ہم سے علی بن عیاش نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعیب بن ابی حمزہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اذان سن کر یہ دعا پڑھی «اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة، آت محمدا الوسيلة والفضيلة، وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته، حلت له شفاعتي يوم القيامة".»”اے اللہ! اس کامل پکار کے رب اور کھڑی ہونے والی نماز کے رب! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قرب اور فضیلت عطا فرما اور انہیں مقام محمود پر کھڑا کیجؤ۔ جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔“ تو اس کے لیے قیامت کے دن میری شفاعت ضروری ہو گی۔ اس حدیث کو حمزہ بن عبداللہ نے بھی اپنے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) سے روایت کیا ہے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4719]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4719
حدیث حاشیہ: اس کو اسماعیلی نے وصل کیا ہے۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ مقام محمود سے یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس عرش پر بٹھائے گا۔ ایسی حدیثوں سے جہمیوں کی جان نکلتی ہے اور اہلحدیث کی روح تازہ ہوتی ہے۔ (وحیدی) مقام محمود سے شفاعت کا منصب اور مقام بھی مراد لیا گیا ہے اور فردوس بریں میں آپ کا وہ محل بھی مراد ہے جو سب سے اعلیٰ وارفع خاص طور پر آپ کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ الغرض مقام محمود ایک جامع لفظ ہے۔ عالم ظاہر و باطن میں اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سے درجات عالیہ عطا فرمائے ہیں۔ آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری۔ یا اللہ! موت کے بعد اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات نصیب فرما ئیو اور قیامت کے دن آپ کی شفاعت سے نہ صرف مجھ کو بلکہ بخاری شریف پڑھنے والے سب مسلمان مردوں عورتوں کو سرفراز فرمائیو (آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4719
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4719
حدیث حاشیہ: 1۔ پہلی حدیث مختصر طور پر بیان ہوئی ہے۔ تفصیل یہ ہے کہ لوگ پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے۔ ان کے بعد پھر باری باری دیگر انبیاء علیہ السلام سے سفارش کی التجا کریں گے مگر ہر نبی اپنی کوئی نہ کوئی تقصیر یاد کر کے معذرت کر دے گا۔ بالآخر سب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوں گے تو آپ لوگوں کی التجا کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی سفارش کریں گے۔ مقام شفاعت ہی کو مقام محمود کہا گیا ہے جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقام محمود کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ”اس سے مراد مقام شفاعت ہے۔ “(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3137) 2۔ اس وقت سب لوگوں کی زبان پر آپ کی حمد و ستائش جاری ہوجائے گی، جیساکہ ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں گے۔ آپ چلیں گے اورجنت کے دروازے کا حلقہ پکڑ لیں گے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔ اہل محشر سب کےسب آپ کی تعریف کرنے لگیں گے۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1475)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4719