1. باب: آیت کی تفسیر ”اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا ہی نہیں سکتے تھے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان، تمہاری آنکھیں اور تمہاری جلدیں گواہی دیں گی، بلکہ تمہیں تو یہ خیال تھا کہ اللہ کو بہت سی ان چیزوں کی خبر ہی نہیں ہے جنہیں تم کرتے رہے“۔
طاؤس نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا «ائتيا طوعا» کا معنی خوشی سے اطاعت قبول کرو۔ «قالتا أتينا طائعين» ہم نے خوشی خوشی اطاعت قبول کی۔ «أعطينا» ہم نے خوشی سے دیا۔ اور منہال بن عمرو اسدی نے سعید بن جبیر سے روایت کیا کہ ایک شخص عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہنے لگا میں تو قرآن میں ایک کے ایک خلاف چند باتیں پاتا ہوں۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا) بیان کر۔ وہ کہنے لگا ایک آیت میں تو یوں ہے «فلا أنساب بينهم يومئذ ولا يتساءلون»”قیامت کے دن ان کے درمیان کوئی رشتہ ناطہٰ باقی نہیں رہے گا اور نہ وہ باہم ایک دوسرے سے کچھ پوچھیں گے۔“ دوسری آیت میں یوں ہے «وأقبل بعضهم على بعض يتساءلون»”اور قیامت کے دن ان میں بعض بعض کی طرف متوجہ ہو کر ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔“(اس طرح دونوں آیتوں کے بیان مختلف ہیں) ایک آیت میں یوں ہے «ولا يكتمون الله حديثا»”وہ اللہ سے کوئی بات نہیں چھپا سکیں گے“ دوسری آیت میں ہے قیامت کے دن مشرکین کہیں گے «ربنا ما كنا مشركين»”ہم اپنے رب اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم مشرک نہیں تھے۔“ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنا مشرک ہونا چھپائیں گے (اس طرح ان دونوں آیتوں کے بیان مختلف ہیں) ایک جگہ فرمایا «انتم اشد خلقا أم السماء بناها» آخر تک۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ آسمان زمین سے پہلے پیدا ہوا۔ پھر سورۃ حم سجدہ میں فرمایا «أئنكم لتكفرون بالذي خلق الأرض في يومين» اس سے نکلتا ہے کہ زمین آسمان سے پہلے پیدا ہوئی ہے (اس طرح دونوں میں اختلاف ہے) اور فرمایا «وكان الله غفورا رحيما»”اللہ بخشنے والا مہربان تھا“ «عزيزا حكيما»، «سميعا بصيرا» ان کے معانی سے نکلتا ہے کہ اللہ ان صفات سے زمانہ ماضی میں موصوف تھا، اب نہیں ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب میں کہا کہ یہ جو فرمایا «فلا أنساب بينهم»”اس دن کوئی ناطہٰ رشتہ باقی نہ رہے گا“ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب پہلا صور پھونکا جائے گا اور آسمان و زمین والے سب بیہوش ہو جائیں گے اس وقت رشتہ ناطہٰ کچھ باقی نہ رہے گا، نہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے (دہشت کے مارے سب نفسی نفسی پکاریں گے) پھر یہ جو دوسری آیت میں ہے «أقبل بعضهم على بعض» ایک دوسرے کے سامنے آ کر پوچھ تاچھ کریں گے، یہ دوسری دفعہ صور پھونکے جانے کے بعد کا حال ہے (جب میدان محشر میں سب دوبارہ زندہ ہوں گے اور کسی قدر ہوش ٹھکانے آئے گا) اور یہ جو مشرکین کا قول نقل کیا ہے «ربنا ما كنا مشركين» ہمارے رب کی قسم ہم مشرک نہ تھے اور دوسری جگہ فرمایا «ولا يكتمون الله حديثا» اللہ سے وہ کوئی بات نہ چھپا سکیں گے تو بات یہ ہے کہ اللہ پاک قیامت کے دن خالص توحید والوں کے گناہ بخش دے گا اور مشرکین آپس میں صلاح و مشورہ کریں گے کہ چلو ہم بھی چل کر دربار الٰہی میں کہیں کہ ہم مشرک نہ تھے۔ پھر اللہ پاک ان کے منہ پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ پاؤں بولنا شروع کر دیں گے۔ اس وقت ان کو معلوم ہو جائے گا کہ اللہ سے کوئی بات چھپ نہیں سکتی اور اسی وقت کافر یہ آرزو کریں گے کہ کاش وہ دنیا میں مسلمان ہوتے (اس طرح یہ دونوں آیتیں مختلف نہیں ہیں) اور یہ جو فرمایا «وخلق الأرض في يومين» کہ زمین کو دو دن میں پیدا کیا اس کا مطلب یہ کہ اسے پھیلایا نہیں (صرف اس کا مادہ پیدا کیا) پھر آسمان کو پیدا کیا اور دو دن میں اس کو برابر کیا (ان کے طبقات مرتب کئے) اس کے بعد زمین کو پھیلایا اور اس کا پھیلانا یہ ہے کہ اس میں سے پانی نکالا، گھاس چارہ پیدا کیا، پہاڑ، جانور، اونٹ وغیرہ ٹیلے جو جو ان کے بیچ میں ہیں وہ سب پیدا کئے۔ یہ سب دو دن میں کیا۔ «دحاها» کا مطلب یہ ہے کہ زمین دو دن میں پیدا ہوئی جیسے فرمایا «خلق الأرض في يومين» تو زمین مع اپنی سب چیزوں کے چار دن میں بنی اور آسمان دو دن میں بنے (اس طرح یہ اعتراض رفع ہوا) اب رہا یہ فرمانا کہ «وكان الله غفورا رحيما» میں «كان» کا مطلب ہے کہ اللہ پاک میں یہ صفات ازل سے ہیں اور یہ اس کے نام ہیں (غفور، رحیم، عزیز، حکیم، سمیع، بصیر وغیرہ) کیونکہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہ حاصل کر لیتا ہے (حاصل یہ ہے کہ صفات سب قدیم ہیں گو ان کے تعلقات حادث ہوں جیسے «سمع الله» کا قدیم سے تھا مگر تعلق «سمع» کا اس وقت سے ہوا جب سے آوازیں پیدا ہوئیں۔ اسی طرح اور صفات میں بھی کہیں گے) اب تو قرآن میں کوئی اختلاف نہیں رہا، اختلاف کیسے ہو گا۔ قرآن مجید اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اس کے کلام میں اختلاف نہیں ہو سکتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا مجھ سے یوسف بن عدی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن عمرو نے، انہوں نے زید بن ابی انیسہ سے، انہوں نے منہال سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے (یہی روایت جو ادھر گزری ہے)۔ مجاہد نے کہا «ممنون» کا معنی حساب ہے۔ «أقواتها» یعنی بارش کا اندازہ مقرر کیا کہ ہر ملک میں کتنی بارش مناسب ہے۔ «فی کل سمآء امرها» یعنی جو حکم (اور انتظام کرنا تھا) وہ ہر آسمان سے متعلق (فرشتوں کو) بتلا دیا۔ «نحسات» منحوس، نامبارک۔ «وقيضنا لهم قرناء» کا معنی ہم نے کافروں کے ساتھ شیطان کو لگا دیا۔ «تتنزل عليهم الملائكة» یعنی موت کے وقت ان پر فرشتے اترتے ہیں۔ «اهتزت» یعنی سبزی سے لہلہانے لگتی ہے۔ «وربت» پھول جاتی ہے، ابھر آتی ہے۔ مجاہد کے سوا اوروں نے کہا «من أكمامها» یعنی جب پھل گابھوں سے نکلتے ہیں۔ «ليقولن هذا لي» یعنی یہ میرا حق ہے، میرے نیک کاموں کا بدلہ ہے۔ «سواء للسائلين» سب مانگنے والوں کے لیے اس کو یکساں رکھا۔ «فهديناهم» سے یہ مراد ہے کہ ہم نے ان کو اچھا برا دکھلایا، بتلا دیا جیسے دوسری جگہ فرمایا «وهديناه النجدين»(سورۃ البلد میں اور سورۃ الدہر میں) فرمایا «هديناه السبيل» لیکن ہدایت کا وہ معنی سیدھے اور سچے راستے پر لگا دینا، وہ «واصعاد»(یا «اسعاد») کے معنی میں ہے (سورۃ الانعام) «أولئك الذين هدى الله فبهداهم اقتده» میں یہی معنی مراد ہیں۔ «يوزعون» روکے جائیں گے۔ «من أكمامها» میں «كم» کہتے ہیں گابھا کے چھلکے کو (یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے) اوروں نے کہا انگور جب نکلتے ہیں تو اس کو بھی «فور» اور «كفرى» کہتے ہیں۔ «ولي حميم» قریبی دوست۔ «من محيص»، «حاص» سے نکلا ہے «حاص» کے معنی نکل بھاگا، الگ ہو گیا۔ «مرية» بکسر میم اور «مرية» بضم میم (دونوں قراتیں ہیں) دونوں کا ایک ہی معنی شک و شبہ کے ہیں اور مجاہد نے کہا «عملوا ما شئتم» میں وعید ہے۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ادفع التي هي أحسن» سے یہ مراد ہے کہ غصے کے وقت صبر کر لو اور برائی کو معاف کر دو جب لوگ ایسے اخلاق اختیار کریں گے تو اللہ ان کو ہر آفت سے بچائے رکھے گا اور ان کے دشمن بھی عاجز ہو کر ان کے دلی دوست بن جائیں گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4816]
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے روح بن قاسم نے، ان سے مجاہد نے، ان سے ابومعمر نے اور ان سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت «وما كنتم تستترون أن يشهد، عليكم سمعكم»”اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا نہیں سکتے تھے کہ تمہارے کان گواہی دیں گے۔“ الخ کے متعلق کہا کہ قریش کے دو آدمی اور بیوی کی طرف سے ان کے قبیلہ ثقیب کا کوئی رشتہ دار یا ثقیف کے دو افراد تھے اور بیوی کی طرف قریش کا کوئی رشتہ دار، یہ خانہ کعبہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے بعض نے کہا کہ کیا تمہارا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری باتیں سنتا ہو گا ایک نے کہا کہ بعض باتیں سنتا ہے۔ دوسرے نے کہا کہ اگر بعض باتیں سن سکتا ہے تو سب سنتا ہو گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «وما كنتم تستترون أن يشهد عليكم سمعكم ولا أبصاركم»”اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا ہی نہیں سکتے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں گواہی دیں گی۔“ آخر آیت «وذلكم ظنكم» تک۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4816]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4816
حدیث حاشیہ: 1۔ انسان اگرچھپ کر کوئی گناہ کرنا چاہے تو دوسرے لوگوں سے توچھپا سکتا ہے مگر وہ اپنے اعضاء سے کیسے چھپائے، وہ تو اس کے آلہ کار ہیں۔ جب کسی کو معلوم ہوجائے کہ ہمارے کان، آنکھ، ہاتھ، پاؤں حتی کہ بدن کی کھال اور بال سب ہمارے نہیں بلکہ سرکاری گواہ ہیں کہ جب ان اعضاء سے ہمارے اعمال کے متعلق پوچھا جائے گا تو ساری باتیں بتا دیں گےتو پھر چھپ چھپا کر گناہ کرنے کا کوئی راستہ ہی نہیں رہتا۔ اس رسوائی سے بچنے کا اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کہ گناہ کو ہی چھوڑ دیا جائے۔ 2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ کہ قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھنے والا عبد یالیل بن عمرو تھا اور دوقریشی امیہ بن خلف کے بیٹے صفوان اور ربیعہ تھے۔ ایک قول یہ بھی نقل کیا ہے کہ قریش سے صفوان بن امیہ تھا اور قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھنے والے دو شخص عمرو کے بیٹے ربیعہ اور حبیب تھے۔ (فتح الباري: 714/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4816