مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1007
1007. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺ نے لوگوں کی اسلام سے سرتابی دیکھی تو بددعا کی: ”اے اللہ! انہیں سات برس تک قحط سالی میں مبتلا کر دے جیسا کہ حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں قحط پڑا تھا۔“ چنانچہ قحط نے انہیں ایسا دبوچا کہ ہر چیز نیست و نابود ہو گئی یہاں تک کہ لوگوں نے چمڑے، مردار اور گلے سڑے جانور کھانے شروع کر دیے۔ اور ان میں سے اگر کوئی آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک کی وجہ سے اسے دھواں سا دکھائی دیتا۔ آخر ابوسفیان نے آ کر آپ کی خدمت میں عرض کی: اے محمد! آپ اللہ کی اطاعت اور اقرباء پروری کا حکم دیتے ہیں، آپ کی قوم مری جا رہی ہے، آپ ان کے لیے اللہ سے دعا فرمائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ ﴿١٠﴾ ) تا ﴿يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَىٰ﴾ ”اے نبی! اس دن کا انتظار کرو جب آسمان سے ایک صاف دھواں ظاہر ہو گا“ اس فرمان الہٰی تک” جب ہم انہیں سختی سے پکڑیں گے۔“ حضرت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1007]
حدیث حاشیہ:
یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے۔
حضور اکرم ﷺ مکہ میں تشریف رکھتے تھے۔
قحط کی شدت کا یہ عالم تھا کہ قحط زدہ علاقے ویرانے بن گئے تھے۔
ابو سفیان نے اسلام کی اخلاقی تعلیمات اور صلہ رحمی کا واسطہ دے کر رحم کی درخواست کی۔
حضور اکرم ﷺ نے پھر دعا فرمائی اور قحط ختم ہوا یہ حدیث امام بخاری ؒ استسقاء میں اس لیے لائے کہ جیسے مسلمانوں کے لیے بارش کی دعا کرنا مسنون ہے، اسی طرح کافروں پر قحط کی بد دعا کرنا جائز ہے۔
روایت میں جن مسلمان مظلوموں کا ذکر ہے یہ سب کافروں کی قید میں تھے۔
آپ کی دعا کی برکت سے اللہ نے ان کو چھوڑا دیا اور وہ مدینہ میں آپ کے پاس آگئے۔
سات سال تک حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں قحط پڑا تھا جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے۔
غفار اور اسلم یہ دو قومیں مدینہ کے ارد گرد رہتی تھیں۔
غفار قدیم سے مسلمان تھے اور اسلم نے آپ سے صلح کر لی تھی۔
پوری آیت کا ترجمہ یہ ہے”اس دن کا منتظر رہ جس دن آسمان کھلا ہوا دھواں لے کر آئے گا جو لوگوں کو گھیر ے گا۔
یہی تکلیف کا عذاب ہے اس وقت لوگ کہیں گے مالک ہمارے!یہ عذاب ہم پرسے اٹھا دے ہم ایمان لاتے ہیں“ آخرتک۔
یہاں سورۃ دخان میں بطش اور دخان کا ذکر ہے۔
اور سورۃ فرقان میں:
﴿فسوف یکون لزاما﴾ (الفرقان: 77)
لزام یعنی کافروں کے لیے قید ہونے کا ذکر ہے۔
یہ تینوں باتیں آپ کے عہد میں ہی پوری ہوگئی تھیں۔
دخان سے مراد قحط تھا جو اہل مکہ پر نازل ہوا جس میں بھوک کی وجہ سے آسمان دھواں نظر آتا تھا اور (بطشة الکبری) (بڑی پکڑ)
سے کافروں کا جنگ بدر میں مارا جانا مراد ہے اور لزام ان کا قید ہونا۔
سورۃ روم کی آیت میں یہ بیان تھا کہ رومی کافر ایرانیوں سے مغلوب ہوگئے لیکن چند سال میں رومی پھر غالب ہو جائیں گے۔
یہ بھی ہو چکا۔
آئندہ حدیث میں شعر (ستسقي الغمام الخ)
ابو طالب کے ایک طویل قصیدے کا ہے جو قصیدہ ایک سودس (110)
اشعار پر مشتمل ہے جسے ابو طالب نے آنحضرت ﷺ کی شان میں کہا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1007
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4809
4809. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے فرمایا: لوگو! جس شخص کو کسی چیز کا علم ہو تو وہ اسے بیان کرے اور جسے علم نہ ہو، اسے الله أعلم کہہ دینا چاہیے کیونکہ یہ بھی علم ہی ہے کہ جو چیز نہ جانتا ہو اس کے متعلق کہہ دے کہ اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی ﷺ سے کہہ دیا تھا: ”آپ کہہ دیں! میں اس تبلیغ پر کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والا ہی ہوں۔“ اب میں تمہیں دھوئیں کے متعلق بتاتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے اسے قبول کرنے میں تاخیر کی۔ تب آپ ﷺ نے ان کے خلاف بددعا کی: ”اے اللہ! تو ان پر یوسف ؑ کے زمانے کے سات سالوں کی طرح سات سالوں کا قحط بھیج کر میری مدد فرما۔“ چنانچہ قحط نے ان کو پکڑا اور اتنا زبردست پکڑا کہ ہر چیز کو اس نے ختم کر دیا۔ لوگ مردار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4809]
حدیث حاشیہ:
یہ آخری جملہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آج دنیا کا عذاب جو قحط کی صورت میں ان پر نازل ہوا ہے ان سے دور کر دیا جائے توکیا قیامت میں بھی ایسا ممکن ہے؟ نہیں وہاں تو ان کی بڑی سخت پکڑ ہوگی اور کوئی چیز اللہ کے عذاب سے انہیں نہ بچا سکے گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4809
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4821
4821. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: واقعہ یہ ہے کہ جب قریش نے نبی ﷺ کی نافرمانی کی تو آپ نے ان پر قحط سالی کی بد دعا کی، جیسے حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں قحط سالی آئی تھی۔ لوگوں کو قحط سالی اور مشقت نے اس طرح پکڑا کہ وہ ہڈیاں کھانے لگے۔ اس دوران میں جب آدمی آسمان کی طرف دیکھتا تو اس مشقت کی وجہ سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا تھا۔ اس وقت اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی: ”آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان نمایاں دھواں لائے گا۔ وہ دھواں لوگوں کو ڈھانپ لے گا۔ یہ دردناک عذاب ہے۔“ پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک وفد آیا اور انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی سے قبیلہ مضر کے لیے بارش کی دعا فرمائیں وہ تو ہلاک و برباد ہو چکے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تم بڑے جراءت مند ہو کر مضر قبیلے کے لیے دعا کی سفارش کرتے ہو۔“ بہرحال آپ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4821]
حدیث حاشیہ:
قال لمضر أي قال علیه السلام عجیبا أتأمرني أن أستسقي لمضر مع ما معھم علیه من معصیة اللہ والإشراك به إنك لجري أي ذو جرءة حیث تشرك باللہ وتطلب رحمته فاستسقی علیه السلام الخ (قسطلانی)
یعنی آپ نے مضر قبیلہ کے لئے تعجب سے فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نافرمان اور مشرک ہیں۔
تم بڑے جرأت مند ہو جو ایسے مشرکین کے لئے اللہ سے دعا کراتے ہو پھر آپ نے ان کے لئے بارش کی دعا فرمائی۔
(صلی اللہ علیه وسلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4821
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4824
4824. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے حضرت محمد ﷺ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور فرمایا ہے: ”آپ کہہ دیں: میں تبلیغ پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف سے باتیں بناتا ہوں۔“ رسول اللہ ﷺ نے جب قریش کو دیکھا کہ انہوں نے نافرمانی کی ہے تو اللہ تعالٰی سے دعا مانگی: ”اے اللہ! ان پر سات برس کا قحط مسلط فرما جس طرح حضرت یوسف ؑ کی قوم پر بھیجا تھا، اس طرح میری ان کے خلاف مدد فرما۔“ چنانچہ انہیں ایسی قحط سالی نے پکڑا کہ جس نے ہر چیز ختم کر دی حتی کہ وہ ہڈیاں اور چمڑے کھانے لگے۔ ان (راویانِ حدیث: سلیمان اور منصور) میں سے ایک نے کہا: حتی کہ وہ (مشرکین مکہ) چمڑے اور مردار بھی کھا گئے۔ زمین سے دھوئیں کی طرح کچھ برآمد ہوتا تھا، آپ کے پاس ابوسفیان آئے اور عرض کیا: اے محمد! آپ کی قوم ہلاک ہو رہی ہے، اللہ سے دعا کریں کہ وہ لوگوں سے عذاب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4824]
حدیث حاشیہ:
یہ اگلی روایتوں کے خلاف نہیں ہے جن میں یہ مذکور ہے کہ دیکھنے والے کو زمین وآسمان کے بیچ میں ایک دھواں سا معلوم ہوتا کیونکہ احتمال ہے کہ یہ دھواں زمین سے آسمان تک پھیلا ہو یا دونوں باتیں ہوئی ہوں، اکثر ایسا ہوتا ہے جب بارش بالکل نہیں ہوتی تو زمین بالکل گرم ہو کر اس میں سے ایک مادہ دھواں کی طرح نکلتا ہے۔
اٹالیا کی طرف تو ایسے (آتش فشاں)
پہاڑ موجود ہیں جن میں سے رات دن آگ نکلتی ہے وہاں دھواں رہتا ہے اور کبھی کبھی زمین میں سے یہ گرم مادہ نکل کر دور دور تک بہتا چلا گیا ہے اور جو چیز سامنے آئی درخت آدمی جانور وغیرہ اس کو جلا کر خاک سیاہ کر دیا ہے۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4824
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4693
4693. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ جب قریش نے نبی ﷺ پر ایمان لانے میں تاخیر کی تو آپ نے ان کے خلاف بد دعا کی: ”اے اللہ! ان پر حضرت یوسف ؑ کے زمانے کا سا قحط نازل فرما۔“ چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ ہر چیز ملیا میٹ ہو گئی، کوئی چیز نہیں ملتی تھی اور اہل مکہ ہڈیاں کھانے پر مجبور ہو گئے تھے، حتی کہ ان کی یہ کیفیت ہو گئی کہ کوئی شخص آسمان کی طرف نظر اٹھاتا تو اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا: ”آپ اس دن کے منتظر رہیں جبکہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔“ اور فرمایا: ”بےشک ہم عذاب کو تھوڑا سا دور کر دیں گے تو تم پھر اپنی اسی حالت پر آ جاؤ گے۔“ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: عذاب سے یہی قحط کا عذاب مراد ہے کیونکہ قیامت کے دن کا عذاب تو ٹلنے والا نہیں۔ الغرض دخان اور بطشہ جن کا ذکر سورہ دخان میں ہے، وہ آ چکا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4693]
حدیث حاشیہ:
اس روایت کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ اس میںحضرت یوسف ؑ کا ذکر ہے، قسطلانی نے کہا اس حدیث کی دوسری روایت میں یوں ہے کہ جب قریش پر قحط کی سختی ہوئی تو ابو سفیان آنحضرت ﷺ کے پاس آیا کہنے لگا آپ کنبہ پروری کا حکم دیتے ہیں اور آپ کی قوم کے لوگ بھوکے مر رہے ہیں ان کے لئے دعا فرمایئے۔
آپ نے دعا کی اور قریش کا قصور معاف کر دیا جیسے حضرت یوسف ؑ نے بھائیوں کا قصور معاف کردیا تھا۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4693
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4774
4774. حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ایک شخص نے قبیلہ کندہ میں حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ قیامت کے دن ایک دھواں اٹھے گا جو منافقین کی قوت سماعت و بصارت کو ختم کر دے گا لیکن مومن پر اس کا اچر صرف زکام جیسا ہو گا۔ ہم اس کی بات سن کر بہت گھبرائے۔ میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ اس وقت وہ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ (یہ سن کر) وہ بہت ناراض ہوئے اور سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: جو شخص علم رکھتا ہو وہ تو بیان کرے اور جو علم نہیں رکھتا وہ کہے کہ اللہ بہتر جاننے والا ہے۔ اور یہ بھی علم ہے کہ انسان اپنی لا علمی کا اعتراف کرے اور صاف کہہ دے کہ میں نہیں جانتا کیونکہ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی سے فرمایا ہے: ”کہہ دیجیے! میں اپنی تبلیغ و دعوت پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں ہی سے ہوں۔“ اصل واقعہ یہ ہے کہ قریش نے جب اسلام لانے میں تاخیر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4774]
حدیث حاشیہ:
رومی اہل کتاب تھے اور اہل فارس آتش پرست تھے جن کی رومیوں پر فتح ہونے سے مشرکین نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک دن اس طرح سے ہم بھی مسلمانوں پر غلبہ پائیں گے اور رومیوں کی طرح مسلمان بھی مغلوب ہو جائیں گے۔
اس پر اللہ پاک نے پیش گوئی فرمائی کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ رومی اہل فارس پر فتح پائیں گے۔
چنانچہ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4774
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1007
1007. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺ نے لوگوں کی اسلام سے سرتابی دیکھی تو بددعا کی: ”اے اللہ! انہیں سات برس تک قحط سالی میں مبتلا کر دے جیسا کہ حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں قحط پڑا تھا۔“ چنانچہ قحط نے انہیں ایسا دبوچا کہ ہر چیز نیست و نابود ہو گئی یہاں تک کہ لوگوں نے چمڑے، مردار اور گلے سڑے جانور کھانے شروع کر دیے۔ اور ان میں سے اگر کوئی آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک کی وجہ سے اسے دھواں سا دکھائی دیتا۔ آخر ابوسفیان نے آ کر آپ کی خدمت میں عرض کی: اے محمد! آپ اللہ کی اطاعت اور اقرباء پروری کا حکم دیتے ہیں، آپ کی قوم مری جا رہی ہے، آپ ان کے لیے اللہ سے دعا فرمائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ ﴿١٠﴾ ) تا ﴿يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَىٰ﴾ ”اے نبی! اس دن کا انتظار کرو جب آسمان سے ایک صاف دھواں ظاہر ہو گا“ اس فرمان الہٰی تک” جب ہم انہیں سختی سے پکڑیں گے۔“ حضرت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1007]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جن چار چیزوں کے وقوع پذیر ہونے کا ذکر فرمایا ہے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ ﴿الم ﴿١﴾ غُلِبَتِ الرُّومُ ﴿٢﴾ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ ﴿٣﴾ )
”الم۔
رومی مغلوب ہو گئے، قریبی زمین میں، تاہم وہ مغلوب ہونے کے بعد پھر غالب آ جائیں گے۔
“ (الروم1: 30۔
3)
اس کے متعلق مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ واقعہ گزر چکا ہے۔
٭ ﴿فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ ﴿١٠﴾ )
”آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان سے صاف دھواں ظاہر ہو گا۔
“ (الدخان: 10: 44)
جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ یہ دھواں علامات قیامت سے ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حقیقی دھواں نہیں بلکہ وہ ہے جو قریش کو قحط کے زمانے میں بھوک کی وجہ سے محسوس ہوتا تھا۔
٭ ﴿يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَىٰ﴾ ”جس دن ہم بڑی سخت گرفت کریں گے۔
“ (الدخان: 16: 44)
جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے مراد قیامت کا دن ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس سے مراد بدر کے دن کفار کا شکست کھانا اور قتل ہونا ہے۔
٭ ﴿فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا ﴿٧٧﴾ )
”تم نے اس کی تکذیب کر دی ہے، اب جلد ہی اس کی سزا پاؤ گے۔
“ (الفرقان77: 25)
جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد کفار کو پکڑ کر جہنم میں ڈالنا ہے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا موقف ہے کہ اس سے مراد بدر کے موقع پر کافروں کو قید کرنا ہے جو گزر چکا ہے۔
ان کی تفصیل آئندہ آیات کی تفسیر میں آئے گی۔
بإذن اللہ۔
(2)
اس حدیث میں ہجرت سے پہلے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔
اس میں قحط کی شدت کا یہ عالم تھا کہ قحط شدہ علاقے ویرانے کا نقشہ پیش کر رہے تھے۔
بالآخر رسول اللہ ﷺ نے ابو سفیان ؓ کی درخواست پر دعا فرمائی، تب قحط ختم ہوا۔
(3)
یہ حدیث امام بخاری ؒ نے کتاب الاستسقاء میں اس لیے بیان کی ہے کہ جیسے مسلمانوں کے لیے بارش کی دعا کرنا مسنون ہے، ویسے ہی کافروں پر قحط اور خشک سالی کی دعا کرنا بھی مشروع ہے، لیکن جن کفار سے معاہدۂ صلح ہو ان کے لیے بددعا کرنا جائز نہیں الا یہ کہ وہ کسی عہد شکنی کے مرتکب ہوں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1007
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4693
4693. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ جب قریش نے نبی ﷺ پر ایمان لانے میں تاخیر کی تو آپ نے ان کے خلاف بد دعا کی: ”اے اللہ! ان پر حضرت یوسف ؑ کے زمانے کا سا قحط نازل فرما۔“ چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ ہر چیز ملیا میٹ ہو گئی، کوئی چیز نہیں ملتی تھی اور اہل مکہ ہڈیاں کھانے پر مجبور ہو گئے تھے، حتی کہ ان کی یہ کیفیت ہو گئی کہ کوئی شخص آسمان کی طرف نظر اٹھاتا تو اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا: ”آپ اس دن کے منتظر رہیں جبکہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔“ اور فرمایا: ”بےشک ہم عذاب کو تھوڑا سا دور کر دیں گے تو تم پھر اپنی اسی حالت پر آ جاؤ گے۔“ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: عذاب سے یہی قحط کا عذاب مراد ہے کیونکہ قیامت کے دن کا عذاب تو ٹلنے والا نہیں۔ الغرض دخان اور بطشہ جن کا ذکر سورہ دخان میں ہے، وہ آ چکا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4693]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایات میں ہے کہ جب قریش پر قحط کی سختی ہوئی تو ابو سفیان نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی:
آپ کنبہ پروری اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اور آپ کی قوم کے لوگ بھوکے مر رہے ہیں ان کے لیے دعا فرمائیں کہ قحط سالی کا عذاب ٹل جائے۔
(صحیح البخاری، الاستسقاء، حدیث: 1007)
آپ نے دعا فرمائی اور قریش کا قصور معاف کردیا جیسے یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں اور عزیز مصر کی بیوی کو معاف کردیا تھا۔
عنوان اور اس حدیث میں یہی مناسبت ہے۔
(فتح الباری: 463/8)
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4693
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4774
4774. حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ایک شخص نے قبیلہ کندہ میں حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ قیامت کے دن ایک دھواں اٹھے گا جو منافقین کی قوت سماعت و بصارت کو ختم کر دے گا لیکن مومن پر اس کا اچر صرف زکام جیسا ہو گا۔ ہم اس کی بات سن کر بہت گھبرائے۔ میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ اس وقت وہ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ (یہ سن کر) وہ بہت ناراض ہوئے اور سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: جو شخص علم رکھتا ہو وہ تو بیان کرے اور جو علم نہیں رکھتا وہ کہے کہ اللہ بہتر جاننے والا ہے۔ اور یہ بھی علم ہے کہ انسان اپنی لا علمی کا اعتراف کرے اور صاف کہہ دے کہ میں نہیں جانتا کیونکہ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی سے فرمایا ہے: ”کہہ دیجیے! میں اپنی تبلیغ و دعوت پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں ہی سے ہوں۔“ اصل واقعہ یہ ہے کہ قریش نے جب اسلام لانے میں تاخیر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4774]
حدیث حاشیہ:
1۔
عہدرسالت میں دو بڑی طاقتیں تھیں:
ایک فارس (ایران)
کی اور دوسری روم کی۔
اول الذکر حکومت آتش پرست اور دوسری عیسائی اہل کتاب کی تھی۔
مشرکین مکہ کی ہمدردیاں فارس کے ساتھ تھیں کیونکہ وہ غیر اللہ کے پجاری تھے جبکہ مسلمانوں کی ہمدردیاں روم کی عیسائی حکومت کے ساتھ تھیں کیونکہ عیسائی بھی مسلمانوں کی طرح اہل کتاب تھے اور وحی و رسالت پر ایمان رکھتے تھے۔
ان دونوں حکومتوں کی آپس میں ٹھنی رہتی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے چند سال بعد ایسا ہوا کہ فارس کی حکومت عیسائی حکومت پر غالب آگئی جس پر مشرکین کو خوشی اور مسلمانوں کو غم ہوا۔
اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں:
الم (1)
﴿غُلِبَتِ الرُّومُ﴾ (2)
﴿فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ﴾ 2۔
ان آیات میں پیش گوئی کی گئی کہ چند سال کے اندر رومی پھرغالب آجائیں گے۔
بظاہر یہ پشین گوئی ناممکن العمل معلوم ہوتی تھی لیکن مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے یقین تھا کہ ایسا ضرور ہو کر رہے گا، چنانچہ رومی نو سال کی مدت کےاندر اندر، یعنی ساتویں سال غالب آگئے، جس سے مسلمانوں کو بہت خوشی ہوئی۔
(جامع الترمذي، تفسیرالقرآن، حدیث: 3193)
3۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ رومیوں کے غلبے کا واقعہ بھی وقوع پذیر ہوچکا ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4774
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4809
4809. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے فرمایا: لوگو! جس شخص کو کسی چیز کا علم ہو تو وہ اسے بیان کرے اور جسے علم نہ ہو، اسے الله أعلم کہہ دینا چاہیے کیونکہ یہ بھی علم ہی ہے کہ جو چیز نہ جانتا ہو اس کے متعلق کہہ دے کہ اللہ ہی زیادہ جانتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی ﷺ سے کہہ دیا تھا: ”آپ کہہ دیں! میں اس تبلیغ پر کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والا ہی ہوں۔“ اب میں تمہیں دھوئیں کے متعلق بتاتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے اسے قبول کرنے میں تاخیر کی۔ تب آپ ﷺ نے ان کے خلاف بددعا کی: ”اے اللہ! تو ان پر یوسف ؑ کے زمانے کے سات سالوں کی طرح سات سالوں کا قحط بھیج کر میری مدد فرما۔“ چنانچہ قحط نے ان کو پکڑا اور اتنا زبردست پکڑا کہ ہر چیز کو اس نے ختم کر دیا۔ لوگ مردار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4809]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وضاحت کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ ایک شخص نے قبیلہ کنندہ میں حدیث بیان کرتے ہوئے کہا:
قیامت کے دن ایک دھواں اٹھے گا جو منافقین کی قوت بصارت وسماعت کو ختم کردے گا لیکن مومن پر اس کا اثر صرف زکام جیسا ہوگا۔
مسروق کہتے ہیں کہ ہم اس کی یہ بات سن کر بہت گھبرائے اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے یہ وضاحت فرمائی۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4774)
2۔
کیا قیامت کا عذاب بھی ان سے دور کیا جائے گا؟ یہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے۔
مقصد یہ ہے کہ اس سے مراد قیامت کا عذاب نہیں بلکہ دنیا میں سزا کا بیان ہے۔
قیامت کے عذاب میں تخفیف ممکن نہیں بلکہ وہاں تو ان کی سخت پکڑ ہوگی اور کوئی چیز بھی انھیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتے گی۔
3۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مقصد یہ ہے کہ عام معاملات زندگی میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکلف سے منع فرمایا ہے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھے کہ آپ نے فرمایا:
ہمیں تکلفات سے منع کیا گیا ہے۔
(صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب و السنة، حدیث: 7293)
اس سے معلوم ہوا کہ لباس، خوراک، رہائش اور دیگر معاملات زندگی میں تکلف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
اسلام میں سادگی اور بے تکلفی اختیار کرنے کی تلقین وترغیب ہے۔
لیکن آج کل میعار زندگی بلند کرنے کے لیے تکلف اصحاب حیثیت لوگوں کا شعار اور وتیرہ بن چکا ہے۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4809
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4821
4821. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: واقعہ یہ ہے کہ جب قریش نے نبی ﷺ کی نافرمانی کی تو آپ نے ان پر قحط سالی کی بد دعا کی، جیسے حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں قحط سالی آئی تھی۔ لوگوں کو قحط سالی اور مشقت نے اس طرح پکڑا کہ وہ ہڈیاں کھانے لگے۔ اس دوران میں جب آدمی آسمان کی طرف دیکھتا تو اس مشقت کی وجہ سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا تھا۔ اس وقت اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی: ”آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان نمایاں دھواں لائے گا۔ وہ دھواں لوگوں کو ڈھانپ لے گا۔ یہ دردناک عذاب ہے۔“ پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک وفد آیا اور انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی سے قبیلہ مضر کے لیے بارش کی دعا فرمائیں وہ تو ہلاک و برباد ہو چکے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”تم بڑے جراءت مند ہو کر مضر قبیلے کے لیے دعا کی سفارش کرتے ہو۔“ بہرحال آپ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4821]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف ہے کہ "دخان" کا واقعہ گزر چکا ہے لیکن ہمارے رجحان کے مطابق "دخان" دو ہیں۔
ان میں سے ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ظاہر ہو چکا ہے اور دوسرا قرب قیامت کے وقت ظاہر ہو گا جیسا کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم قیامت کا ذکر کر رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم کیا گفتگو کر رہے ہو؟“ ہم نے کہا قیامت کا ذکر کر رہیں ہیں۔
آپ نے فرمایا:
”بلا شبہ وہ قیامت ہر گز قائم نہیں ہو گی حتی کہ تم اس سے پہلے دس نشانیاں دیکھ لو۔
آپ نے دھویں اور دجال کا ذکر کیا۔
“ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7285۔
(2901)
2۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ دخان دو ہیں ایک تو گزر چکا ہے اور دوسرا وہ ہو گا جس سے زمین و آسمان کا خلا بھرجائے گا مومن پر تو اس کاا ثر زکام جیسا ہو گا۔
مگر کافروں کے کان اس سے پھٹ جائیں گے۔
(التذکرة للقرطبي، ص: 655)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4821
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4823
4823. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے آپ کو جھٹلایا اور آپ کے ساتھ سرکشی کی روش اختیار کی، آپ نے ان کے لیے بددعا کی: ”اے اللہ! میری ان کے خلاف یوسف ؑ کے دور جیسے قحط کے ذریعے سے مدد فرما۔“ چنانچہ قحط پڑا اور ہر چیز ختم ہو گئی حتی کہ لوگ مردار کھانے لگے۔ اگر کوئی شخص کھڑا ہو کر آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک اور فاقے کی وجہ سے آسمان اور اس کے درمیان دھواں ہی دھواں نظر آتا، پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی: ”آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان سے ایک نمایاں دھواں نمودار ہو گا۔۔ بےشک ہم تھوڑی دیر کے لیے عذاب دور کرنے والے ہیں، بلاشبہ تم دوبارہ وہی کرنے والے ہو۔“ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: کیا قیامت کا عذاب بھی ان سے دور کر دیا جائے گا؟ نیز فرمایا: سخت پکڑ (ٱلْبَطْشَةَ ٱلْكُبْرَىٰٓ)۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4823]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے متعلق ہماری گزارشات پہلے گزر چکی ہیں کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے کے مطابق "الدخان" کا واقعہ گزر چکا ہے لیکن قریش کو جو آسمان کے نیچے دھواں نظر آتا تھا وہ ان کا وہم تھا وہ حقیقی دھواں نہیں تھا۔
لیکن آیت میں جس دھویں کا ذکر ہے اس سے مراد حقیقی دھواں ہے جو لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ارشاد الٰہی:
”یہ درد ناک عذاب ہے۔
“ کے معنی یہ ہیں کہ جب دھواں انھیں پریشان کرے گا تو لوگوں سے کہا جائے گا۔
کہ یہ درد ناک عذاب ہے اس کے متعلق ہم اپنا موقف پہلے بیان کر چکے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4823
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4824
4824. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے حضرت محمد ﷺ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور فرمایا ہے: ”آپ کہہ دیں: میں تبلیغ پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف سے باتیں بناتا ہوں۔“ رسول اللہ ﷺ نے جب قریش کو دیکھا کہ انہوں نے نافرمانی کی ہے تو اللہ تعالٰی سے دعا مانگی: ”اے اللہ! ان پر سات برس کا قحط مسلط فرما جس طرح حضرت یوسف ؑ کی قوم پر بھیجا تھا، اس طرح میری ان کے خلاف مدد فرما۔“ چنانچہ انہیں ایسی قحط سالی نے پکڑا کہ جس نے ہر چیز ختم کر دی حتی کہ وہ ہڈیاں اور چمڑے کھانے لگے۔ ان (راویانِ حدیث: سلیمان اور منصور) میں سے ایک نے کہا: حتی کہ وہ (مشرکین مکہ) چمڑے اور مردار بھی کھا گئے۔ زمین سے دھوئیں کی طرح کچھ برآمد ہوتا تھا، آپ کے پاس ابوسفیان آئے اور عرض کیا: اے محمد! آپ کی قوم ہلاک ہو رہی ہے، اللہ سے دعا کریں کہ وہ لوگوں سے عذاب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4824]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں ہے کہ دھواں زمین سے نکلتا تھا جبکہ دوسری روایات میں ہے کہ یہ دھواں دیکھنے والے اور آسمان کے درمیان تھا؟ ان روایات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ یہ بھی کفار کا گمان تھا کہ دھواں زمین سے نکلتا ہے جیسے وہ گمان تھا کہ ان کے اور آسمان کے درمیان دھواں ہے لہذا دونوں احادیث میں کوئی منافات نہیں ہے۔
2۔
اس کی ایک توجیہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ مسلسل بارش کے بند رہنے کی وجہ سے فضا بالکل گرم ہو گئی تھی تو زمین سے بخارات اوپر کو اٹھنے لگے پھر فضا میں چھا گئے اس لیے ان روایات میں کوئی تضاد نہیں کہ شروع میں دھواں زمین سے نکلتا نظر آتا۔
پھر آخر میں آسمان تک نظر آنے لگا۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4824