ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ سے سالم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فجر کی دوسری رکعت کے رکوع سے سر اٹھا کر یہ بددعا کی۔ ”اے اللہ! فلاں، فلاں اور فلاں کافر پر لعنت کر۔ یہ بددعا آپ نے «سمع الله لمن حمده» اور «ربنا ولك الحمد» کے بعد کی تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «ليس لك من الأمر شىء»”آپ کو اس میں کوئی دخل نہیں۔“ آخر آیت «فإنهم ظالمون» تک۔ اس روایت کو اسحاق بن راشد نے زہری سے نقل کیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4559]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4559
حدیث حاشیہ: اسحاق بن راشد کی روایت کو طبرانی نے معجم کبیر میں وصل کیا ہے۔ آپ نے چار شخصوں کا نام لے کر بد دعا کی تھی۔ صفوان بن امیہ، سہیل بن عمیر، حارث بن ہشا م اور عمرو بن عاص ؓ اور بعد میں یہ چاروں مسلمان ہو گئے۔ اللہ کو ان کا مستقبل معلوم تھا، اسی لیے اللہ نے ان پر لعنت کرنے سے منع فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4559
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4559
حدیث حاشیہ: 1۔ بعض روایات میں اس آیت کا سبب نزول ان الفاظ میں بیان ہوا ہے کہ غزوہ اُحد میں رسول اللہ ﷺ کا اگلا دانت ٹوٹ گیا اور سرمبارک زخمی ہوگیا۔ آپ ﷺ اپنے چہرے سے خون صاف کرتے اور فرماتے: "وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کاسرزخمی کردیا اور دانت توڑدیا، حالانکہ وہ انھیں اللہ کی طرف دعوت دے رہا تھا۔ " تو اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 4645۔ (1791) 2۔ ایک روایت میں وضاحت ہے کہ آپ نے جن نامور مشرکین کا نام لے کر بددعا کی وہ یہ ہیں: صفوان بن امیہ، ابوسفیان اور حارث بن ہشام۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3004) مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ چند ہی روز گزرے تھے کہ جن مشرکین کے خلاف آپ نے بددعا کی تھی اللہ تعالیٰ نے انھیں آپ کے قدموں میں لا ڈالا اور اسلام کے جانباز سپاہی بنادیا، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان سب کو دین اسلام کی طرف مائل کردیا۔ (مسند أحمد: 104/2) 3۔ حافظ ا بن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ چوتھے شخص حضرت عمرو بن عاص تھے۔ (فتح الباري: 284/8) ان حضرات کا مستقبل اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ یہ حضرات حلقہ بگوش اسلام ہوں گے، اس لیے یہ آیت نازل فرما کر آپ کو بددعا کرنے سے روک دیاگیا۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4559