20. باب: آیت کی تفسیر ”بیشک تمہارے پاس ایک رسول آئے ہیں جو تمہاری ہی جنس میں سے ہیں، جو چیز تمہیں نقصان پہنچاتی ہے وہ انہیں بہت گراں گزرتی ہے، وہ تمہاری (بھلائی) کے انتہائی حریص ہیں اور ایمان والوں کے حق میں تو بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں“ «روف» ، «رأفة» سے نکلا ہے۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھے عبیداللہ بن سباق نے خبر دی اور ان سے زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے جو کاتب وحی تھے، بیان کیا کہ جب (11 ھ) میں یمامہ کی لڑائی میں (جو مسلیمہ کذاب سے ہوئی تھی) بہت سے صحابہ مارے گئے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا، ان کے پاس عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا، عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں بہت زیادہ مسلمان شہید ہو گئے ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ (کفار کے ساتھ) لڑائیوں میں یونہی قرآن کے علماء اور قاری شہید ہوں گے اور اس طرح بہت سا قرآن ضائع ہو جائے گا۔ اب تو ایک ہی صورت ہے کہ آپ قرآن کو ایک جگہ جمع کرا دیں اور میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ضرور قرآن کو جمع کرا دیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس پر میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا، ایسا کام میں کس طرح کر سکتا ہوں جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ کی قسم! یہ تو محض ایک نیک کام ہے۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ مجھ سے اس معاملہ پر بات کرتے رہے اور آخر میں اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لیے میرا بھی سینہ کھول دیا اور میری بھی رائے وہی ہو گئی جو عمر رضی اللہ عنہ کی تھی۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ وہیں خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم جوان اور سمجھدار ہو ہمیں تم پر کسی قسم کا شبہ بھی نہیں اور تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھا بھی کرتے تھے، اس لیے تم ہی قرآن مجید کو جابجا سے تلاش کر کے اسے جمع کر دو۔ اللہ کی قسم! کہ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے کوئی پہاڑ اٹھا کے لے جانے کے لیے کہتے تو یہ میرے لیے اتنا بھاری نہیں تھا جتنا قرآن کی ترتیب کا حکم۔ میں نے عرض کیا آپ لوگ ایک ایسے کام کے کرنے پر کس طرح آمادہ ہو گئے، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ ایک نیک کام ہے۔ پھر میں ان سے اس مسئلہ پر گفتگو کرتا رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لیے میرا بھی سینہ کھول دیا۔ جس طرح ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا سینہ کھولا تھا۔ چنانچہ میں اٹھا اور میں نے کھال، ہڈی اور کھجور کی شاخوں سے (جن پر قرآن مجید لکھا ہوا تھا، اس دور کے رواج کے مطابق) قرآن مجید کو جمع کرنا شروع کر دیا اور لوگوں کے (جو قرآن کے حافظ تھے) حافظہ سے بھی مدد لی اور سورۃ التوبہ کی دو آیتیں خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس مجھے ملیں۔ ان کے علاوہ کسی کے پاس مجھے نہیں ملی تھی۔ (وہ آیتیں یہ تھیں) «لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم حريص عليكم» آخر تک۔ پھر مصحف جس میں قرآن مجید جمع کیا گیا تھا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا، آپ کی وفات کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ رہا، پھر آپ کی وفات کے بعد آپ کی صاحبزادی (ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رہا)۔ شعیب کے ساتھ اس حدیث کو عثمان بن عمر اور لیث بن سعد نے بھی یونس سے، انہوں نے ابن شہاب سے روایت کیا، اور لیث نے کہا مجھ سے عبدالرحمٰن بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب سے روایت کیا اس میں خزیمہ کے بدلے ابوخزیمہ انصاری ہے اور موسیٰ نے ابراہیم سے روایت کی، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، اس روایت میں بھی ابوخزیمہ ہے۔ موسیٰ بن اسماعیل کے ساتھ اس حدیث کو یعقوب بن ابراہیم نے بھی اپنے والد ابراہیم بن سعد سے روایت کیا اور ابوثابت محمد بن عبیداللہ مدنی نے، کہا ہم سے ابراہیم نے بیان کیا اس روایت میں شک کے ساتھ خزیمہ یا ابوخزیمہ مذکور ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4679]
القتل قد استحر يوم اليمامة بقراء القرآن وإني أخشى أن يستحر القتل بقراء القرآن في المواطن كلها فيذهب قرآن كثير تأمر بجمع القرآن كيف أفعل شيئا لم يفعله رسول الله هو والله خير شرح الله صدري للذي شرح له صدر عمر إنك رجل شاب عاقل لا
القتل قد استحر يوم اليمامة بالناس وإني أخشى أن يستحر القتل بالقراء في المواطن فيذهب كثير من القرآن إلا أن تجمعوه أرى أن تجمع القرآن كيف أفعل شيئا لم يفعله رسول الله هو والله خير شرح الله لذلك صدري ورأيت الذي رأى عمر إنك رجل شاب
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4679
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت زید بن ثابت ؓ کو سورہ توبہ کی آخری دوآیات تحریری شکل میں صرف حضرت خذیمہ انصاری ؓ کے پاس ملیں۔ زبانی طور پر سب کو یاد تھیں، البتہ حضرت زید ؓ کو ایسے لکھے ہوئے کی تلاش تھی جو نزول آیات کے وقت رسول اللہ ﷺ نے کتابت کے ذریعے سے محفوظ کیا تھا۔ 2۔ سورہ توبہ کی آخری دو آیات حضرت خذیمہ ؓ کے پاس سے ملیں یا ابوخذیمہ ؓ کے پاس سے، اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: سورہ توبہ کی آخری دوآیات تو حضرت خذیمہ انصاری ؓ کے پاس سے ملیں جو جنگ بدر میں شریک تھے۔ اور حضرت عثمان ؓ کے دور حکومت میں وفات پائی اور سورۃ الاحزاب کی آیت: ﴿مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ.....﴾ حضرت خذیمہ انصاری ؓ کے پاس سے ملی جن کی گواہی کورسول اللہ ﷺ نے دوگواہوں کے برابر قراردیا تھا۔ (فتح الباري: 437/8) روایت میں اگرچہ اختلاف ہے تاہم ترجیح کی وہ صورت جو ہم نے بیان کی ہے قابل اعتبار ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4679
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7191
7191. سیدنا زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ یمامہ سے جنگ میں بکثرت شہادت کی بنا پر سیدنا ابو بکر ؓ نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت ان کے پاس سیدنا عمر ؓ بھی تھے۔ سیدنا ابو بکر ؓ نے فرمایا: میرے پاس سیدنا عمر ؓ آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ جنگ میں قرآن کے قاریوں کا قتل بہت ہوا ہے اور مجھے ڈر ہے اگر اسی طرح قرآن کے قاری دوسری جنگوں میں قتل ہوتے رہے توقرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہوجائے گا۔ میرا خیال ہے کہ آپ قرآن جمع کرنے کا اہتمام کریں۔ میں نے (انہیں) کہا: میں وہ کام کسے کرسکتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا؟ سیدنا عمر ؓ کہا: اللہ کی قسم! یہ تو کار خیر ہے۔اور وہ مسلسل میرے ساتھ اس مسئلے میں تکرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میں میرا سینہ اس کے لیے کھول دیا جس کے لیے عمر ؓ سینہ کھولا تھا اور میں بھی وہی مناسب خیال کرنے لگا جسے سیدنا عمر ؓ مناسب سمجھتے تھے۔ سیدنا زید ؓ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:7191]
حدیث حاشیہ: باب کا مضمون اس سے ثابت ہوا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک اہم تحریر کے لیے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا انتخاب فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7191
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7191
7191. سیدنا زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ یمامہ سے جنگ میں بکثرت شہادت کی بنا پر سیدنا ابو بکر ؓ نے مجھے بلا بھیجا۔ اس وقت ان کے پاس سیدنا عمر ؓ بھی تھے۔ سیدنا ابو بکر ؓ نے فرمایا: میرے پاس سیدنا عمر ؓ آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ جنگ میں قرآن کے قاریوں کا قتل بہت ہوا ہے اور مجھے ڈر ہے اگر اسی طرح قرآن کے قاری دوسری جنگوں میں قتل ہوتے رہے توقرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہوجائے گا۔ میرا خیال ہے کہ آپ قرآن جمع کرنے کا اہتمام کریں۔ میں نے (انہیں) کہا: میں وہ کام کسے کرسکتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا؟ سیدنا عمر ؓ کہا: اللہ کی قسم! یہ تو کار خیر ہے۔اور وہ مسلسل میرے ساتھ اس مسئلے میں تکرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میں میرا سینہ اس کے لیے کھول دیا جس کے لیے عمر ؓ سینہ کھولا تھا اور میں بھی وہی مناسب خیال کرنے لگا جسے سیدنا عمر ؓ مناسب سمجھتے تھے۔ سیدنا زید ؓ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:7191]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث کے مطابق حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےحضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوعقلمند کہا،پھر اسی عقل ودانش کو ان کے امانت دار ہونے کا سبب قراردیا بصورت دیگرصرف عقل مند ہونا توامانت دار ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ بہت سے عقلمند پر لے درجے کے خیانت پیشہ ثابت ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں عبداللہ بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی فریضہ کتابت ادا کرتے تھے۔ ان کی امانت ودیانت کا یہ حال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملوک وسلاطین (بادشاہوں) کتابت کرتے تھے۔ 2۔ روایات میں ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک عیسائی کاتب رکھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں ڈانٹا اوریہ آیت تلاوت فرمائی: ”اے ایمان والو!یہودونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ “(المآئدة: 51) حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: اسے میں نے دوست نہیں بنایا بلکہ بطور کاتب رکھا ہے۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا تمھیں مسلمانوں میں کوئی کاتب نہیں ملتا جو تمہارا یہ کام کرسکے؟ جب اللہ تعالیٰ نے انھیں دور کیا ہے، خیانت پیشہ کہا ہے اور ذلیل قرار دیا ہے تو تم انھیں اپنےقریب کیوں کرتے ہو؟ انھیں امانت دارقرار دیتے ہو اور یہ عہدہ دے کر ان کی حوصلہ افزائی کیوں کرتے ہو۔ (فتح الباري: 13/228)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7191