ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہ کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے، کہا ہم سے ابونضر سالم بن ابی امیہ نے عبید بن حنین کے واسطہ سے، انہوں نے بسر بن سعید سے، انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا اور آخرت کے رہنے میں اختیار دیا (کہ وہ جس کو چاہے اختیار کرے) بندے نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے یعنی آخرت۔ یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے، میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر اللہ نے اپنے کسی بندے کو دنیا اور آخرت میں سے کسی کو اختیار کرنے کو کہا اور اس بندے نے آخرت پسند کر لی تو اس میں ان بزرگ کے رونے کی کیا وجہ ہے۔ لیکن یہ بات تھی کہ بندے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا۔ ابوبکر آپ روئیے مت۔ اپنی صحبت اور اپنی دولت کے ذریعہ تمام لوگوں سے زیادہ مجھ پر احسان کرنے والے آپ ہی ہیں اور اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔ لیکن (جانی دوستی تو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ہو سکتی) اس کے بدلہ میں اسلام کی برادری اور دوستی کافی ہے۔ مسجد میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف کے دروازے کے سوا تمام دروازے بند کر دئیے جائیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 466]
خيره الله بين أن يؤتيه من زهرة الدنيا ما شاء وبين ما عنده فاختار ما عنده بكى أبو بكر وقال فديناك بآبائنا وأمهاتنا فعجبنا له وقال الناس انظروا إلى هذا الشيخ يخبر رسول الله عن عبد خيره الله بين أن يؤتيه من زهرة الدنيا وبين ما عنده وهو
الله خير عبدا بين الدنيا وبين ما عنده فاختار ما عند الله بكى أبو بكر الصديق فقلت في نفسي ما يبكي هذا الشيخ إن يكن الله خير عبدا بين الدنيا وبين ما عنده فاختار ما عند الله فكان رسول الله هو العبد وكان أبو بكر أعلمنا قال يا أبا بكر لا
الله خير عبدا بين الدنيا وبين ما عنده فاختار ذلك العبد ما عند الله قال بكى أبو بكر فعجبنا لبكائه أن يخبر رسول الله عن عبد خير فكان رسول الله هو المخير وكان أبو بكر أعلمنا فقال رسول الله إن من أ
خيره الله بين أن يؤتيه من زهرة الدنيا ما شاء وبين ما عنده فاختار ما عنده فقال أبو بكر فديناك يا رسول الله بآبائنا وأمهاتنا قال فعجبنا فقال الناس انظروا إلى هذا الشيخ يخبر رسول الله عن عبد خيره الله بين أن يؤتيه من زهرة الدنيا ما شاء وبين ما ما شاء وبين
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:466
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒ یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اگر مسجد سےمتصل مکان کی کھڑکی مسجد کی طرف کھول دی جائے تاکہ مسجد میں آنے کی سہولت ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟مذکورہ روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم و فضل کے لیے یہ خصوصی اجازت ہے کہ وہ مسجد میں حاضری کی سہولت کے پیش نظر مکان کے عقبی جانب کوئی کھڑکی وغیرہ نکالیں۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا مکان مسجد سے متصل تھا اور اس کا اصل دروازہ مغربی جانب تھا، لیکن اس کے عقبی جانب مسجد نبوی میں آنے کے لیے ایک کھڑی تھی جس سے بوقت ضرورت مسجد میں آتے جاتے تھے۔ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی اپنے اپنے مکانات سے مسجد نبوی کی جانب کھڑکیاں کھول رکھی تھیں۔ نبی ﷺ نے مرض وفات میں اللہ کے حکم سے ان تمام دروازوں اور کھڑکیوں کو بند کردینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ا بو بکر کی کھڑکی کے علاوہ تمام دروازے بند کردیے جائیں۔ 2۔ اس حدیث میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت کی طرف بھی اشارہ تھا کہ انھیں خلافت کے زمانے میں نماز پڑھانے کے لیے آنے جانے میں سہولت رہے گی۔ چنانچہ ابن حبان ؒ نے اس روایت کی بایں الفاظ تشریح کی ہے: یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے خلیفہ ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ آپ نے یہ کہہ کر کہ مسجد میں سے ابو بکر ؓ کے علاوہ تمام صحابہ کی کھڑکیاں بند کردی جائیں تمام لوگوں کی خلافت سے متعلق دلچسپی کو یکسر ختم کردیا۔ (فتح الباري: 19/7) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں طبع سلیم رکھنے والوں کے لیے اس روایت میں حضرت ابو بکرصدیق ؓ کی خلافت کے متعلق بالکل واضح استدلال ہے۔ متعدد احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے ایک یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت آئی تو آپ نے اسے دوبارہ آنے کے متعلق فرمایا: اس نے عرض کیا: اگر میں دوبارہ آؤں اور آپ دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں تو کس کے پاس جاؤں؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تم مجھے نہ پاؤں تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آنا۔ “(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي، صلی اللہ علیه وسلم، حدیث: 3659) 3۔ مسجد نبوی کی طرف دروازہ باقی رکھنے کی فضیلت حضرت علی ؓ کے متعلق بھی منقول ہے چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مسجد کے تمام دروازے بند کردیے جائیں، لیکن حضرت علی ؓ کا دروازہ بند نہ کیا جائے۔ “(مسند أحمد: 331/1) حضرت علی ؓ کے گھر کا دروازہ مسجد نبوی میں کھلتا تھا۔ امام ابن جوزی ؒ نے اس روایت کو موضوع قراردیا ہے اور لکھا ہے کہ روافض نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی فضیلت سے معارضے کے لیے اس روایت کو وضع کیا ہے، لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے اس روایت پر کلام کرتے ہوئے بتایا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی منقبت سے متعلق یہ روایت متعدد طرق سے ثابت ہے اور کچھ روایات درجہ حسن کی ہیں اس لیے اسے موضوع قراردینا درست نہیں۔ البتہ ان کے مابین تعارض کو اس طرح ختم کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایک وقت کی بات نہیں دوبار الگ الگ اوقات میں دروازے بند کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔ حضرت علی ؓ کے دروازے کا کھلا رہنا بہت پہلے کی بات ہے اور اس کا سبب یہ تھا کہ ان کے گھر کا دروازہ ہی ایک تھا اور وہ مسجد میں کھلتا تھا اس مجبوری کے پیش نظر جب پہلی بار دروازے بند کرائے تو حضرت علی ؓ کا دروازہ کھلا رہا دیگر دروازے بندے کردیے گئے۔ لیکن مسجد نبوی میں آتے وقت فاصلہ کم کرنے کے لیے کھڑکیاں باقی رکھی گئیں۔ پھر جب آپ وفات سے چند یوم پہلے مسجد میں تشریف لائے تو ان تمام کھڑکیوں کو بھی بند کردیا گیا صرف حضرت ابو بکرصدیق ؓ کی کھڑکی کو کھلا رہنے کی اجازت دی گئی تاکہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد نماز پڑھانے کی خدمت بجا لانے میں سہولت رہے اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت کے متعلق بھی واضح ہدایت ہوجائے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس تطبیق کو ابو بکر کلا بازی ؒ اور امام طحاوی ؒ کی طرف منسوب کر کے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 20/7) 4۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے علوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آپ کے مرض وفات میں پیش آیا، چنانچہ آپ کی وفات سے چار دن پہلے جو جمعرات تھی اس کی صبح واقعہ قرطاس پیش آیا کہ آپ کچھ تحریر کرانا چاہتے تھے لیکن لوگوں کے باہمی اختلاف اور شور و شغب درست نہیں۔ ”اس کے بعد آپ نے آرام فرمایا: پھر ظہر کے وقت جب بیماری میں کچھ کمی محسوس ہوئی تو ارشاد فرمایا کہ پانی کی سات مشکیں میرے سر پر ڈالوشاید کچھ سکون ہواوربعض لوگوں کو کچھ وصیت کر سکوں۔ حکم کی تعمیل کی گئی تو قدرے سکون ہوا۔ پھر آپ حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کا سہارا لے کر مسجد میں تشریف لائے ظہر کی نماز پڑھائی اور اس کے بعد منبر پر فروکش ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا۔ یہ خطبہ آپ کی زندگی کا آخری خطبہ تھا واقعہ قرطاس صبح کو پیش آیا اور اسی دن ظہر کے بعد آپ نے خطبہ دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خطبے میں وہی مضمون تھا جو آپ تحریر فرمانا چاہتے تھے۔ 5۔ خلت سے مراد تعلق ہے جو صرف اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ نے ایسے الفاظ استعمال فرمائے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو بکر اور آپ کے درمیان یہ تعلق ممکن ہی نہیں، البتہ اسلامی اخوت اور دینی محبت کا اعلیٰ سے اعلیٰ جو درجہ ہو سکتا ہے وہ ابو بکر صدیق ؓ اور آپ کے درمیان قائم ہے ان کے برابر نہ کسی کی مودت ہے اور نہ اخوت ان الفاظ میں حضرت ابو بکرصدیق ؓ کی جو منقبت بیان ہوئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ پوری امت میں ان کے درجے کا کوئی نہیں ہے۔ ۔ ۔ رضی اللہ عنہ۔ ۔ ۔ واضح رہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا یہ مکان مسجد نبوی سے متصل اور باب السلام اور باب الرحمة کے درمیان واقع تھا پھر آپ نے اس مکان کو فروخت کردیا اور اس کی قیمت مسلمانوں کی اجتماعی ضرورت پر صرف کردی لیکن اس کے بعد بھی وہ مکان حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے مشہور رہا۔ اب وہاں مسجد نبوی کا ایک مستقل دروازہ ”باب ابی بکر“ کے نام سے تعبیر کردیا گیا ہے اور اس کھڑکی کی جگہ: (هذه خوخة أبي بكر(الصديق رضي الله عنه) لکھ دیا گیا ہے۔ نوٹ: ۔ ان دوں احادیث کے بقیہ فوائد "کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم "میں تحریر کیے جائیں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 466
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3660
´فضائل ابوبکر رضی الله عنہ پر ایک اور باب` ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا: ”ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ وہ دنیا کی رنگینی کو پسند کرے یا ان چیزوں کو جو اللہ کے پاس ہیں“، تو اس نے ان چیزوں کو اختیار کیا جو اللہ کے پاس ہیں، اسے سنا تو ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے اپنے باپ دادا اور اپنی ماؤں کو آپ پر قربان کیا ۱؎ ہمیں تعجب ہوا، لوگوں نے کہا: اس بوڑھے کو دیکھو! اللہ کے رسول ایک ایسے بندے کے بارے میں خبر دے رہے ہیں جسے اللہ نے یہ اختیار دیا کہ وہ یا تو دنیا کی رنگینی کو اپنا لے یا اللہ کے پاس جو کچ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3660]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی: ہمارے ماں باپ کی عمریں آپﷺ کو مل جائیں تاکہ آپﷺ کا سایہ ہم پر تادیر اور مزید قائم رہے۔
2؎: یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تمام صحابہ پر فضیلت کی دلیل ہے۔ مسجد نبوی میں یہ دروازہ آج بھی موجود ہے، محراب کی دائیں جانب پہلا دروازہ باب السلام ہے اوردوسرا خوخۃ ابی بکر رضی اللہ عنہ
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3660
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3654
3654. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا اور جواللہ کے پاس ہے ان میں سے کسی ایک کا اختیار دیا تو اس بندے نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے۔“ یہ سن کرحضرت ابوبکر ؓ رونے لگے۔ ہم نے ان کے رونے پر تعجب کیا کہ رسول اللہ ﷺ توایک بندے کے متعلق خبر دے رہے ہیں جسے اختیار دیا گیا ہے!بعدمیں پتہ چلا کہ جنھیں اختیار دیا گیا تھا وہ خود رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی تھی۔ واقعی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنی رفاقت اور اپنے مال کے ذریعے مجھ پر سب سے زیادہ احسانات ابو بکر کے ہیں۔ اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر ؓ کو بناتا لیکن ان سے اسلامی اخوت اور دینی محبت ہے۔ مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کردیے جائیں مگر ابوبکر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3654]
حدیث حاشیہ: حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو ایک ممتاز مقام عطا فرمایا اور آج تک مسجد نبوی میں یہ تاریخی جگہ محفوظ رکھی گئی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3654
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3904
3904. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) رسول اللہ ﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے ایک بندے کو اختیار دیا ہے کہ اگر وہ دنیا کی ظاہری رونق میں سے جو چاہے اللہ اسے وہ دے دے گا یا وہ نعمتیں پسند کر لے جو اللہ کے پاس ہیں تو اس نے ان نعمتوں کو پسند کیا جو اللہ کے پاس ہیں۔“ یہ سن کر حضرت ابوبکر ؓ رو پڑے اور فرمایا: ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ ہم نے ان پر تعجب کیا اور لوگوں نے کہا: اس بوڑھے کو دیکھو کہ رسول اللہ ﷺ تو ایک بندے کے متعلق خبر دے رہے ہیں جسے اللہ تعالٰی نے دنیا کی تروتازگی ور اپنی نعمتیں دینے میں اختیار دیا ہے اور یہ شیخ کہتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ دراصل رسول اللہ ﷺ ہی کو اختیار دیا گیا تھا۔ اور ہم میں سب سے زیادہ ابوبکر ؓ اس کو جاننے والے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ”رفاقت اور مال کے اعتبار سے مجھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3904]
حدیث حاشیہ: ہوا یہ تھا کہ مسلمانوں نے جو مسجد بنوی کے ارد گرد رہتے تھے اپنے ا پنے گھروں میں ایک ایک کھڑکی مسجد کی طرف کھول لی تھی تاکہ جلدی سے مسجد کی طرف چلے جا ئیں یا جب چاہیں آنحضرت ﷺ کی زیارت اپنے گھر ہی سے کر لیں آپ نے حکم دیا یہ کھڑکیاں سب بند کردی جائیں صرف ابو بکر ؓ کی کھڑکی قائم رہے۔ بعض نے اس حدیث کوحضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت اور افضلیت مطلقہ کی دلیل ٹھہرائی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3904
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3654
3654. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا اور جواللہ کے پاس ہے ان میں سے کسی ایک کا اختیار دیا تو اس بندے نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے۔“ یہ سن کرحضرت ابوبکر ؓ رونے لگے۔ ہم نے ان کے رونے پر تعجب کیا کہ رسول اللہ ﷺ توایک بندے کے متعلق خبر دے رہے ہیں جسے اختیار دیا گیا ہے!بعدمیں پتہ چلا کہ جنھیں اختیار دیا گیا تھا وہ خود رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی تھی۔ واقعی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنی رفاقت اور اپنے مال کے ذریعے مجھ پر سب سے زیادہ احسانات ابو بکر کے ہیں۔ اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر ؓ کو بناتا لیکن ان سے اسلامی اخوت اور دینی محبت ہے۔ مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کردیے جائیں مگر ابوبکر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3654]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ مجھ پر کسی نے احسان نہیں کیا،انھوں نے اپنی جان نچھاور کی،اپنا مال قربان کیا اور اپنی لخت جگر اور نورنظر میرےنکاح میں دی۔ “(المعجم الکبیر للطبراني: 191/11) 2۔ واضح رہے کہ حدیث میں دروازے سے مراد ابوبکرصدیق ؓ کی کھڑکی ہے،جومسجد کی طرف کھلتی تھی اور اسے کھلا رہنے دیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کو ایک ممتاز مقام عطا فرمایا۔ آج بھی مسجد نبوی میں یہ تاریخی مقام دیکھا جاسکتا ہے جہاں (خوخة أبي بكر) لکھا ہوا ہے۔ 3۔ ایک حدیث میں ہے: رسول اللہ ﷺ نے مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کردینے کا حکم دیا لیکن حضرت علی ؓ کا دروازہ اپنے حال پر رہنے دیا۔ (مسند الإمام أحمد: 175/1) یہ حدیث مذکورہ روایت کے منافی نہیں کیونکہ حضر ت علی ؓ کے دروازے سے مراد حقیقی دروازہ ہے اور حضرت ابوبکر ؓ کے دروازے سے مراد کھڑکی ہے جو مسجد کی طرف کھلتی تھی۔ دراصل مسجد کے پاس رہنے والے لوگوں نے اپنی سہولت کے پیش نظر اپنے گھروں کے دروازے مسجد کی طرف کھول لیے تھے جو بعد میں بند کردینے کا حکم دیا،صرف حضرت علی کا د روازہ کھلا رہنے دیا گیا کیونکہ ان کا دروازہ باہر نہیں کھلتا تھا۔ اس کے بعد لوگوں نے چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں مسجد کی طرف کھول لیں تو دوسری مرتبہ حکم امتناعی جاری ہوا کہ ان تمام کھڑکیوں کو بند کردیا جائے۔ البتہ ابوبکر ؓ کی کھڑکی کھلی رہے۔ 4۔ محدثین نے لکھا ہے کہ اس اقدام سے حضرت ابوبکر کی خلافت کی طرف نمایاں اشارہ تھا تاکہ انھیں خلافتی امور نمٹانے میں سہولت رہے۔ (فتح الباري: 20/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3654
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3904
3904. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) رسول اللہ ﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے ایک بندے کو اختیار دیا ہے کہ اگر وہ دنیا کی ظاہری رونق میں سے جو چاہے اللہ اسے وہ دے دے گا یا وہ نعمتیں پسند کر لے جو اللہ کے پاس ہیں تو اس نے ان نعمتوں کو پسند کیا جو اللہ کے پاس ہیں۔“ یہ سن کر حضرت ابوبکر ؓ رو پڑے اور فرمایا: ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ ہم نے ان پر تعجب کیا اور لوگوں نے کہا: اس بوڑھے کو دیکھو کہ رسول اللہ ﷺ تو ایک بندے کے متعلق خبر دے رہے ہیں جسے اللہ تعالٰی نے دنیا کی تروتازگی ور اپنی نعمتیں دینے میں اختیار دیا ہے اور یہ شیخ کہتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ دراصل رسول اللہ ﷺ ہی کو اختیار دیا گیا تھا۔ اور ہم میں سب سے زیادہ ابوبکر ؓ اس کو جاننے والے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ”رفاقت اور مال کے اعتبار سے مجھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3904]
حدیث حاشیہ: 1۔ کچھ صحابہ کرام ؓ نے اپنی سہولت کے لیے اپنے گھروں کے دریچے مسجد نبوی کی طرف کھولے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سب دریچوں کو بند کرنے کا حکم دیا لیکن حضرت ابوبکر ؓ کے دریچے کو اس سے مستثنیٰ قراردیا تاکہ دوسرے صحابہ کرام ؓ سے آپ کی امتیازی حیثیت برقراررہے۔ اس دریچے اور کھڑکی کا باقی رکھنا حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے۔ 2۔ اس حدیث میں رفاقت سے مراد سفرہجرت ہے جس میں اور کوئی صحابی شریک نہیں۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3904