مجاہد نے کہا «وزرك» سے وہ باتیں مراد ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاہلیت کے زمانہ میں صادر ہوئیں (ترک اولیٰ وغیرہ)۔ «أنقض» کے معنی بھاری کیا۔ «مع العسر يسرا» سفیان بن عیینہ نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مصیبت کے ساتھ دو نعمتیں ملتی ہیں جیسے آیت «هل تربصون بنا إلا إحدى الحسنيين» میں مسلمانوں کے لیے دو نیکیاں مراد ہیں اور حدیث میں ہے ایک مصیبت دو نیکیوں پر غالب نہیں آ سکتی اور مجاہد نے کہا «فانصب» یعنی اپنے پروردگار سے دعا مانگنے میں محنت اٹھا۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے انہوں نے کہا «ألم نشرح لك صدرك» سے مراد ہے کہ ہم نے تیرا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4952-2]
مجاہد نے کہا کہ آیت میں وہی تین (انجیر) اور زیتون مشہور میوے ذکر ہوئے ہیں جنہیں لوگ کھاتے ہیں۔ «فما يكذبك» یعنی کیا وجہ ہے جو تو اس بات کو جھٹلائے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ ملے گا۔ گویا یوں کہا کون کہہ سکتا ہے کہ تو عذاب اور ثواب کو جھٹلانے لگے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4952]
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھے عدی بن ثابت نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے اور عشاء کی ایک رکعت میں آپ نے سورۃ والتین کی تلاوت فرمائی تھی۔ «تقويم» کے معنی پیدائش، بناوٹ کے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4952]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4952
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے،حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں نے آپ سے زیادہ خوبصورت آواز والا کوئی نہیں دیکھا۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7546) 2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی دوسری رکعت میں سورۃ القدر کی تلاوت کی تھی۔ (فتح الباري: 911/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4952
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1221
´سفر کی نماز میں قرآت مختصر کرنے کا بیان۔` براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں نکلے آپ نے ہمیں عشاء پڑھائی اور دونوں رکعتوں میں سے کسی ایک رکعت میں «والتين والزيتون» پڑھی۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1221]
1221۔ اردو حاشیہ: امام کو چاہیے کہ اپنے مقتدیوں کے احوال کا خاص خیال رکھے ایسے ہی سفر میں نماز کی قرأت کو مختصر رکھنا مستحب ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1221
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7546
7546. سیدنا براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نماز عشاء میں (والتین والزیتون) پڑھ رہے تھے۔ میں نے آپ سے زیادہ خوبصورت آواز میں قرآن پڑھتے ہوئے کسی کو نہیں سنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7546]
حدیث حاشیہ: حضرت براء بن عازب ابوعمارہ انصاری حارثی ہیں۔ انہوں نے سنہ 24ھ میں رے کو فتح کیا۔ حضرت علی کے ساتھ جنگ نہروان میں شریک ہوئے۔ بہ زمانہ مصعب بن زبیر کوفہ میں وفات پائی۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7546
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:767
767. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے دوران سفر میں نماز عشاء کی دو رکعات میں سے ایک میں سورہ ﴿وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ﴿١﴾ ) پڑھی [صحيح بخاري، حديث نمبر:767]
حدیث حاشیہ: (1) سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلی رکعت میں سورۂ والتین کی تلاوت فرمائی۔ چونکہ آپ سفر میں تھے اور دوران سفر میں تخفیف مطلوب ہوتی ہے، اس لیے آپ نے نماز عشاء میں چھوٹی چھوٹی سورتوں کی تلاوت فرمائی۔ اس سے پہلے حدیث ابو ہریرہ حضر پر محمول ہوگی کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عشاء میں اوساط مفصل سورتیں تلاوت کی تھیں۔ (فتح الباري: 324/2)(2) یہ احادیث اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ نمازوں میں قراءت کی کوئی طے شدہ مقدار مقرر نہیں۔ امام کو چاہیے کہ وہ حالات وظروف کا لحاظ رکھتے قراءت کا تعین کرے، بہر حال مقتدی حضرات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ (عمدة القاري: 472/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 767
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:769
769. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو نماز عشاء میں ﴿وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ﴿١﴾ ) پڑھتے سنا اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ خوش الحان یا اچھا پڑھنے والا کوئی نہیں سنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:769]
حدیث حاشیہ: (1) یہ (حدیث: 767) پہلے گزر چکی ہے۔ اس میں وضاحت ہے کہ یہ دورانِ سفر کا واقعہ ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں: آیا رسول اللہ ﷺ نے سورۂ والتین کو نماز عشاء کی پہلی رکعت میں تلاوت کیا تھا یا دوسری رکعت میں؟ یا اسے دونوں رکعات میں پڑھا؟ یعنی دوسری رکعت میں بھی اس کا اعادہ کیا، اگر کوئی دوسری سورت پڑھی تو وہ کون سی تھی؟ مجھے اس کا استحضار نہیں تھا یہاں تک میں نے علامہ ابو علی ابن السکن کی تالیف "کتاب الصحابة" دیکھی۔ اس میں زرعہ بن خلیفہ ؓ کے حالات میں لکھا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے علاقے یمامہ میں رسول اللہ ﷺ کا تذکرہ سنا تو آپ کے پاس مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے۔ آپ نے ہم پر اسلام پیش کیا تو ہم مسلمان ہو گئے۔ اس وقت آپ نے نماز میں ﴿وَالتِّينِ﴾ اور ﴿إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾ کی تلاوت فرمائی۔ اگر حضرت براء بن عازب ؓ کی تعین کردہ نماز عشاء یہی ہے تو ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس نماز کی پہلی رکعت میں ﴿وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ﴾ اور دوسری رکعت میں سورۂ قدر کی تلاوت فرمائی ہو۔ لیکن حضرت براء بن عازب کی صراحت کے مطابق یہ واقعہ دوران سفر میں پیش آیا جبکہ حضرت زرعہ بن خلیفہ کا واقعہ مدینہ منورہ میں پیش آیا ہے۔ والله أعلم (2) حافظ ابن حجر ؒ نے اس مقام پر لکھا ہے کہ ہم اس حدیث کی تشریح کتاب التوحید کے آخر میں کریں گے۔ لیکن کتاب سجود القرآن اور کتاب التوحید میں لکھا ہے کہ اس حدیث کی تشریح کتاب الصلاة میں گزرچکی ہے۔ (فتح الباري: 911/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 769
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7546
7546. سیدنا براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نماز عشاء میں (والتین والزیتون) پڑھ رہے تھے۔ میں نے آپ سے زیادہ خوبصورت آواز میں قرآن پڑھتے ہوئے کسی کو نہیں سنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7546]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں دوران جماعت میں امام کو چاہیے کہ وہ خوش الحانی سے قرآن کریم کی تلاوت کرے اور تجوید کے قواعد کے مطابق اسے پڑھے۔ ہمارے علمائے کرام کو اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز اور خوش الحانی سے قرآن پڑھتے تھے۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ آواز اور تلاوت بندے کا اپنا فعل ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا کیا ہوا ہے جبکہ جسے پڑھا جا رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔ چونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو خلق قرآن کے حوالے سے سخت آزمائش سے گزرنا پڑتا تھا، اس لیے اس مسئلے کو دلائل وبراہین سے بیان کیا ہے اور ہر دلیل پر عنوان بندی بھی کی ہے جیسا کہ آئندہ ابواب سے ظاہر ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7546