7. باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! ان (ازواج مطہرات) میں سے آپ جس کو چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے نزدیک رکھیں اور جن کو آپ نے الگ کر رکھا ہو ان میں سے کسی کو پھر طلب کر لیں جب بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں“۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ترجئ» کا معنی پیچھے ڈال دے۔ اسی سے سورۃ الاعراف کا یہ لفظ ہے «أرجئه» یعنی اس کو ڈھیل میں رکھو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4788]
ہم سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے اپنے والد سے سن کر بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جو عورتیں اپنے نفس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کرنے آتی تھیں مجھے ان پر بڑی غیرت آتی تھی۔ میں کہتی کہ کیا عورت خود ہی اپنے کو کسی مرد کے لیے پیش کر سکتی ہے؟ پھر جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ترجئ من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء ومن ابتغيت ممن عزلت فلا جناح عليك» کہ ”ان میں سے جس کو چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے نزدیک رکھیں اور جن کو آپ نے الگ کر رکھا تھا اس میں سے کسی کو پھر طلب کر لیں جب بھی، آپ پر کوئی گناہ نہیں ہے۔“ تو میں نے کہا کہ میں تو سمجھتی ہوں کہ آپ کا رب آپ کی مراد بلا تاخیر پوری کر دینا چاہتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4788]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4788
حدیث حاشیہ: 1۔ ﴿تُرْجِي مَن تَشَاءُ﴾ کی تفسیر میں تین اقوال بیان کیے جاتے ہیں۔
۔ آپ جس بیوی کو چاہیں اپنے پاس رکھیں اور جسے چاہیں طلاق دے دیں۔
۔ آپ جس بیوی کو چاہیں طلاق کے بغیر اسے الگ کردیں اور اس کی باری کسی دوسری بیوی کو دے دیں۔
۔ جو عورت خود کو ہبہ کردے اس کے متعلق آپ کو اختیار ہے اسے قبول کریں یا اسے رد کریں۔ آیت کے الفاظ سے ان تینوں احتمالات کی تائید ہوتی ہے۔ 2۔ اس حدیث کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آخری معنی بیان کیے ہیں کہ آیت کا پس منظر ہبہ کرنے والی خواتین ہیں اور یہ اجازت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھی کہ اگر کوئی مومنہ عورت بغیر حق مہر اپنے آپ کو نکاح میں دینا چاہے تو یہ صرف آپ کے لیے جائز تھا دوسرے مسلمانوں کو اس کی اجازت نہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دوسرا احتمال بھی بیان ہوا ہے کہ مذکورہ آیت بیویوں کے درمیان باری مقرر کرنے سے متعلق ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4788
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3201
´رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کے نکاح کا بیان اور اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے جائز قرار دیا اور اپنی مخلوق کو منع کیا تاکہ ساری مخلوق پر آپ کی بزرگی اور فضیلت ظاہر ہو سکے۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں ان عورتوں سے شرم کرتی تھی ۱؎ جو اپنی جان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیتی تھیں چنانچہ میں کہتی تھی: کیا آزاد عورت اپنی جان (مفت میں) ہبہ کر دیتی ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی «ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء»”ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3201]
اردو حاشہ: (1)”پیش کرتی تھیں۔“ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے مباح رکھا تھا کہ اگر کوئی مومن مہاجر عورت اپنے آپ کو رسول اللہﷺ پر نکاح کے لیے پیش کرے تو آپ اولیاء کے بغیر اسے نکاح فرما سکتے ہیں۔ کیونکہ اولاً تو مہاجر عورتوں کے لیے اولیاء کافر ہوتے تھے جن کی ولایت ساقط ہوتی تھی، دوسرے نسبی اولیاء نہ ہونے کی صورت میں آپ حاکم اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے ان کے قانونی ولی ہوتے تھے، لہٰذا عورت کی پیشکش کی صورت میں آپ کا اس سے نکاح کرلینا تمام شرائط پر پورا اترنا تھا مگر آپ نے کسی عورت سے نکاح نہیں فرمایا جس نے خود پیش کش کی ہو تاکہ کوئی نابکار الزام تراشی نہ کرسکے۔ اگرچہ یہ آپ کے لیے شرعاً، قانوناً اور اخلاقاً ہر لحاظ سے جائز تھا۔ (2)”پیش کرسکتی ہے۔“ حضرت عائشہؓ نے یہ بات اپنے حالات کے لحاظ سے فرمائی ورنہ ایک مہاجر، بے آسرا نوجوان عورت جو اپنے خاندان سے منقطع ہوچکی ہے، اگر اپنے آپ کو نکاح کے لیے نبی اکرمﷺ پر پیش کرے کہ اگر آپ کی ضرورت ہو تو آپ نکاح فرما لیں ورنہ کسی اور سے کردیں، اس میں ذرہ بھر بھی قباحت نہیں کیونکہ آپ حاکم اعلیٰ تھے اور ایسی بے آسرا نوجوان عورتوں کو سہارا مہیا کرنا آپ کا فرض بنتا تھا۔ (3)”یہ آیت اتاری۔“ اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ نبی اکرمﷺ کے لیے اپنی بیویوں کے لیے باری مقرر کرنا ضروری نہ تھا مگر قربان جائیے آپ کے اخلاق عالیہ پر کہ آپ نے باوجود اتنی وسعت کے نہ صرف باری مقرر کی بلکہ ان سب سے ہر لحاظ سے مساویانہ سلوک فرمایا۔ فِدَاہُ نَفْسِیی وَرُوحِیی وَأَبِیی وَأُمِّییﷺ۔ دیکھیے: (سنن أبي داود، النكاح‘ حدیث: 2135‘ وإرواء الغلیل: 7/75)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3201
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3206
´اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے اپنی قربت دکھانے کے لیے حلال رکھا اور اپنی مخلوق کے لیے حرام کر دیا۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باحیات تھے عورتیں آپ کے لیے حلال تھیں۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3206]
اردو حاشہ: جب رسول اللہﷺ کی ازواج مطہرات مندرجہ بالا اختیار والے امتحان میں سوفیصد کامیاب ثابت ہوئیں تو ان کی عظمت شان کے اظہار کے لیے آپﷺ کو منع فرما دیا گیا کہ آپ ان میں سے کسی کو طلاق دیں، یا ان کے علاوہ کسی اور عورت سے نکاح کریں، مگر چونکہ مقصد آپ پر پابندی لگانا نہیں تھا بلکہ مقصد ازواج مطہرات کی عظمت ظاہر کرنا تھا، لہٰذا کچھ وقت گزارنے کے بعد صراحت فرما دی گئی کہ نکاح وطلاق کے مسئلے میں آپ پر کوئی پابندی نہیں جسے چاہیں رکھیں، جسے چاہیں طلاق دیں اور جس سے چاہیں نکاح فرمائیں۔ مگر رسول اللہﷺ نے اختیار کو استعمال نہیں فرمایا بلکہ ان بیویوں ہی کو قائم رکھا اور ان کی عزت وافزائی فرمائی۔ﷺ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3206
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2000
´جس عورت نے اپنے آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کیا اس کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کیا عورت اس بات سے نہیں شرماتی کہ وہ اپنے آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کر دے؟! تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: «ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء» جس کو تو چاہے اپنی عورتوں میں سے ”اپنے سے جدا کر دے اور جس کو چاہے اپنے پاس رکھے“(سورة الأحزاب: 51) تب میں نے کہا: آپ کا رب آپ کی خواہش پر حکم نازل کرنے میں جلدی کرتا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2000]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اسلامی معاشرے میں یہ چیز اچھی نہیں سمجھی جاتی کہ عورت اپنے نکاح کے لیے خود کسی مرد سے درخواست کرے بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ درخواست عورت کے سرپرست کے ذریعے سے کی جائے۔ رسول اللہﷺ کی امتیازی شان اس لحاظ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عجیب محسوس ہوئی کہ عورتیں خود ہی آکر کہہ دیتی ہیں کہ اللہ کے رسول ہم سے نکاح کرلیں۔
(2) نبئ اکرمﷺ امت کے تمام افراد کے سرپرست تھے بلکہ نبی ﷺ کا حق سرپرستوں سے بھی زیادہ تھا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿اَلنَّبِيُّ اَوْلیٰ بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنَ أَنْفُسِهِمْ﴾(الأحزاب: 6) ”نبی مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھتے والے ہیں۔“
(3) رسول اللہﷺ کے لیے اللہ کی طرف سے یہ خصوصی رعایت تھی کہ آپ پرازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے درمیان باری کی پابندی کرنا فرض نہیں تھا۔ اس کے باوجود نبیﷺ نے بیویوں میں انصاف کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش فرمایا حتی کہ زندگی کے آخری ایام میں، جب مرض کی شدت اس قدر تھی کہ ایک ام المومنین کے گھرسے دوسری کے گھر میں چل کر جانا مشکل تھا، تب بھی آپ باری باری ان کے ہاں تشریف لے جاتے رہے حتی کہ امہات المومنین نے خود ہی عرض کیا کہ آپ جس گھر میں پسند فرمائیں آرام کریں۔ تب نبیﷺ دومردوں کے سہارے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے اور وہیں وفات پائی۔ اور انہی کے حجرۂ مبارک میں دفن ہوئے۔ (صحیح البخاري، المغازي، باب مرض النبیﷺ ووفاته، حدیث: 4442)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2000
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3216
´سورۃ الاحزاب سے بعض آیات کی تفسیر۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے آپ کے لیے سب عورتیں حلال ہو چکی تھیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3216]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی پچھلی حدیث میں مذکور حرام کردہ عورتیں بعد میں نبی اکرمﷺکے لیے حلال کر دی گئیں تھیں، یہ استنباط عائشہ رضی اللہ عنہا یا دیگر نے اس ارشاد باری سے کیا ہے، ﴿تُرْجِي مَن تَشَاء مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاء﴾(الأحزاب: 51)(اے ہمارے حبیب وخلیل نبی!) تمہیں یہ بھی اختیار ہے کہ تم ان عورتوں میں سے جس کو چاہو پیچھے رہنے دو (اُس سے شادی نہ کرو یا موجود بیویوں میں سے جس کی چاہو باری ٹال دو) اور جس کو چاہو اپنے پاس جگہ دو، (گو اس کو باری نہ بھی ہو)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3216
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3631
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، مجھے ان عورتوں پر غصہ آتا تھا جو اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کر دیتی تھیں، اور میں کہتی، کیا کوئی عورت اپنے آپ کو ہبہ کرنا گوارا کر سکتی ہے؟ تو جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار دی: (آپ اپنی ازواج میں سے جسے چاہیں پیچھے ہٹا دیں اور جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دیں، اور جسے اپنے سے علیحدہ کر دیا اگر اس کو بلانا چاہیں (تو آپ کو کوئی حرج نہیں)(احزاب: 51)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3631]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: وہ عورتیں جنہوں نے اپنا آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوہبہ کرنا چاہا تھا وہ بقول حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ تین تھیں۔ خولہ بنت حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ فاطمہ بنت شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور یعلی بنت الحلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کی پیش کش قبول نہیں فرمائی۔ تُرجِی اورتُؤوِی کی علماء نے مختلف تفسیریں کی ہیں: 1۔ جمہور کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر باری لازم نہ تھی، جس کو چاہیں اپنے پاس بلائیں اور جس کو چاہیں نہ بلائیں۔ 3۔ جسے چاہیں طلاق دے دیں اور جس کو چاہیں اپنے نکاح میں رکھیں۔ 3۔ اس آیت کا تعلق ان عورتوں سے ہے جنھوں نے اپنے آپ کو ہبہ کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی پیشکش قبول فرمالیں چاہیں تو رد کردیں اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نظریہ کے مطابق اس کا تعلق تیسرے قول ہی سے ہے لیکن بالاتفاق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باری کی پابندی کی ہے اور اس رخصت پر عمل نہیں کیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3631
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5113
5113. سیدنا ہشام بن عروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ سیدہ خولہ بنت حکیم ؓ ان عورتوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کی نبی ﷺ کے لیے ہبہ کیا تھا۔ اس پر سیدہ عائشہ ؓ نے کہا کہ عورت کو شرم نہیں آتی وہ اپنے آپ کو کسی مرد کے لیے ہبہ کرتی ہے؟ پھر جب آیت نازل ہوئی: ”(اے پیغمبر) تو اپنی جس بیوی کو چاہے پیچھے ڈال دے۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اب پتہ چلا ہے کہ آپ کا رب آپ کی خواہش پوری کرنے میں کس قدر جلدی کرتا ہے۔ اس حدیث کو ابو سعید مؤدب محمد بن بشر اور عبدہ نے ہشام سے انہوں نے اپنے والد عروہ سے، انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے بیان کیا وہ ایک دوسرے سے حدیث میں کچھ اضافہ کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5113]
حدیث حاشیہ: مؤدب کی روایت کو ابن مردویہ نے اور محمد بن بشر کی روایت کو امام احمد رحمہ اللہ نے اور عبدہ کی روایت کو امام مسلم اور ابن ماجہ نے مرسل کہا ہے۔ علم الٰہی میں کچھ ایسے مخصوص ملی مفادات تھے کہ جن کی بنا پر اللہ پاک نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اجازت عطا فرمائی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5113
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5113
5113. سیدنا ہشام بن عروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ سیدہ خولہ بنت حکیم ؓ ان عورتوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کی نبی ﷺ کے لیے ہبہ کیا تھا۔ اس پر سیدہ عائشہ ؓ نے کہا کہ عورت کو شرم نہیں آتی وہ اپنے آپ کو کسی مرد کے لیے ہبہ کرتی ہے؟ پھر جب آیت نازل ہوئی: ”(اے پیغمبر) تو اپنی جس بیوی کو چاہے پیچھے ڈال دے۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اب پتہ چلا ہے کہ آپ کا رب آپ کی خواہش پوری کرنے میں کس قدر جلدی کرتا ہے۔ اس حدیث کو ابو سعید مؤدب محمد بن بشر اور عبدہ نے ہشام سے انہوں نے اپنے والد عروہ سے، انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے بیان کیا وہ ایک دوسرے سے حدیث میں کچھ اضافہ کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5113]
حدیث حاشیہ: (1) اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین قسم کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی تھی۔ ان میں سے تیسری قسم ان عورتوں کی تھی جو بذاتِ خود آپ کو نکاح کی پیش کش کریں۔ اگر اپنا نفس ہبہ کرنے والی کوئی عورت آپ کو پسند آ جائے تو اس کا حق مہر کچھ نہیں ہوگا اور نہ ولی کی اجازت اور گواہوں کی ضرورت ہی ہوگی۔ عورت کا اپنا نفس ہبہ کر دینا ہی نکاح سمجھا جائے گا۔ ایسی عورتوں کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے مذکورہ حدیث میں تبصرہ کیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ مجھے ان عورتوں پر غیرت آتی تھی جو اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیتی تھیں۔ میں کہتی: بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ کوئی عورت اپنا آپ کسی کو ہبہ کر دے، لیکن قرآن کریم نے تبصرہ فرمایا: ”یہ رعایت صرف آپ کے لیے ہے دوسرے مسلمانوں کے لیے نہیں۔ “(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4788)(2) ہبہ عورت کے حکم میں اختلاف ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے یا یہ حکم عام ہے؟ اس اختلاف کی طرف امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان میں لفظ "هل" سے اشارہ کیا ہے۔ بہر حال دوسرے مسلمانوں کے لیے حکم ہے کہ وہ نکاح کی دیگر شرائط پوری کریں، یعنی ولی کی اجازت، گواہوں کی موجودگی اور حق مہر کی تعیین وغیرہ اس کے بعد نکاح صحیح ہوگا۔ والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5113