5. باب: آیت کی تفسیر ”پھر جب قاصد ان کے پاس پہنچا تو یوسف علیہ السلام نے کہا کہ اپنے آقا کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ چھری سے زخمی کر لیے تھے۔ بیشک میرا رب ان عورتوں کے فریب سے خوب واقف ہے (بادشاہ نے) کہا (اے عورتو!) تمہارا کیا واقعہ ہے جب تم نے یوسف علیہ السلام سے اپنا مطلب نکالنے کی خواہش کی تھی، وہ بولیں حاشاللہ! ہم نے یوسف علیہ السلام میں کوئی عیب نہیں دیکھا“۔
«حاش وحاشا»(الف کے ساتھ) اس کا معنی پاکی بیان کرنا اور استثناء کرنا۔ «حصحص» کا معنی کھل گیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4694]
ہم سے سعید بن تلید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے بکر بن مضر نے، ان سے عمرو بن حارث نے، ان سے یونس بن یزید نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ لوط علیہ السلام پر اپنی رحمت نازل فرمائے کہ انہوں نے ایک زبردست سہارے کی پناہ لینے کے لیے کہا تھا اور اگر میں قید خانے میں اتنے دنوں تک رہ چکا ہوتا جتنے دن یوسف علیہ السلام رہے تھے تو بلانے والے کی بات رد نہ کرتا اور ہم کو تو ابراہیم علیہ السلام کے بہ نسبت شک ہونا زیادہ سزاوار ہے۔ جب اللہ پاک نے ان سے فرمایا «أولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي» کہ کیا تجھ کو یقین نہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں یقین تو ہے پر میں چاہتا ہوں کہ اور اطمینان ہو جائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4694]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4694
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں سیدنا یوسف ؑ کے صبرو تحمل کی تعریف فرمائی ہے کہ انھوں نے جبل میں لمبی مدت رہنے کے باجود بھی جلد بازی سے کام نہیں لیا۔ بلکہ صبرو عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ چاہا کہ میرے ناجائز اور ظلم وستم پر مبنی جبل میں رہنے کی خوب وضاحت ہو جائے۔ نبی ﷺ نے (لَأَجَبْتُ الدَّاعِيَ) کہہ کر اپنی عبودیت کاملہ اور انکسار کا اظہار فرمایاہے۔ 2۔ بہر حال حضرت یوسف ؑ نے جب دیکھا کہ بادشاہ مصر اب مائل بہ کرم ہے تو انھوں نے اس طرح محض بادشاہ مصر کی عنایت سے آزاد ہونا پسند نہیں فرمایا بلکہ اپنے کردار کی رفعت اور پاک دامنی کے اثبات کو ترجیح دی تاکہ دنیا کے سامنے آپ کے کردار کا حسن اور اس کی بلندی واضح ہو جائے کیونکہ داعی الی اللہ کے لیے عفت و پاک بازی اور بلندی کردار بہت ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں اسی کردار کو سراہا ہے۔ 3۔ اس کردار سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مکرو فریب کا اثر محدود اور عارضی ہوتا ہے بالآخر جیت حق اور اہل حق کی ہوتی ہے اگرچہ عارضی طور پر اہل حق کو ابتلاء وآزمائش سے گزرنا پڑتاہے۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4694
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6144
لیکن کسی استاد سے سنی ہے، اس میں شبہ کی بنا پر کہہ دیا کہ ان شاءاللہ یعنی ظن غالب یہی ہے کہ عبد اللہ بن محمد بن اسماء سےسنی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ لوط علیہ السلام کو معاف فرمائے، وہ مضبوط رکن کی پناہ چاہتے تھے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:6144]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت لوط علیہ السلام عراق کے باشندے تھے، سدوم جو شام کا علاقہ ہے، وہاں ان کا خاندان اور کنبہ نہیں رہتا تھا، اس لیے انہوں نے خواہش کی، اے کاش! آج یہاں میرا خاندان اور قبیلہ ہوتا جو میری معاونت اور مدد کرتا، وہ چونکہ بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے اسباب ظاہرہ (خاندان و نسب) کو اسباب باطنہ (اللہ پر اعتماد و توکل) پر ترجیح دی اور ان پر بھروسہ کیا، اس لیے آپ نے فرمایا، اللہ لوط علیہ السلام پر رحم فرمائے، ان کو معاف کرے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6144
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3387
3387. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ حضرت لوط ؑ پر رحم فرمائے کہ وہ ایک مضبوط سہارے کی پناہ لینا چاہتے تھے۔ اور اگرمیں اتنی مدت تک قید خانے میں رہتا جتنی دیرحضرت یوسف ؑ رہے تھے، پھر میرے پاس (رہائی کےلیے)کوئی بلانے والا آتا تو میں میں فوراً اس کی دعوت پر لبیک کہتا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3387]
حدیث حاشیہ: آنحضرت ﷺ حضرت یوسف ؑ کے صبرواستقلال کی تعریف بیان فرما رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی برات کا صاف شاہی اعلان ہوئے بغیر جیل خانہ چھوڑ نا پسند نہیں فرمایا۔ ﴿قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ﴾(یوسف: 33) آیت سے بھی ان کے مقام رفعت و عظیم مرتبت کا اظہار ہوتا ہے۔ صلی اللہ علیه وسلم أجمعین۔ آمین۔ اللہ کے پیاروں کی یہی شان ہوتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3387
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3375
3375. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ حضرت لوط ؑ پر رحم فرمائے! وہ ایک مضبوط رکن کی پناہ لینا چاہتے تھے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3375]
حدیث حاشیہ: اس حدیث کے ذیل حافظ ابن حجر ؒفرماتے ہیں: قَوْلُهُ يَغْفِرُ اللَّهُ لِلُوطٍ إِنْ كَانَ لَيَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيد أَي إِلَى الله سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى يُشِيرُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قَوْلِهِ تَعَالَى لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوي إِلَى ركن شَدِيد وَيُقَالُ إِنَّ قَوْمَ لُوطٍ لَمْ يَكُنْ فِيهِمْ أَحَدٌ يَجْتَمِعُ مَعَهُ فِي نَسَبِهِ لِأَنَّهُمْ مِنْ سَدُومَ وَهِيَ مِنَ الشَّامِ وَكَانَ أَصْلُ إِبْرَاهِيمَ وَلُوطٍ مِنَ الْعِرَاقِ فَلَمَّا هَاجَرَ إِبْرَاهِيمُ إِلَى الشَّامِ هَاجَرَ مَعَهُ لُوطٌ فَبَعَثَ اللَّهُ لُوطًا إِلَى أَهْلِ سَدُومَ فَقَالَ لَوْ أَنَّ لِي مَنَعَةً وَأَقَارِبَ وَعَشِيرَةً لَكُنْتُ أَسْتَنْصِرُ بِهِمْ عَلَيْكُمْ لِيَدْفَعُوا عَنْ ضِيفَانِي وَلِهَذَا جَاءَ فِي بَعْضِ طرق هَذَا الحَدِيث كَمَا أخرجه أحمدمن طَرِيقِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ لُوطٌ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيد قَالَ فَإِنَّهُ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ وَلَكِنَّهُ عَنَى عَشِيرَتَهُ فَمَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا الافِي ذرْوَة من قومه زَاد بن مَرْدُوَيْهِ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ أَلَمْ تَرَ إِلَى قَول قوم شُعَيْب وَلَوْلَا رهطك لرجمناك وَقِيلَ مَعْنَى قَوْلِهِ لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ أَيْ إِلَى عَشِيرَتِهِ لَكِنَّهُ لَمْ يَأْوِ إِلَيْهِمْ وَأَوَى إِلَى اللَّهِ (پارہ13، فتح الباری، ص: 244) یعنی اللہ پاک لوط ؑ کی مغفرت فرمائے۔ ان کا سہارا تو بہت ہی مضبوط تھا یعنی اللہ پاک ان کا سہارا تھا‘ گویا آنحضرت ﷺ نے ارشاد باری تعالیٰ لو ان لی بکم قوۃ الایۃ کی طرف اشارہ فرمایاہے۔ کہا جاتا ہے کہ قوم لوط میں کوئی بھی نسبی آدمی لوط سے متعلق نہیں تھا اس لئے کہ اس بستی والے سدوم سے تھے جو شام سے ہے اور ابراہیم ؑ اور لوط ؑ کی اصل نسل عراق والوں سے تھی جب حضرت ابراہیم ؑ نے شام کی طرف ہجرت کی تو حضرت لوط علیہ السلام نے بھی ان کے ساتھ ہجرت کی۔ پھر اللہ نے حضرت لوط ؑ کو سدوم والوں کی طرف مبعوث فرمایا۔ اسی لئے انہوں نے یہ جملہ کہا کہ اگر میرے بھی مددگار ‘ اقارب و اعزہ اور خاندان والے ہوتے تو میں ان سے تمہارے مقابلے پر مدد حاصل کرتا تاکہ وہ میرے مہمانوں سے تم کو دفع کرتے۔ اسی لئے بعض روایات میں مروی ہے کہ بلاشک حضرت لوط اپنی مدد کے لئے ایک اپناخاندان رکھتے تھے لیکن انہوں نے ان کی پناہ نہیں لی بلکہ اللہ پاک کی طرف پناہ حاصل کی۔ قوم لوط اور ان کی بدکرداریوں کا تذکرہ قرآن مجید میں کئی جگہ ہوا ہے۔ بد اخلاقی اور بے ایمانی میں یہ قوم بڑھ گئی تھی۔ اللہ پاک نے ان کی بستیوں کو نیست ونابود کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ جہاں آج بحیرئہ مردار واقع ہے اسی جگہ اس قوم کی بستیاں تھیں۔ واللہ أعلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3375
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3375
3375. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ حضرت لوط ؑ پر رحم فرمائے! وہ ایک مضبوط رکن کی پناہ لینا چاہتے تھے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3375]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ ﷺ کا اشارہ اس آیت کریمہ کی طرف تھا۔ ”لوط نے کہا: کاش! میں تمھارا مقابلہ اپنی قوت بازو سے کر سکتا یا کسی مضبوط سہارے کی طرف پناہ لے سکتا“(ھود: 80/11) جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے انھیں علاقہ سدوم کی طرف دعوت و تبلیغ کے لیے روانہ کیا۔ وہاں آپ غریب الدیار تھے کیونکہ یہ بستی شام علاقے میں تھی اور آپ عراق کے رہائشی تھے نیز وہاں ان کے خاندان کاکوئی فرد نہ تھا صرف ایک بیوی وہ بھی در پردہ قوم کے ساتھ تھی اور حضرت لوط ؑ سے انتہائی بے وفا تھی۔ جب قوم لوط ؑ کے مہمانوں کے ساتھ بدتمیزی کرنے پر اتر آئی تو انھوں نے کہا: کاش!میرے پاس ذاتی قوت ہوتی یا میرا یہاں کوئی خاندان یا قبیلہ ہوتا جو آج میری عزت کا دفاع کرتا۔ اس کے بعد جتنے بھی نبی مبعوث ہوئے ہیں وہ بڑے جتھے اور قبیلے والےتھے۔ غالباً قوم شعیب نے خاندانی اثر و رسوخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ ”اگر تمھاری برادری نہ ہوتی تو ہم تمھیں سنگسار کر دیتے۔ “(ھود: 91/11) 2۔ امام نووی ؒ فرماتے ہیں: ”جب حضرت لوط ؑ اپنے مہمانوں کا حال دیکھ کر گھبرائے تو اس وقت فرمایا وہ کسی مضبوط سہارے کی پناہ لینا چاہتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انھوں نے در پردہ اللہ کی پناہ ہی حاصل کی ہو لیکن معذرت خواہی کے طور پر مہمانوں کے سامنے یہ کلام ظاہر کیا ہو۔ اس کے بعد فرشتے بھی خاموش نہ رہ سکے اور کہنے لگے۔ آپ اتنے پریشان نہ ہوں ہم لڑکے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ یہ لوگ ہمیں چھیڑنا تو درکنار تمھارا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ جب رات کا کچھ حصہ گزر جائے تو آپ اپنے گھر والوں کو لے کر اس بستی سے نکل جائیں اور تم میں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے البتہ تمھاری بیوی پر وہی کچھ گزر نا ہے جو ان پر گزرے گا ان پر عذاب کے لیے صبح کا وقت مقرر ہو چکا ہے چنانچہ پھر انھیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ “
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3375
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3387
3387. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ حضرت لوط ؑ پر رحم فرمائے کہ وہ ایک مضبوط سہارے کی پناہ لینا چاہتے تھے۔ اور اگرمیں اتنی مدت تک قید خانے میں رہتا جتنی دیرحضرت یوسف ؑ رہے تھے، پھر میرے پاس (رہائی کےلیے)کوئی بلانے والا آتا تو میں میں فوراً اس کی دعوت پر لبیک کہتا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3387]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے سیدنایوسف ؑ کی تعریف فرمائی ہے کہ انھوں نے اپنی براءت کا صاف شاہی اعلان ہوئے بغیر جیل خانہ چھوڑنا پسند نہیں فرمایا۔ حضرت یوسف ؑ نے اللہ سے دعا کی تھی۔ ”اے میرےپروردگار! جس چیز کی طرف مجھے مصر کی عورتیں بلا رہی ہیں اس سے تو مجھے قید ہی پسند ہے“(یوسف: 12۔ 33) 2۔ حضرت یوسف ؑ نے جب خواب کی تعمیر اور اس سے بچنے کی تدبیر بتائی عزیز مصر عش عش کر اٹھا۔ کہنے لگا۔ ایسے شخص کو میرے پاس لایا جائے تاکہ میں اس کی زیارت سے فیض یاب ہو سکوں لیکن یوسف ؑ نے قیدسے باہرآنے سے انکار کر دیا، مقصد یہ تھا کہ جب تک اس جرم کی تحقیق نہ کی جائے اور پوری طرح میری بریت واضح نہ ہو جائے میں قید سے باہر آنے کو تیار نہیں ہوں کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ کسی ناواقف کے دل میں یہ شائبہ تک نہ رہے کہ شاید اس معاملے میں یوسف کا بھی کچھ قصور تھا۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ نے انکسار اور تواضع کے طور پر ایسا فرمایا۔ بصورت دیگر آپ تو عزم و استقلال کے پہاڑ تھے۔ ۔ ۔ صلی اللہ علیه وسلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3387