الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
3. بَابُ قَوْلِهِ: {وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ} :
3. باب: آیت کی تفسیر ”اور تحقیق ہم نے آپ کو (وہ) سات (آیتیں) دی ہیں (جو) باربار (پڑھی جاتی ہیں) اور وہ قرآن عظیم ہے“۔
حدیث نمبر: 4703
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى، قَالَ: مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُصَلِّي، فَدَعَانِي فَلَمْ آتِهِ حَتَّى صَلَّيْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُ، فَقَالَ:" مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَنِي؟" فَقُلْتُ: كُنْتُ أُصَلِّي، فَقَالَ:" أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ سورة الأنفال آية 24، ثُمَّ قَالَ:" أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ، قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ"، فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَذَكَّرْتُهُ، فَقَالَ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ، الَّذِي أُوتِيتُهُ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے خبیب بن عبدالرحمٰن نے، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے میں اس وقت نماز پڑھ رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا۔ میں نماز سے فارغ ہونے کے بعد خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ فوراً ہی کیوں نہ آئے؟ عرض کیا کہ نماز پڑھ رہا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اللہ نے تم لوگوں کو حکم نہیں دیا ہے کہ اے ایمان والو! جب اللہ اور اس کے رسول تمہیں بلائیں تو لبیک کہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہ آج میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کی سب سے عظیم سورت بتاؤں۔ پھر آپ (بتانے سے پہلے) مسجد سے باہر تشریف لے جانے کے لیے اٹھے تو میں نے بات یاد دلائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورۃ فاتحہ «الحمد لله رب العالمين‏» یہی سبع مثانی ہے اور یہی قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4703]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريالحمد لله رب العالمين هي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيته
   صحيح البخاريالحمد لله رب العالمين هي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيته
   سنن ابن ماجهالحمد لله رب العالمين وهي السبع المثاني والقرآن العظيم الذي أوتيته

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4703 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4703  
حدیث حاشیہ:
حضرت ابو سعید بن معلی یہ ابو سعید حارث بن معلی انصاری ہیں۔
64ھ میں بعمر 64 سال وفات پائی (رضي اللہ عنه)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4703   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3785  
´تلاوت قرآن کے ثواب کا بیان۔`
ابوسعید بن معلّیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا میں مسجد سے نکلنے سے پہلے تمہیں وہ سورت نہ سکھاؤں جو قرآن مجید میں سب سے عظیم سورت ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد سے باہر نکلنے لگے تو میں نے آپ کو یاد دلایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ سورت «الحمد لله رب العالمين» ہے جو سبع مثانی ہے، اور قرآن عظیم ہے، جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3785]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس حدیث میں قرآن مجید کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے:
﴿وَلَقَد آتَيناكَ سَبعًا مِنَ المَثاني وَالقُر‌آنَ العَظيمَ﴾  (الحجر، 15: 87)
یقیناً ہم نے آپ کو بار بار دہرائی جانے والی سات آیات اور قرآن عظیم عطا فرمایا ہے۔

(2)
سورہ فاتحہ کو سبع مثانی اس لیے فرمایا گیا ہے کہ یہ ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے۔

(3)
سورہ فاتحہ کو قرآن عظیم کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ قرآن مجید کے تمام مضامین کا خلاصہ ہے، یعنی اس میں عقیدہ توحید، عملی توحید، یعنی صرف اللہ کی عبادت اور صرف اس سے مدد مانگنا، اس کی صفات، عقیدہ آخرت، وعدہ، وعید، گزشتہ انبیاء اور ان کی امتوں کےنیک اور نا فرمان افراد کے واقعات سے عبرت اور اس کسے ہدایت کی درخواست جیسے اہم مضامین موجود ہیں۔

(4)
اہم مسئلہ سمجھانے سے پہلے اس سمجھنے کا شوق پیدا کر دیا جائے تو وہ اچھی طرح سمجھ میں آتا ہے اور یاد رہتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3785   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5006  
5006. سیدنا ابو سعید بن معلیٰ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نماز میں مشغول تھا کہ مجھے نبی ﷺ نے بلایا، اس لیے میں نے آپ کو کوئی جواب نہ دیا۔ (فراغت کے بعد) میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں اللہ تعالٰی نے حکم نہیں دیا، جب تمہیں اللہ اور اس کا رسول بلائے تو فوراً حاضر ہو جاو؟ پھر آپ نے فرمایا: کیا مسجد سے نکلنے سے پہلے پہلے میں تمہیں قرآن کریم کی عظیم تر سورت نہ پڑھاؤں؟ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ جب ہم مسجد سے باہر نکلنے لگے تو میں عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے ابھی فرمایا تھا: کیا تمہیں قرآن کی عظیم تر سورت نہ پڑھاؤں؟ آپ نے فرمایا: ہاں وہ سورت ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ہے، یہی وہ سات آیات ہیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں اور یہی وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5006]
حدیث حاشیہ:
قرآن مجید کے نازل فرمانے والے اللہ رب العالمین کا جس قدر شکر ادا کروں کم ہے کہ اس دور گرانی و ضعف قلبی و قالبی میں بخاری شریف مترجم اردو کے بیس پارے پورے کرکے تیسری منزل یعنی پارہ 21 کا آغاز کر رہا ہوں، حالات بالکل ناساز گار ہیں پھر بھی اللہ پاک سے قوی امید ہے کہ وہ اپنے کلام اور اپنے حبیب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ کی خدمت و اشاعت کے لئے غیب سے سامان و اسباب مہیا کرے گا اور مثل سابق ان بقایا پاروں کی بھی تکمیل کرا کے اپنے پیارے بندوں اور بندیوں کے لئے اس کو باعث رشد و ہدایت قرار دے گا۔
آخری عشرہ ماہ جمادی الثانی 1394 ھ میں اس پارے کی تسوید کا کام شروع کر رہا ہوں۔
تکمیل اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔
سورۃ فاتحہ کے بارے میں حضرت حافظ صاحب فرماتے ہیں۔
اختصت الفاتحة بأنھا مبداءالقرآن وحاویة لجمیع علومه لاحتواءھا علی الثناء علی اللہ والإقرار لعبادته والإخلاص له و سوال الھدایة منه والإشارة إلی الاعتراف بالعجز عن القیام بنعمه و إلی شان المعاد و بیان عاقبة الجاحدین (فتح الباری)
یعنی سورۃ فاتحہ کی یہ خصوصیات ہیں کہ یہ علوم قرآن مجید کا خزانہ ہے جو قرآن پاک کے سارے علوم کو حاوی ہے یہ ثناء علی اللہ پر مشتمل ہے اس پر عبادت اور اخلاص کے لئے بندوں کی طرف سے اظہار اقرار ہے اور اللہ سے ہدایت مانگنے اور اپنی عاجزی کا اقرار کرنے اور اس کی نعمتوں کے قیام وغیرہ کے ایمان افروز بیانات ہیں جو بندوں کی زبان سے اس سورہ شریفہ کے ذریعہ ظاہر ہوتے ہیں۔
ساتھ ہی اس سورت میں شان معاد کا بھی اظہار ہے اور جو لوگ اسلام و قرآن کے منکرین ہیں ان کے انجام بد پر بھی نشان دہی کی گئی ہے۔
پہلے اس سورت کے متعلق ایک مفصل مقالہ دیا گیا ہے جس سے قارئین نے اس سورہ کے بارے میں بہت سی معاملات حاصل کرلی ہوں گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5006   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5006  
5006. سیدنا ابو سعید بن معلیٰ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نماز میں مشغول تھا کہ مجھے نبی ﷺ نے بلایا، اس لیے میں نے آپ کو کوئی جواب نہ دیا۔ (فراغت کے بعد) میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں اللہ تعالٰی نے حکم نہیں دیا، جب تمہیں اللہ اور اس کا رسول بلائے تو فوراً حاضر ہو جاو؟ پھر آپ نے فرمایا: کیا مسجد سے نکلنے سے پہلے پہلے میں تمہیں قرآن کریم کی عظیم تر سورت نہ پڑھاؤں؟ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ جب ہم مسجد سے باہر نکلنے لگے تو میں عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے ابھی فرمایا تھا: کیا تمہیں قرآن کی عظیم تر سورت نہ پڑھاؤں؟ آپ نے فرمایا: ہاں وہ سورت ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ہے، یہی وہ سات آیات ہیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں اور یہی وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5006]
حدیث حاشیہ:

اس طرح کا ایک واقعہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی پیش آیا جبکہ وہ مسجد نبوی میں نماز پڑھ رہے تھے۔
انھیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا تھا۔
(جامع الترمذي، فضائل القرآن، حدیث: 2875)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت کو قرآن کریم کی عظیم تر سورت قرار دیا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے بہت ثواب ملتا ہے اگرچہ دوسری سورتیں مقدار کے اعتبار سے لمبی ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ قرطبی کے حوالے سے لکھا ہے۔
فاتحہ کی خصوصیت ہے کہ وہ قرآن کریم کا مقدمہ ہے جو قرآنی علوم پر مشتمل ہے کیونکہ اس میں اللہ کی حمد و ثنا اور بندوں کی طرف سے عبادت و اخلاص کا اظہار ہے۔
اللہ تعالیٰ سے طالب ہدایت اور اپنی عاجزی کا اظہار ہے، نیز اس میں اس کی نعمتوں کے ایمان افروز بیانات آخرت کے حالات اور منکرین کا انجام بیان ہوا ہے۔
(فتح الباري: 69/9)
اس حدیث کے متعلق دیگر فوائد کتاب التفسیر میں بیان ہو چکے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5006