ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے زید بن وہب نے بیان کیا کہ ہم حذیفہ بن یمان کی خدمت میں حاضر تھے۔ انہوں نے کہا یہ آیت جن لوگوں کے بارے میں اتری ان میں سے اب صرف تین شخص باقی ہیں، اسی طرح منافقوں میں سے بھی اب چار شخص باقی ہیں۔ اتنے میں ایک دیہاتی کہنے لگا آپ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں، ہمیں ان لوگوں کے متعلق بتائیے کہ ان کا کیا حشر ہو گا جو ہمارے گھروں میں چھید کر کے اچھی چیزیں چرا کر لے جاتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ فاسق بدکار ہیں۔ ہاں ان منافقوں میں چار کے سوا اور کوئی باقی نہیں رہا ہے اور ایک تو اتنا بوڑھا ہو چکا ہے کہ اگر ٹھنڈا پانی پیتا ہے تو اس کی ٹھنڈ کا بھی اسے پتہ نہیں چلتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4658]
ما بقي من أصحاب هذه الآية إلا ثلاثة ولا من المنافقين إلا أربعة فقال أعرابي إنكم أصحاب محمد تخبرونا فلا ندري فما بال هؤلاء الذين يبقرون بيوتنا ويسرقون أعلاقنا قال أولئك الفساق أجل لم يبق منهم إلا أربعة أحدهم شيخ كبير لو شرب الماء البار
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4658
حدیث حاشیہ: آیت میں ائمة الکفر سے ابو سفیان اور ابو جہل اور عتبہ اور سہیل بن عمرو وغیرہ مراد ہیں۔ حذیفہ ؓ کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب لوگ مارے گئے یا مر گئے صرف تین اشخاص ان میں سے زندہ ہیں۔ یعنی ابو سفیان اور سہیل اور ایک اورکوئی شخص۔ گو اس وقت ابو سفیان اور سہیل مسلمان ہو گئے تھے۔ مگر آیت کے اترتے وقت یہ لوگ ائمة الکفر تھے جس سے افواج کفار کے سر کردہ مراد ہیں۔ حذیفہ ؓ آنحضرت ﷺ کے محرم راز تھے۔ ان کو معلوم ہوگا۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ مذکورہ چار منافقین کے نام مجھ کو معلوم نہیں ہوئے۔ (فتح الباری)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4658
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4658
حدیث حاشیہ: 1۔ امام ابن جریر نے اپنی تفسیر میں وضاحت کی ہے کہ حضرت حذیفہ ؓ نے ﴿فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ﴾ کو تلاوت کر کے فرمایا کہ اس آیت کے مصداق لوگوں سے لڑائی کا موقع نہیں آیا۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں۔ ”کہ ان سے جنگ اس لیے نہیں کی گئی کہ ان سے جنگ کی دو شرطیں پوری نہیں ہو رہی تھیں کیونکہ انھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ “(فتح الباري: 410/8) نزول آیت کے وقت جو آئمہ کفر زندہ تھے وہ حضرت ابو سفیان بن حرب اور حضرت سہیل بن عمر ؓ ہیں یہ دونوں حضرات مسلمان ہو چکے تھے اور اسلام نے ان کی سابقہ خطاؤں کو معاف کردیا تھا اس لیے ان سے جنگ کرنے کا موقع نہیں آیا۔ 2۔ حضرت حذیفہ ؓ راز دان تھے۔ انھیں منافقین اور آئمہ کفر کا علم تھا۔ اس لیے انھوں نے حدیث میں وضاحت کی ہے کہ آئمہ کفر سے لڑنے کا موقع نہیں ملا۔ 3۔ اعرابی کے سوال کا مقصد یہ تھا کہ آئمہ کفر میں سے تین اور منافقین میں سے چار باقی رہ گئے تو اتنے تھوڑے آدمی تو ڈاکا زنی وغیرہ کا چکر نہیں چلا سکتے۔ پھر یہ لوگ کون ہیں؟ حضرت حذیفہ ؓ نے بتایا کہ یہ فاسق و فاجر تو ہو سکتے ہیں لیکن آئمہ کفر اور منافقین نہیں ہیں۔ ان منافقین میں سے ایک اس قدر عمررسیدہ ہے کہ اگر ٹھنڈا پانی پیے تو اسے ٹھنڈک محسوس نہیں ہوتی یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے اس دنیا میں سزا دے رکھی ہے کہ وہ پانی کی لذت اور ٹھنڈک نہیں پاتا۔ واللہ اعلم۔ 4۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی اسلامی حکومت میں رہنے والے اہل ذمہ دین اسلام کا مذاق اڑائیں یا طعنہ زنی کریں تو ان کا معاہدہ ختم اور ان کی سر کوبی کرنا اسلامی حکومت کا فرض ہوتا ہے۔ اسی طرح جو ذمی رسول اللہ ﷺ کو گالی دے یا آپ کا مذاق اڑائے یا آپ کی شان میں گستاخی کرے تو وہ بھی واجب القتل ہے کیونکہ یہ دین میں طعنہ زنی کی ایک بدترین قسم ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4658