ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے خالد بن یزید نے، ان سے سعید بن ابی ہلال نے، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطا بن یسار اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ہمارا رب قیامت کے دن اپنی پنڈلی کھولے گا اس وقت ہر مومن مرد اور ہر مومنہ عورت اس کے لیے سجدہ میں گر پڑیں گے۔ صرف وہ باقی رہ جائیں گے جو دنیا میں دکھاوے اور ناموری کے لیے سجدہ کرتے تھے۔ جب وہ سجدہ کرنا چاہیں گے تو ان کی پیٹھ تختہ ہو جائے گی اور وہ سجدہ کے لیے نہ مڑ سکیں گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4919]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4919
حدیث حاشیہ: پنڈلی کے ظاہری معنوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اہل حدیث ظاہری الفاظ کی تاویل نہیں کرتے بلکہ ان کی حقیقت اللہ کو سونپتے ہیں اس میں کرید کرنا بدعت جانتے ہیں، جیسا اللہ ہے ویسی اس کی پنڈلی ہے۔ آمنا باللہ کما ھو بأسمائه و صفاته اور ہم اس کی ذات اور صفات پر جیسا بھی وہ ہے ہمارا ایمان ہے اس کی صفات کے ظواہر پر ہم یقین رکھتے ہیں اور ان میں کوئی تاویل نہیں کرتے۔ ھذا ھو الصراط المستقیم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4919
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4919
حدیث حاشیہ: 1۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے سو سے زیادہ کتب تفسیر کا مطالعہ کیا ہے میں نے کسی صحابی کے متعلق نہیں پڑھا کہ انھوں نے صفات باری تعالیٰ کی کوئی تاویل کی ہو۔ ہاں (يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ) کے متعلق اختلاف ہے کچھ حضرات اس کے معنی شدت کو دور کرنا لیتے ہیں لیکن حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث کے پیش نظر اس سے کے معنی متعین کیے جا سکتے ہیں۔ (مجموعة الفتاوی: 394/6) 2۔ بہر حال اس جگہ شدت کو دور کرنا مراد نہیں بلکہ اللہ رب العزت کا اپنی پنڈلی کھولنا مراد ہےجیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4919