ جاتی ہیں یہی حال (حشر کے دن) انسانوں کا ہو گا کہ وہ ایک دوسرے پر گر رہے ہوں گے «كالعهن» اون کی طرح رنگ برنگ۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یوں پڑھا ہے «الصوف. المنفوش» یعنی دھنی ہوئی اون کی طرح اڑتے پھریں گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4964-8]
مجاہد نے کہا «أبابيل» یعنی پے در پے آنے والے جھنڈ کے جھنڈ پرندے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «من سجيل»(یہ لفظ فارسی کا «معرب» ہے) یعنی سنگ پتھر اور گل مٹی مراد ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4964-4]
مجاہد نے کہا «لإيلاف قريش.» کا مطلب یہ ہے کہ قریش کے لوگوں کا دل سفر میں لگا دیا تھا، گرمی جاڑے کسی بھی موسم میں ان پر سفر کرنا دشوار نہ تھا اور ان کو حرم میں جگہ دے کر دشمنوں سے بےفکر کر دیا تھا۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ «لإيلاف قريش.» کا معنی یہ ہے قریش پر میرے احسان کی وجہ سے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4964-3]
مجاہد نے کہا «يدع» کا معنی دفع کرتا ہے یعنی یتیم کو اس کا حق نہیں لینے دیتا، کہتے ہیں یہ «دعوت» سے نکلا ہے۔ اسی سے سورۃ الطور میں لفظ «يوم يدعون» ہے (یعنی جس دن دوزخ کی طرف اٹھائے جائیں گے، ڈھکیلے جائیں گے۔ «ساهون» بھولنے والے، غافل۔ «ماعون» کہتے ہیں مروت کے ہر اچھے کام کو۔ بعض عرب «ماعون» پانی کو کہتے ہیں۔ عکرمہ نے کہا «ماعون» کا اعلیٰ درجہ زکوٰۃ دینا ہے اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص کچھ سامان مانگے تو اسے وہ دیدے، اس کا انکار نہ کرے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4964-2]
حدیث نمبر: Q4964
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: شَانِئَكَ: عَدُوَّكَ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «شانئك» تیرا دشمن۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4964]
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے ڈیرے لگے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل! یہ نہر کیسی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ حوض کوثر ہے (جو اللہ نے آپ کو دیا ہے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4964]
ما الكوثر قال ذاك نهر أعطانيه الله يعني في الجنة أشد بياضا من اللبن أحلى من العسل فيها طير أعناقها كأعناق الجزر إن هذه لناعمة قال رسول الله أكلتها أحسن منها