امام حسن بصری نے کہا «سجرت» کا معنی یہ ہے کہ سمندر سوکھ جائیں گے، ان میں پانی کا ایک قطرہ بھی باقی نہ رہے گا۔ مجاہد نے کہا «مسجور» کا معنی (جو سورۃ الطور میں ہے) بھرا ہو اوروں نے کہا «سجرت» کا معنی یہ ہے کہ سمندر پھوٹ کر ایک دوسرے سے مل کر ایک سمندر بن جائیں گے۔ «خنس» چلنے کے مقام میں، پھر لوٹ کر آنے والے۔ «كنس»، «تكنس» سے نکلا ہے یعنی ہرن کی طرح چھپ چھپ جاتے ہیں۔ «تنفس» دن چڑھ جائے۔ «ظنين»(ظاء معجمہ سے یہ بھی ایک قرآت ہے) یعنی تہمت لگاتا ہے اور «ضنين» اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اللہ کا پیغام پہنچانے میں بخیل نہیں ہے اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا «النفوس زوجت» یعنی ہر آدمی کا جوڑ لگا دیا جائے گا خواہ جنتی ہو یا دوزخی پھر یہ آیت پڑھی «احشروا الذين ظلموا وأزواجهم»، «عسعس» جب رات پیٹھ پھیر لے یا جب رات کا اندھیرا آ پڑے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4938-3]
ربیع بن خثیم نے کہا «فجرت» کے معنی بہ نکلیں اور اعمش اور عاصم نے «فعدلك» کو تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ حجاز والوں نے «فعدلك» تشدید دال کے ساتھ پڑھا ہے۔ جب تشدید کے ساتھ ہو تو معنی یہ ہو گا کہ بڑی خلقت مناسب اور معتدل رکھی اور تخفیف کے ساتھ پڑھو تو معنی یہ ہو گا جس صورت میں چاہا تجھے بنا دیا خوبصورت یا بدصورت لمبا یا ٹھگنا چھوٹے قد والا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4938-2]
اور مجاہد نے کہا کہ «بل ران» کا معنی یہ ہے کہ گناہ ان کے دل پر جم گیا۔ «ثوب» بدلہ دیئے گئے۔ اوروں نے کہا «مطفف» وہ ہے جو پورا ماپ تول نہ دے (دغا بازی کرے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4938]
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے مالک نے بیان کیا، ان سے نافع اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس دن لوگ دونوں جہان کے پالنے والے کے سامنے حساب دینے کے لیے کھڑے ہوں گے تو کانوں کی لو تک پسینہ میں ڈوب جائیں گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4938]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4938
حدیث حاشیہ: ایک روایت میں ہے: ”قیامت کے دن سورج ایک میل کی مقدار لوگوں کے قریب آجائے گا پس لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں ہوں گے۔ یہ پسینہ کسی کے ٹخنوں تک کسی کے گھٹنوں تک کسی کی کمر تک اور کسی کے لیے یہ لگام بنا ہوا ہو گا۔ یعنی اس کے منہ تک پسینہ ہو گا۔ “(صحیح مسلم، الجنة و صفة نعیمھا و أھلھا، حدیث: 7296۔ (2862)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4938
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4278
´حشر کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے: «يوم يقوم الناس لرب العالمين»”جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے“(سورۃ المطففین: ۶) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ”لوگ اس طرح کھڑے ہوں گے کہ نصف کان تک اپنے پسینے میں غرق ہوں گے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4278]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) قیامت کے دن سورج بہت قریب ہوگا۔ جس کی وجہ سے بہت پسینہ آئے گا۔ لیکن یہ پسینہ اپنے اپنے گناہوں کے مطابق کم زیادہ ہوگا۔
(2) بعض نیک لوگ عرش کے سائے تلے ہوں گے۔ اس وقت عرش کےسائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا۔
(3) عرش کے سائے کا شرف حاصل کرنے والے افراد کی تفصیل ایک حدیث میں اس طرح بیان کی گئی ہے: انصاف کرنے والا حکمران، اللہ کی عبادت میں مشغول رہنے والا جوان، مسجدوں سے محبت رکھنے والا (نمازی) ، محض اللہ کی رضا کےلئے کسی مومن سے محبت رکھنے والا، بدکاری کی دعوت رد کرکے اپنی پاک دامنی کی حفاظت کرنے والا، چھپا کر صدقہ کرنے والا، تنہائی میں اللہ کو یاد کر کے (اللہ کے سامنے عجزو انکسار کااظہار کرتے ہوئے) اشک بار ہوجانے والا، دیکھئے: (صحیح البخاري، الذکاۃ، باب الصدقة بالیمین، حدیث 1423)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4278
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2422
´قیامت کے دن حساب اور قصاص کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: «يوم يقوم الناس لرب العالمين»”جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے“(المطففین: ۶)، اور کہا: ”اس دن لوگ اللہ کے سامنے اس حال میں کھڑے ہوں گے کہ پسینہ ان کے آدھے کانوں تک ہو گا۔“[سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2422]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ (المطففین: 6)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2422
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6531
6531. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ﴿يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ کی تفسیر میں فرمایا: ”لوگوں میں سے کچھ نصف کانوں (کانوں کی لو) تک اپنے پسینے میں کھڑے ہوں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6531]
حدیث حاشیہ: (1) یہ پسینہ انسان کا ذاتی ہو گا جو نصف کانوں تک پہنچے گا۔ قیامت کے دن مسلسل خوف و ہراس، سورج کی نزدیکی اور لوگوں کے ہجوم کے سبب یہ پسینہ آئے گا۔ (2) لوگوں کے اعمال کے پیش نظر یہ پسینہ کم و بیش ہو گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے پتا چلتا ہے، قیامت کے دن سورج لوگوں کے بالکل قریب آ جائے گا حتی کہ لوگ پسینے سے شرابور ہوں گے۔ کچھ لوگوں کو پسینہ ایڑیوں تک، کچھ کو نصف پنڈلی تک کسی کی گھٹنوں تک، کسی کے رانوں تک، کسی کی کمر تک، کسی کے کندھوں تک اور کچھ لوگوں کے منہ تک، بعض کے منہ کو لگام دیے ہو گا۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے منہ کی طرف اشارہ کیا۔ اور کچھ لوگ پسینے میں غرق ہوں گے، آپ نے اپنے سر پر ہاتھ مار کر اس بات کی وضاحت فرمائی۔ (المستدرك للحاکم: 615/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6531