فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 137
´وضو کے بچے ہوئے پانی کو کام میں لانے کا بیان۔`
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بطحاء میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کے وضو کا پانی (جو برتن میں بچا تھا) نکالا، تو لوگ اسے لینے کے لیے جھپٹے، میں نے بھی اس میں سے کچھ لیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لکڑی نصب کی، تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور آپ کے سامنے سے گدھے، کتے اور عورتیں گزر رہی تھیں۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 137]
137۔ اردو حاشیہ:
➊ امام صاحب مذکورہ روایت اس باب کے تحت لا کر یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ ماء مستعمل پاک ہے اور اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ماء مستعمل کی بابت مزید تفصیل کے لیے کتاب المیاہ کا ابتدائیہ دیکھیے۔
➋ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت تھی جس کا اظہار اس حدیث سے بھی ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم آپ کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو اپنے جسم وغیرہ پر بطور تبرک ملتے تھے۔ یہ صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے کیونکہ آپ کے بعد قرون اولیٰ میں سے کسی سے بھی یہ نہیں ملتاکہ کسی نے کسی صحابی یا تابعی سے بطور تبرک یہ عمل کیا ہو۔
➌ سترے کے آگے سے کسی چیز کا گزرنا نماز کے لیے نقصان دہ نہیں، سترے کے بغیر مذکورہ چیزوں کا گزرنا نقصان دہ ہے، اس لیے سترے کا اہتمام کرنا نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور مذکورہ چیزوں سے بچاؤ کا ایک عمدہ تحفظ بھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 137
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 773
´سرخ کپڑوں میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سرخ جوڑے میں نکلے، اور آپ نے اپنے سامنے ایک برچھی گاڑی، پھر اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، اور اس کے پیچھے سے کتے، عورتیں اور گدھے گزرتے رہے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 773]
773 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ابن قیم رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق وہ حلہ خالص سرخ نہ تھا بلکہ اس میں سرخ دھاریاں تھیں، سطح سفید تھی۔ دیکھیے: [زاد المعاد: 137/1]
لہٰذا اس روایت کا ان روایات سے تعارض نہ ہو گا جن میں سرخ کپڑا پہننے سے روکا گیا ہے۔
➋ حلے سے مراد ہے، دو چادریں ایک رنگ کی اور ایک جیسی۔ ایک ازار اور دوسری ردا۔
➌ برچھایا چھوٹا نیزہ بطور سترہ گاڑا گیا تھا۔ اس کی بحث حدیث 748 میں گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 773
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 633
633. حضرت ابوجحیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو وادی ابطح میں دیکھا کہ آپ کے پاس حضرت بلال ؓ آئے اور آپ کو نماز کی اطلاع دی، پھر نیزہ لے کر چلے گئے تا آنکہ اسے رسول اللہ ﷺ کے سامنے وادی ابطح میں گاڑ دیا، پھر انہوں نے نماز کے لیے تکبیر کہی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:633]
حدیث حاشیہ:
ابطح مکہ سے کچھ فاصلہ پر ایک مشہورمقام ہے۔
جہاں آپ ﷺ نے حالت سفر میں جماعت سے نماز پڑھائی۔
پس حدیث اورباب میں مطابقت ظاہر ہے۔
یہ بھی ثابت ہواکہ اگر ضرورت ہو تومؤذن امام کوگھر سے بلاکر لاسکتے ہیں اور یہ بھی کہ جنگل میں سترہ کا انتظام ضروری ہے۔
اس کا اہتمام مؤذن کو کرنا ہے۔
عنزہ وہ لکڑی جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا ہو، اسے زمین میں با آسانی گاڑا جا سکتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 633
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5786
5786. حضرت ابو حجیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت بلال ؓ کو دیکھا کہ وہ ایک چھوٹا سا نیزہ اٹھا کر لائے اور اسے زمین میں گاڑ دیا۔ پھر انہوں نے نماز کے لیے اقامت کہی۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ سرخ رنگ کا جوڑا زیب تن کئے ہوئے باہر تشریف لائے جسے آپ نے سمیٹ رکھا تھا پھر آپ نے نیزے کے سامنے کھڑے ہو کر دورکعت نماز(عید) پڑھائی میں نے انسانوں اور چوپائیوں کو دیکھا کہ وہ نیزے کے پیچھے سے اور آپ کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5786]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جوڑے کو سمیٹ رکھا تھا تاکہ زمین پر خاک آلود نہ ہو۔
باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
امام کے آگے نیزہ کا سترہ گاڑنا بھی ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5786
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:499
499. حضرت ابوجحیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ کے سامنے وضو کا پانی پیش کیا گیا، چنانچہ آپ نے وضو فرمایا اور ہمیں ظہر اور عصر کی نماز پڑھائی جبکہ آپ کے سامنے چھوٹا نیزہ تھا، عورتیں اور گدھے نیزے کے آگے سے گزر رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:499]
حدیث حاشیہ:
پہلی روایت تو عنوان کے مطابق ہے کہ رسول اللہ ﷺ چھوٹے نیزے کو سامنے کرکے اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے لیکن دوسری روایت میں عصا اورعنزہ کوساتھ لے جانے کا توذکر ہے لیکن اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا ذکر نہیں ہے، مگر چونکہ ان چیزوں کوساتھ لے جانے کاایک اہم فائدہ ان کا سترے ے طور پر استعمال بھی رہا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے صرف اتنی مناسبت سے اپنا عنوان ثابت کردیا، میں کلمہ اوشک کے لیے نہیں، بلکہ تنویع کے لیے ہے۔
گویا راوی یہ کہنا چاہتا ہے کہ ان تینوں چیزوں میں سے کوئی ایک چیز ساتھ ہوتی تھی، جس سے دیگرفوائد کے ساتھ ساتھ سترے کاکام بھی لیا جاتا تھا۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 499
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:501
501. حضرت ابوجحیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ نے بطحاء میں ظہر اور عصر کی دو رکعات پڑھائیں اور آپ نے دوران نماز میں اپنے سامنے ایک چھوٹا نیزہ کھڑا کر لیا۔ جب آپ نے وضو کیا تو لوگ آپ کے وضو کے پانی کو اپنے منہ پر ملنے لگے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:501]
حدیث حاشیہ:
1۔
ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری ؒ نے بطور خاص مکے کا ذکر ایک مغالطے کو دور کرنے کے لیے کیا ہے کہ سترہ بمنزلہ قبلہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کی طرف منہ کرتے ہیں اور یہ مناسب نہیں کہ مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کے علاوہ کوئی اور چیز قبلے کا مقام حاصل کرے، لہٰذا مکے میں سترے کی ضرورت نہیں، گویا وہ کہناچاہتے ہیں کہ ایک مقام پر دو قبلے نہیں ہوسکتے کہ ایک قبلہ تو سترہ ہو اور دوسرا قبلہ خانہ کعبہ، حالانکہ یہ خیال بالکل غلط ہے۔
امام بخاری ؒ اس وہم کو دور کرنا چاہتے ہیں کہ مکے میں بھی سترے کی ضرورت ہے۔
حافظ ابن حجرؒ مزید لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک تو امام بخاری ؒ نے محدث عبدالرزاق کے ایک باب کی تردید کی ہے۔
جو انھوں نے اپنی مصنف میں قائم کیا ہے کہ مکے میں کوئی چیز نماز کو توڑ نہیں سکتی، لہٰذا وہاں سترے کی ضرورت نہیں۔
پھر انھوں نے حدیث ابن جریج ذکر کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد حرام میں نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کے سامنے کوئی سترہ نہیں تھا۔
لوگ آپ کے آگے سے گزر رہے تھے۔
اس روایت کو اصحاب السنن نے بھی بیان کیا ہے۔
اس کے راوی بھی ثقہ ہیں، لیکن یہ روایت معلول ہے، کیونکہ اس روایت کو کثیر اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں جبکہ وہ خود کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے نہیں سنا، بلکہ اپنے کسی گھر والے سے سنی ہے، وہ میرے دادا سے بیان کرتے ہیں۔
امام بخاری ؒ نے اس عنوان کےذریعے سے مذکورہ روایت کے ضعف پرتنبیہ کی ہے اوربتایا ہے کہ مشروعیت سترہ کے متعلق مکہ اور غیر مکہ میں کوئی فرق نہیں اور اپنے استدلال میں حدیث ابی جحیفہ ؓ پیش کی ہے۔
شوافع کا بھی یہی مشہور مسلک ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنا مکہ اور غیر مکہ سب جگہ ممنوع ہے، البتہ بعض فقہاء نے طواف کرنے والوں کے لیے ضرورت کے پیش نظر گنجائش نکالی ہے کہ وہ نمازی کے آگے سے گزرسکتے ہیں، دوسروں کے لیے اس کی اجازت نہیں ہے۔
بعض حنابلہ نے نمازی کے آگے سے گزرنے کو تمام مکہ میں جائز قراردیا ہے۔
(فتح الباري: 745/1)
اس سلسلے میں ہمار ا مؤقف یہ ہے کہ مسجد حرام میں بھی نمازی کے آگے سے گزرنا صحیح نہیں اور وہاں بھی سترے کی پابندی ضروری ہے۔
امام بخاری ؒ نے بھی اسی موقف کو پیش کیا ہے۔
2۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ مؤلف نے یہ باب اس خیال کی تردید کے لیے قائم کیا ہے کہ اگر مسجد حرام میں سترے کی پابندی کرنی ہو تو اس سے لوگوں کو تنگی ہوگی، کیونکہ وہاں سب لوگ عبادات میں مصروف ہوتے ہیں، کوئی نماز پڑھتا ہے تو کوئی طواف کرتا ہے، اس لیے وہاں سترے کی چنداں ضرورت نہیں۔
لیکن مؤلف نے اس عنوان سے اس خیال کی تردید فرمائی اور مکہ مکرمکہ میں بھی سترے کی ضرورت کو بیان فرمایا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 501
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:633
633. حضرت ابوجحیفہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو وادی ابطح میں دیکھا کہ آپ کے پاس حضرت بلال ؓ آئے اور آپ کو نماز کی اطلاع دی، پھر نیزہ لے کر چلے گئے تا آنکہ اسے رسول اللہ ﷺ کے سامنے وادی ابطح میں گاڑ دیا، پھر انہوں نے نماز کے لیے تکبیر کہی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:633]
حدیث حاشیہ:
وادئ ابطح مکے سے باہر ایک مشہور مقام ہے۔
چونکہ امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان میں میدان عرفات اور مزدلفہ کا ذکر کیا تھا، اس مناسبت سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ وادی مزدلفہ میں واقع ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ وادئ ابطح اور مزدلفہ کے درمیان کا فی مسافت ہے۔
امام بخاری ؒ کا مقصد اس حدیث سے دوران سفر میں اذان اور تکبیر کی مشروعیت کو ثابت کرنا ہے۔
(فتح الباري: 150/2)
البتہ امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان میں میدان عرفات اور مزدلفہ کا ذکر کرکے شاید اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جسے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب میدان عرفات میں نماز ظہر اور عصر کو جمع فرمایا تھا تو اس وقت حضرت بلال ؓ نے اذان اور اقامت کہی تھی۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950(1218)
اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے مزدلفہ میں نماز مغرب اذان اور اقامت کے ساتھ پڑھی، پھر نماز عشاء کےلیے بھی اذان اور اقامت کہنے کا اہتمام کیا، پھر فرمایا:
میں نے رسول اللہ ﷺ کر ایسا کرتے دیکھا ہے۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1675)
لیکن احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ میں ایک اذان اور دودفعہ اقامت کے ساتھ نماز مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھا تھا۔
والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 633
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5786
5786. حضرت ابو حجیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت بلال ؓ کو دیکھا کہ وہ ایک چھوٹا سا نیزہ اٹھا کر لائے اور اسے زمین میں گاڑ دیا۔ پھر انہوں نے نماز کے لیے اقامت کہی۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ سرخ رنگ کا جوڑا زیب تن کئے ہوئے باہر تشریف لائے جسے آپ نے سمیٹ رکھا تھا پھر آپ نے نیزے کے سامنے کھڑے ہو کر دورکعت نماز(عید) پڑھائی میں نے انسانوں اور چوپائیوں کو دیکھا کہ وہ نیزے کے پیچھے سے اور آپ کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5786]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد حضرات بھی سرخ رنگ کا لباس پہن سکتے ہیں لیکن جس علاقے میں یہ رنگ عورتوں کے لیے مخصوص ہو چکا ہو وہاں مردوں کو اس رنگ کا لباس پہننے سے بچنا چاہیے کیونکہ لباس وغیرہ میں عورتوں کی مشابہت اختیار کرنا ممنوع ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ دوران نماز میں کپڑے کو سمیٹنا منع ہے لیکن اس کا محل یہ ہے کہ وہ چادر کے دامن کے علاوہ ہو کیونکہ اسے دفع مضرت کے لیے سمیٹا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 316/10)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا نماز اور غیر نماز دونوں حالتوں میں خلاف شریعت ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5786