ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن شہاب کے بھتیجے نے اپنے چچا محمد بن مسلم سے، انہیں عروہ نے خبر دی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ان مومن عورتوں کا امتحان لیا کرتے تھے جو ہجرت کر کے مدینہ آتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا «يا أيها النبي إذا جاءك المؤمنات يبايعنك» کہ ”اے نبی! جب آپ سے مسلمان عورتیں بیعت کرنے کے لیے آئیں“ ارشاد «غفور رحيم» تک۔ عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا چنانچہ جو عورت اس شرط (آیت میں مذکور یعنی ایمان وغیرہ) کا اقرار کر لیتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے زبانی طور پر فرماتے کہ میں نے تمہاری بیعت قبول کر لی اور ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کسی عورت کا ہاتھ بیعت لیتے وقت کبھی نہیں چھوا صرف آپ ان سے زبانی بیعت لیتے تھے کہ آیت میں مذکورہ باتوں پر قائم رہنا۔ اس روایت کی متابعت یونس، معمر اور عبدالرحمٰن بن اسحاق نے زہری سے کی اور اسحاق بن راشد نے زہری سے بیان کیا کہ ان سے عروہ اور عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے کہا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4891]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4891
حدیث حاشیہ: اب ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں جو ہے آپ نے گھر کے باہر سے اپنا ہاتھ دراز کیا اور ہم نے گھر کے اندر سے، اس سے بھی مصافحہ نہیں نکلتا۔ اسی طرح ایک روایت میں ہے ایک عورت نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اس سے بھی مصافحہ ثابت نہیں ہوتا اور ابوداؤد نے مراسیل میں شعبی سے نکالا کہ آپ نے ایک چادر ہاتھ پر رکھ لی اور فرمایا میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا ان حدیثوں کو دیکھ کر بھی جو مرشد عورتوں کو مرید کرتے وقت ان سے ہاتھ ملائے وہ بدعتی اور مخالف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اسی طرح جو مرشد غیرمحرم عورتوں مریدنیوں کو بے ستر اپنے پاس آنے دے۔ مثلاً سر اور سینہ کھولے ہوئے تو وہ مرشد نہیں ہے بلکہ مضل یعنی گمراہ کرنے والا شیطان کا بھائی ہے۔ (وحیدی) جو لوگ پیشہ ور پیر مرشد بنے ہوئے ہیں ان کی اکثریت کا یہی حال ہے وہ مرید ہونے والی مستورات احکام شرعیہ پردہ حجاب وغیرہ سے اپنے لئے مستثنیٰ سمجھتے ہیں اور ان سے بغیر حجاب کے خلط ملط رکھنے میں کوئی عیب نہیں سمجھتے ایسے پیروں مرشدوں ہی کے متعلق مولانا روم نے فرمایا ہے۔ کارِ شیطان می کند نامش ولی گر ولی ایں است لعنت بر ولی ”یعنی کتنے لوگ شیطانی کام کرنے والے ولی کہلاتے ہیں اگر ایسے ہی لوگ ولی ہیں تو ایسے ولیوں پر خدا کی لعنت نازل ہو۔ “ آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4891
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4891
حدیث حاشیہ: جب صلح حدیبیہ ہوئی تو اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو مسلمان مکے سے مدینے آئے گا۔ مسلمان اسے کافروں کو لوٹانے کے پابند ہوں گے اور اس شرط کے تحت مسلمانوں نے کافروں کے مطالبے پر کچھ مسلمان لوٹا بھی دیے اسی دوران میں جب اُم کلثوم بنت عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہجرت کر کے مدینے آگئیں تو کافروں نے ان کی واپسی کا مطالبہ کر دیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کے اس مطالبےکو درست تسلیم نہ کیا کیونکہ شرط کے الفاظ کی روسے عورتیں اس شرط سےمستثنیٰ تھیں لیکن مسلمانوں کو پابند کیا گیا کہ وہ ہجرت کرنے آنے والی عورتوں سے پوچھ گچھ کریں کہ آیا وہ واقعی مسلمان ہیں؟ محض اسلام کی خاطر وطن چھوڑ کر آئی ہیں؟ کوئی دنیوی یا نفسانی خواہش تو اس ہجرت کا باعث نہیں تھی؟ کہیں خاوندوں سے لڑ کر دیا گھریلو جھگڑوں سے بے زار ہو کر یا محض سیر و سیاحت یا کوئی دوسری غرض تو ہجرت کا باعث نہیں تھی۔ جب عورتیں پوچھ گچھ میں کامیاب ہو جائیں تو انھیں کس صورت میں بھی کافروں کی طرف واپس نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ حدیث میں صراحت ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان مہاجر عورتوں سے پوچھ گچھ کرتے تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4891
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3306
´سورۃ الممتحنہ سے بعض آیات کی تفسیر۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا امتحان نہیں لیا کرتے تھے مگر اس آیت سے جس میں اللہ نے «إذا جاءك المؤمنات يبايعنك»”اے مومنوا! جب تمہارے پاس مومن عورتیں (مکہ سے) ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو، اللہ تو ان کے ایمان کو جانتا ہی ہے، اگر تم یہ جان لو کہ یہ واقعی مومن عورتیں ہیں تو ان کو ان کے کافر شوہروں کے پاس نہ لوٹاؤ، نہ تو وہ کافروں کے لیے حلال ہیں نہ کافر ان کے لیے حلال ہیں“(الممتحنۃ: ۱۰)، کہا ہے ۱؎۔ معمر کہتے ہیں: ابن طاؤس نے مجھے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ ان کے ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3306]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اے مومنوا! جب تمہارے پاس مومن عورتیں (مکہ سے) ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو، اللہ تو ان کے ایمان کو جانتا ہی ہے، اگر تم یہ جان لو کہ یہ واقعی مومن عورتیں ہیں تو ان کو ان کے کافر شوہروں کے پاس نہ لوٹاؤ، نہ تو وہ کافروں کے لیے حلال ہیں نہ کافر ان کے لیے حلال ہیں (الممتحنة: 10) اورامتحان لینے کا مطلب یہ ہے کہ کافر ہوں اور اپنے شوہروں سے ناراض ہو کر، یا کسی مسلمان کے عشق میں گرفتار ہو کر آئی ہوں، اور جب تحقیق ہو جائے تب بھی صلح حدیبیہ کی شق کے مطابق ان عورتوں کو واپس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مسلمان عورت کافرمرد کے لیے حرام ہے، (مردوں کو بھلے واپس کیا جائیگا) 2؎: اس سے اشارہ اس بات کا ہے کہ آپﷺ عورتوں سے بیعت زبانی لیتے تھے، اور بعض روایات میں آتا ہے کہ آپﷺ نے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھوں پررکھ کر بیعت لی وه اکثرمرسل روایات ہیں، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ آپﷺ نے اپنے اور ان کے ہاتھوں کے درمیان کوئی حائل (موٹا کپڑا وغیرہ) رکھا ہو، جیساکہ بعض روایات میں آتا ہے (لَیْسَ فِي نُسْخَةِ الألْبَانِي، وهُوَضَعِیْفٌ لِأَجْلِ أَبِي نَصْرِالأَسدِي فَهُوَمَجْهُوْلٌ)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3306
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4182
4182. ابن شہاب نے کہا: مجھے عروہ بن زبیر ؓ نے خبر دی کہ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: بےشک رسول اللہ ﷺ درج ذیل آیت کے مطابق مہاجر خواتین کا امتحان لیتے تھے: ”اے نبی! جب تمہارے پاس اہل ایمان خواتین بیعت کے لیے آئیں۔“ اور ان کے چچا (محمد بن مسلم زہری) سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمیں وہ حدیث بھی معلوم ہے جب اللہ تعالٰی نے اپنے رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا تھا کہ جو مسلمان عورتیں ہجرت کر کے چلی آئی ہیں ان کے مشرک شوہروں کو وہ سب کچھ واپس کر دیا جائے جو انہوں نے اپنی بیویوں پر خرچ کیا ہے۔ اور ہمیں ابوبصیر ؓ کے واقعے کی خبر بھی پہنچی ہے، پھر انہوں نے تفصیل سے اس کا ذکر کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4182]
حدیث حاشیہ: چونکہ معاہدہ کی شرط میں عورتوں کا کوئی ذکر نہ تھا اس لیے جب عورتوں کا مسئلہ سامنے آیا تو خود قرآن مجید میں حکم نازل ہوا کہ عورتوں کو مشرکین کے حوالے نہ کیا جائے کہ اس سے معاہدہ کی خلاف ورزی لازم نہیں آتی بشرطیکہ تم کو یقین ہو جائے کہ وہ عورتیں محض ایمان و اسلام کی خاطر پورے ایمان کے ساتھ گھر چھوڑ کر آئی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4182