ہم سے حمیدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے منصور نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مجاہد نے بیان کیا، ان سے ابومعمر نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ خانہ کعبہ کے پاس دو قریشی اور ایک ثقفی یا ایک قریشی اور دو ثقفی مرد بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے پیٹ بہت موٹے تھے لیکن عقل سے کورے۔ ایک نے ان میں سے کہا، تمہارا کیا خیال ہے کیا اللہ ہماری باتوں کو سن رہا ہے؟ دوسرے نے کہا اگر ہم زور سے بولیں تو سنتا ہے لیکن آہستہ بولیں تو نہیں سنتا۔ تیسرے نے کہا اگر اللہ زور سے بولنے پر سن سکتا ہے تو آہستہ بولنے پہ بھی ضرور سنتا ہو گا۔ اس پر یہ آیت اتری «وما كنتم تستترون أن يشهد عليكم سمعكم ولا أبصاركم ولا جلودكم» کہ ”اور تم اس بات سے اپنے کو چھپا ہی نہیں سکتے کہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے چمڑے گواہی دیں گے۔“ آخر آیت تک۔ سفیان ہم سے یہ حدیث بیان کرتے تھے اور کہا کہ ہم سے منصور نے یا ابن نجیح نے یا حمید نے ان میں سے کسی ایک نے یا کسی دو نے یہ حدیث بیان کی، پھر آپ منصور ہی کا ذکر کرتے تھے اور دوسروں کا ذکر ایک سے زیادہ مرتبہ نہیں کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4817]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4817
حدیث حاشیہ: 1۔ حرم کعبہ میں اکٹھے ہونے والے یہ تینوں کم عقل تھے لیکن ان میں سے تیسرے نے کچھ عقل مندی کا ثبوت دیا اور کہا کہ اگراونچی آواز کو سن سکتا ہے تو آہستہ آواز والی بات بھی سن سکتا ہے۔ 2۔ اللہ کے ہاں تمام مسموعات برابر ہیں، اس کے لیے اونچی یا آہستہ آواز میں فرق کرنا سینہ زوری ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”تم اپنی باتوں کو چھپاؤ یا ظاہر کرو وہ تو سینے کی باتوں کو بھی جانتاہے۔ “(الملک: 13) 3۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ موٹاپا عقل کا دشمن ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن حسن کے علاوہ کسی موٹے شخص کو عقل مند نہیں پایا۔ (فتح الباري: 715/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4817
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے منصور نے بیان کیا، ان سے مجاہد نے، ان سے ابومعمر نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے پہلی حدیث کی طرح بیان کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4817M]