الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
8. بَابُ قَوْلِهِ: {لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلاَ مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ وَاللَّهُ لاَ يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلاَ أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا} :
8. باب: آیت کی تفسیر یعنی اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو۔ سوائے اس وقت کے جب تمہیں کھانے کے لیے (آنے کی) اجازت دی جائے، ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ بیٹھے رہو، البتہ جب تم کو بلایا جائے تب جایا کرو۔ پھر جب کھانا کھا چکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو اور وہاں باتوں میں جی لگا کر مت بیٹھے رہا کرو۔ اس بات سے نبی کو تکلیف ہوتی ہے سودہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ صاف بات کہنے سے (کسی کا) لحاظ نہیں کرتا اور جب تم ان (رسول کی ازواج) سے کوئی چیز مانگو تو ان سے پردے کے باہر سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے اور تمہیں جائز نہیں کہ تم رسول اللہ کو (کسی طرح بھی) تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ کہ آپ کے بعد آپ کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو، بیشک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے“۔
حدیث نمبر: Q4790
يُقَالُ: إِنَاهُ: إِدْرَاكُهُ أَنَى يَأْنِي أَنَاةً فَهُوَ آنٍ، لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا: إِذَا وَصَفْتَ صِفَةَ الْمُؤَنَّثِ قُلْتَ قَرِيبَةً وَإِذَا جَعَلْتَهُ ظَرْفًا وَبَدَلًا وَلَمْ تُرِدِ الصِّفَةَ نَزَعْتَ الْهَاءَ مِنَ الْمُؤَنَّثِ، وَكَذَلِكَ لَفْظُهَا فِي الْوَاحِدِ وَالِاثْنَيْنِ وَالْجَمِيعِ لِلذَّكَرِ وَالْأُنْثَى.
‏‏‏‏ «إناه» کا معنی کھانا تیار ہونا پکنا یہ «أنى يأني أناة» سے نکلا ہے۔ «لعل الساعة تكون قريبا» قیاس تو یہ تھا کہ «قريبة» کہتے مگر «قريب» کا لفظ جب مؤنث کی صفت ہو تو اسے «قريبة» کہتے ہیں اور جب وہ ظرف یا اسم ہوتا ہے اور صفت مراد نہیں ہوتی تو ہائے تانیث نکال ڈالتے ہیں «قريب» کہتے ہیں۔ ایسی حالت میں واحد، تثنیہ، جمع، مذکر اور مؤنث سب برابر ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4790]
حدیث نمبر: 4790
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قُلْتُ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَدْخُلُ عَلَيْكَ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ فَلَوْ أَمَرْتَ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ بِالْحِجَابِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ الْحِجَابِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید قطان نے، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے پاس اچھے برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، کاش آپ ازواج مطہرات کو پردہ کا حکم دے دیں۔ اس کے بعد اللہ نے پردہ کا حکم اتارا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4790]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريلو اتخذنا من مقام إبراهيم مصلى فنزلت واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى
   صحيح البخارييدخل عليك البر والفاجر فلو أمرت أمهات المؤمنين بالحجاب فأنزل الله آية الحجاب
   جامع الترمذيلو صلينا خلف المقام فنزلت واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى
   جامع الترمذيلو اتخذت من مقام إبراهيم مصلى فنزلت واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4790 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4790  
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!آپ اپنی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کو حکم دیں کہ وہ پردے میں رہا کریں کیونکہ ان سے نیک اور بدسب ہی بلا حجاب ہم کلام ہوتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب نازل فرمائی۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 402)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت غیرت مند تھے۔
انھیں حرم نبوی پر اجنبی لوگوں کی اطلاع پانے اور ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین سے بلا روک ٹوک ہم کلام ہونے سے سخت نفرت تھی۔
انھوں نے صراحت کے ساتھ عرض کردیا کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اپنی بیویوں کو پردے میں رکھیں بلکہ انھیں تو یہ بھی ناگوار تھا کہ ان کی شخصیت بھی نظر آئے خواہ وہ باہر ہی کیوں نہ ہوں جس کی صراحت آئندہ کی جائے گی۔
ان شاء اللہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4790   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2959  
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کاش ہم مقام (مقام ابراہیم) کے پیچھے نماز پڑھتے، تو آیت: «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى» تم مقام ابراہیم کو جائے صلاۃ مقرر کر لو (البقرہ: ۱۲۵) نازل ہوئی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2959]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لو (البقرہ: 125) اور یہ حکم طواف کے بعد کی دو رکعتوں کے سلسلے میں ہے،
لیکن طواف میں اگر بھیڑ بہت زیادہ ہو تو حرم میں جہاں بھی جگہ ملے یہ دو رکعتیں پڑھی جا سکتی ہیں،
کوئی حرج نہیں ہے۔

2؎:
مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر ابراہیم علیہ السلام نے کھڑے ہو کر خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2959   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 402  
402. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت عمر ؓ نے فرمایا: مجھے اپنے پروردگار سے تین باتوں میں موافقت کا شرف حاصل ہوا ہے: ایک مرتبہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کاش مقام ابراہیم ہماری جائے نماز ہوتا، تو یہ آیت نازل ہوئی: مقام ابراہیم کو جائے نماز بنا لو۔ آیت حجاب بھی اسی طرح نازل ہوئی کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش آپ اپنی بیویوں کو پردے کا حکم دے دیں کیونکہ ہر نیک و بد ان سے گفتگو کرتا ہے، تو آیت حجاب نازل ہوئی۔ (ایک دفعہ ایسا ہوا کہ) نبی ﷺ کی ازواج مطہرات نے باہمی رشک و رقابت کی وجہ سے آپ کے خلاف اتفاق کر لیا تو میں نے ان سے کہا: بعید نہیں اگر رسول اللہ ﷺ تمہیں طلاق دے دیں تو ان کا پروردگار انہیں تمہارے بدلے میں تم سے بہتر بیویاں عطا فر دے۔ پھر یہی آیت (سورہ تحریم: 5) نازل ہوئی۔ (راوی حدیث) ابن ابی مریم نے کہا: ہمیں یحییٰ بن ایوب نے خبر دی، ان سے حمید طویل نے بیان کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:402]
حدیث حاشیہ:
اس سند کے بیان کرنے سے امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ حمید کاسماع انس ؓ سے معلوم ہوجائے اوریحییٰ بن ایوب اگرچہ ضعیف ہے مگرامام بخاری ؒ نے ان کی روایت بطور متابعت قبول فرمائی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 402   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:402  
402. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت عمر ؓ نے فرمایا: مجھے اپنے پروردگار سے تین باتوں میں موافقت کا شرف حاصل ہوا ہے: ایک مرتبہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کاش مقام ابراہیم ہماری جائے نماز ہوتا، تو یہ آیت نازل ہوئی: مقام ابراہیم کو جائے نماز بنا لو۔ آیت حجاب بھی اسی طرح نازل ہوئی کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش آپ اپنی بیویوں کو پردے کا حکم دے دیں کیونکہ ہر نیک و بد ان سے گفتگو کرتا ہے، تو آیت حجاب نازل ہوئی۔ (ایک دفعہ ایسا ہوا کہ) نبی ﷺ کی ازواج مطہرات نے باہمی رشک و رقابت کی وجہ سے آپ کے خلاف اتفاق کر لیا تو میں نے ان سے کہا: بعید نہیں اگر رسول اللہ ﷺ تمہیں طلاق دے دیں تو ان کا پروردگار انہیں تمہارے بدلے میں تم سے بہتر بیویاں عطا فر دے۔ پھر یہی آیت (سورہ تحریم: 5) نازل ہوئی۔ (راوی حدیث) ابن ابی مریم نے کہا: ہمیں یحییٰ بن ایوب نے خبر دی، ان سے حمید طویل نے بیان کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:402]
حدیث حاشیہ:

حافظ ابن حجر ؒ نے عنوان سے اس حدیث کی مطابقت بایں الفاظ ذکر کی ہے کہ آیت مذکور میں"مقام ابراهیم" سے مرادکعبہ شریف ہے۔
جیسا کہ اس کی تفسیر میں یہ قول نقل ہوا ہے اور یہ باب بھی قبلے کے متعلق ہے۔
یا اس سے مراد کل حرم ہے۔
اس صورت میں من تبیضیہ ہوگا اور مصلی سے مرادقبلہ ہے جو آفاق والوں کے حق میں ہے۔
یا اس سے مراد وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم ؑ نے کھڑے ہوکر بیت اللہ کی تعمیر کی تھی۔
اس صورت میں مطابقت قبلہ کے لحاظ سے نہیں بلکہ متعلقات قبلہ کے لحاظ سے ہوگی۔
(فتح الباري: 655/1)
علامہ کرمانی ؒ نے امام خطابی ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا تھاکہ جس پتھر پر حضرت ابراہیم ؑ کے پاؤں کے نشانات ثبت ہیں، اسے قبلے کے سامنے جائے نماز بنایا جائے، یعنی امام اس کے پاس کھڑا ہوتو اس خواہش کے احترام میں مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
(شرح الکرماني: 67/4)

حمید طویل نے حضرت انس ؓ سے یہ روایت بصیغہ عَن بیان کی ہے۔
اس انداز میں تدلیس کا شبہ تھا۔
اس کے ازالے کے لیے امام بخاری ؒ نے ابن ابی مریم کا طریق بیان کیا ہے جس میں حمید طویل اپنے سماع کی صراحت کرتے ہوئے حضرت انس ؓ سے بیان کرتے ہیں۔
(فتح الباري: 655/1)
امام بخاری ؒ کا اس مقام پر یہ روایت لانے کا اتنا ہی مقصد تھا جوہم نے بیان کردیا ہے۔
اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب المناقب میں بیان ہو گی۔
وہاں ہم ثابت کریں گے کہ حضرت عمر ؓ واقعی اس امت میں فتن ومحن کی روک تھام کے لیے ایک دروازے کی حیثیت رکھتے تھے۔
بدقسمتی سے اس دروازے کو بزور توڑا گیا۔
اس دروازے کو توڑنے کا پس منظر، پیش منظر اور تہ منظر ہم وہاں بیان کریں گے اور ان عوامل ومحرکات سے پردہ اٹھائیں گے جو اس واقعہ جانکاہ میں کارفرماتھے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔

واضح رہے کہ حضر ت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ کبھی بھی کوئی ایساحادثہ پیش نہیں آیا جس میں دوسروں نے ایک رائے دی ہو اور حضرت عمر ؓ نے کسی دوسری رائے کا اظہار کیا ہو مگر قرآن مجید حضرت عمر ؓ کی رائے کے مطابق اترتا۔
(جامع الترمذي، المناقب، حدیث: 3682)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کثرت موافقت حضرت عمر ؓ کے حق میں ہے، لیکن نقل کے اعتبار سے تعین کے ساتھ پندرہ چیزوں میں موافقت ہمارے علم میں آئی ہے۔
جسے"موافقات عمر" کا نا م دیا جاسکتاہے۔
(فتح الباري: 654/1)
موافقات عمر کی تشریح بھی کتاب المناقب میں بیان ہوگی۔
إن شاء اللہ۔

بعض اہل علم کی طرف سے امام بخاریؒ پر یہ اعتراض ہوا کہ اس حدیث کو سابق باب میں لانا چاہیے تھا جو اس آیت کے متعلق ہی قائم کیاگیا تھا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ وہاں حدیث ابن عمر ؓ بیان کی ہے جس میں صراحت تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے طواف کی دورکعت میں مقام ابراہیم کوقبلہ نماز بنایا جبکہ حدیث عمر میں اس قسم کی صراحت نہ تھی، اس لیے اسے یہاں متعلقات قبلہ کے سلسلے میں بیان کیاگیا ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 654۔
655/1)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 402