«الخبء» پوشیدہ، چھپی چیز۔ «لا قبل» طاقت نہیں۔ «الصرح» کے معنی کانچ کا گارا اور «صرح» محل کو بھی کہتے ہیں اس کی جمع «صروح.» ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ولها عرش» کا یہ معنی ہے کہ اس کا تخت نہایت عمدہ، اچھی کاریگری کا ہے، جو بیش قیمت ہے۔ «مسلمين» یعنی تابعدار ہو کر۔ «ردف» نزدیک آ پہنچا۔ «جامدة» اپنی جگہ پر قائم۔ «أوزعني» مجھ کو کر دے۔ اور مجاہد نے کہا «نكروا» کا معنی اس کا روپ بدل ڈالو۔ «وأوتينا العلم» یہ سلیمان علیہ السلام کا مقولہ ہے۔ «صرح» پانی کا ایک حوض تھا سلیمان علیہ السلام نے اسے شیشوں سے ڈھانک دیا تھا دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے پانی بھرا ہوا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4772-2]
«كل شىء هالك إلا وجهه» یعنی ”ہر شے فنا ہونے والی ہے، سوائے اس کی ذات کے“( «إلا وجهه» سے مراد ہے)”بجز اس کی سلطنت کے“ بعض لوگوں نے اس سے مراد وہ اعمال لیے ہیں جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کئے گئے ہوں۔ (ثواب کے لحاظ سے وہ بھی فنا نہ ہوں گے) مجاہد نے کہا کہ «الأنباء» سے دلیلیں مراد ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4772]
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا۔ انہیں سعید بن مسیب نے خبر دی اور ان سے ان کے والد (مسیب بن حزن) نے بیان کیا کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ وہاں پہلے ہی سے موجود تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چچا! آپ صرف کلمہ «لا إله إلا الله» پڑھ دیجئیے تاکہ اس کلمہ کے ذریعہ اللہ کی بارگاہ میں آپ کی شفاعت کروں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بولے کیا تم عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جاؤ گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باربار ان سے یہی کہتے رہے (کہ آپ صرف ایک کلمہ پڑھ لیں) اور یہ دونوں بھی اپنی بات ان کے سامنے باربار دہراتے رہے (کہ کیا تم عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جاؤ گے؟) آخر ابوطالب کی زبان سے جو آخری کلمہ نکلا وہ یہی تھا کہ وہ عبدالمطلب کے مذہب پر ہی قائم ہیں۔ انہوں نے «لا إله إلا الله» پڑھنے سے انکار کر دیا۔ راوی نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں آپ کے لیے طلب مغفرت کرتا رہوں گا تاآنکہ مجھے اس سے روک نہ دیا جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين»”نبی اور ایمان والوں کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں۔“ اور خاص ابوطالب کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا «إنك لا تهدي من أحببت ولكن الله يهدي من يشاء» کہ ”جس کو تم چاہو ہدایت نہیں کر سکتے، البتہ اللہ ہدایت دیتا ہے اسے جس کے لیے وہ ہدایت چاہتا ہے۔“ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «أولي القوة» سے یہ مراد ہے کہ کئی زور دار آدمی مل کر بھی اس کی کنجیاں نہیں اٹھا سکتے تھے۔ «لتنوء» کا مطلب ڈھوئی جاتی تھیں۔ «فارغا» کا معنی یہ ہے کہ موسیٰ کی ماں کے دل میں موسیٰ کے سوا اور کوئی خاص نہیں رہا تھا۔ «الفرحين» کا معنی خوشی سے اتراتے ہوئے۔ «قصيه» یعنی اس کے پیچھے پیچھے چلی جا۔ «قصص» کے معنی بیان کرنے کے ہوتے ہیں جیسے سورۃ یوسف میں فرمایا «نحن نقص عليك»، «عن جنب» یعنی دور سے «عن جنابة» کا بھی یہی معنی ہے اور «عن اجتناب» کا بھی یہی ہے۔ «يبطش» بہ کسرہ طاء اور «يبطش.» بہ ضمہ طاء دونوں قرآت ہیں۔ «يأتمرون» مشورہ کر رہے ہیں۔ «عدوان» اور «عدو» اور «تعدي» سب کا ایک ہی مفہوم ہے یعنی حد سے بڑھ جانا ظلم کرنا۔ «آنس» کا معنی دیکھنا۔ «جذوة» لکڑی کا موٹا ٹکڑا جس کے سر ے پر آگ لگی ہو مگر اس میں شعلہ نہ ہو اور «شهاب» جو آیت «اواتیکم بشهاب قبس» میں ہے اس سے مراد ایسی جلتی ہوئی لکڑی جس میں شعلہ ہو۔ «حيات» یعنی سانپوں کی مختلف قسمیں (جیسے) جان، افعی، اسود وغیرہ «ردءا» یعنی مددگار، پشت پناہ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہا نے «يصدقني» بہ ضمہ قاف پڑھا ہے۔ اوروں نے کہا «سنشد» کا معنی یہ ہے کہ ہم تیری مدد کریں گے عرب لوگ کا محاورہ ہے جب کسی کو قوت دیتے ہیں تو کہتے ہیں «جعلت له عضدا.» ۔ «مقبوحين» کا معنی ہلاک کئے گئے۔ «وصلنا» ہم نے اس کو بیان کیا اور پورا کیا۔ «يجبى» کچھے آتے ہیں۔ «بطرت» شرارت کی۔ «في أمها رسولا»، «أم القرى» مکہ اور اس کے اطراف کو کہتے ہیں۔ «تكن» کا معنی چھپاتی ہیں۔ عرب لوگ کہتے ہیں «أكننت» یعنی میں نے اس کو چھپا لیا۔ «كننته» کا بھی یہی معنی ہے۔ «ويكأن الله» کا معنی «ألم تر أن الله» کے یعنی کیا تو نے نہیں دیکھا۔ «يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر» یعنی اللہ جس کو چاہتا ہے فراغت سے روزی دیتا ہے جسے چاہتا ہے تنگی سے دیتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4772]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4772
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ابوطالب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ جواب دیا: اگرقریش مجھے یہ عار نہ دلائیں کہ موت کی گھبراہٹ نے اسے کلمہ توحید کہنے پر مجبور کردیا تو میرےبھتیجے! میں یہ کلمہ پڑھ کر تیری آنکھیں ٹھنڈی کردیتا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (جامع الترمذي، تفسیرالقرآن، حدیث: 3188) 2۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابو طالب نے مکی دور میں ا پنے آخری دم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت اور سرپرستی کی، نیز ہرمشکل وقت میں آپ کا ساتھ دیا لیکن وہ ہدایت سے محروم رہا، تاہم حمایت کی وجہ سے اسے عذاب میں ضرور تخفیف ہوگی جیسا کہ سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!ابوطالب آپ کی حفاظت کرتا تھا اور اس نے آپ کی خاطر سب کی ناراضی مول لی تھی، کیا آپ کی ذات سے اسے کوئی فائدہ پہنچے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتا۔ “(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3883) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کے چچا ابو طالب کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: ”قیامت کے دن شاید انھیں میری سفارش سے کچھ فائدہ پہنچے اور وہ ہلکی آگ میں رکھے جائیں جو ان کے ٹخنوں تک ہو جس کی وجہ سے اس کا بھیجا ابلتا رہے گا۔ “(صحیح البخاری الرقاق حدیث: 6564) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ ”جہنم میں سب سے ہلکا عذاب ابوطالب کو ہوگا۔ وہ آگ کی دوجوتیاں پہنے گا جس سے اس کا بھیجا کھول رہا ہوگا۔ “(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 515(212)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4772