ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے عقیل کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب زہری سے، انہوں نے کہا مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا تو اپنے ماں باپ کو مسلمان ہی پایا اور ہم پر کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح و شام دن کے دونوں وقت ہمارے گھر تشریف نہ لائے ہوں۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی تو انہوں نے گھر کے سامنے ایک مسجد بنا لی، وہ اس میں نماز پڑھتے اور قرآن مجید کی تلاوت کرتے۔ مشرکین کی عورتیں اور ان کے بچے وہاں تعجب سے سنتے اور کھڑے ہو جاتے اور آپ کی طرف دیکھتے رہتے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے رونے والے آدمی تھے۔ جب قرآن کریم پڑھتے تو آنسوؤں پر قابو نہ رہتا، قریش کے مشرک سردار اس صورت حال سے گھبرا گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 476]
لم يمر علينا يوم إلا يأتينا فيه رسول الله طرفي النهار بكرة وعشية ثم بدا لأبي بكر فابتنى مسجدا بفناء داره فكان يصلي فيه ويقرأ القرآن فيقف عليه نساء المشركين وأبناؤهم يعجبون منه وينظرون إليه وكان أبو بكر رجلا بكاء لا يملك عينيه إذا قرأ القرآن فأفزع ذلك أشرا
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 476
حدیث حاشیہ: حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ مسجد کا اپنی ملک میں بنانا جائز ہے اورغیرملک میں منع ہے اور راستوں میں بھی مساجد بنانا درست ہے۔ بشرطیکہ چلنے والوں کو نقصان نہ ہو۔ بعض نے راہ میں مطلقاً ناجائز کا فتویٰ دیاہے، حضرت امام ؒ اسی فتویٰ کی تردید فرمارہے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 476
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:476
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو مختصر بیان کیا ہے۔ آئندہ اس واقعے سے متعلقہ تفصیلات بیان ہوں گی۔ امام بخاری ؒ نے کتاب الکفالة حدیث: 2297 اور کتاب المناقب حدیث: 3905 میں تفصیلات بیان کی ہیں ہم وہاں مفصل تشریح کریں گے، اس مقام پر امام بخاری ؒ کا مقصود صرف یہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اپنے مکان کے سامنے عوامی مقام پر مسجد تعمیر کی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس پر انکا رنہیں فرمایا، کیونکہ اس مسجد سے لوگوں کے آنے کا راستہ متاثر نہیں ہواتھا مشرکین کی عورتیں اور بچے وہاں سے گزرتے تھے۔ مشرکین کو بھی اس پر اعتراض نہ تھا۔ البتہ وہ اندیشہ ہائے دور درازمیں مبتلا ہو گئے کہ مبادا ہماری عورتیں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے طرز عمل اور انداز قرآن خوانی سے مسحور و متاثر ہو جائیں۔ اس کی تفاصیل آئندہ بیان ہوں گی، البتہ حضرت ابو بکر ؓ کے راستے میں مسجد بنانے اور رسول اللہ ﷺ کے انکار نہ کرنے سے یہ مسئلہ تو ثابت ہوا کہ پبلک مقامات پر مسجد بنائی جا سکتی ہے، بشرطیکہ راستہ متاثر نہ ہوتا ہو۔ 2۔ آج کل اس طرح کے تمام مقامات صوبائی یا مرکزی حکومت کی تحویل میں ہیں، لہٰذا ایسے مقامات پر مسجد بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت وقت سے اس کی اجازت لی جائے بصورت دیگر حکومت کو ایسی مسجد منہدم کرنے کا پورا حق ہو گا، آج چونکہ فتن و محن کا دور ہے فرقہ ورایت کا بھوت ذہنوں پر سوار ہے لوگوں میں مروت ومسامحت باقی نہیں رہی، لہٰذا ایسے مقامات پر مسجد بنانے سے پہلے مقامی حکومت سے اس جگہ کے متعلق مالکانہ حقوق لینا ضروری ہیں تاکہ فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ رہے اور امن و سکون کے ساتھ وہاں اللہ کی عبادت کی جا سکے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 476