فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 494
´اجتہاد قبلہ متعین کرنے کے بعد اس کی غلطی واضح ہو جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ لوگ قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی دوران ایک آنے والا آیا، اور کہنے لگا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آج رات (وحی) نازل کی گئی ہے، اور آپ کو حکم ملا ہے کہ (نماز میں) کعبہ کی طرف رخ کریں، لہٰذا تم لوگ بھی اسی کی طرف رخ کر لو، (اس وقت) ان کے چہرے شام (بیت المقدس) کی طرف تھے، تو وہ لوگ کعبہ کی طرف گھوم گئے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 494]
494 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ باجماعت نماز پڑھ رہے تھے تو یہ اطلاع پہنچی، گویا ایسا ہی واقعہ مسجد بنوحارثہ میں عصر کی نماز کے اندر پیش آیا، لیکن چونکہ مسجد قباء کی اپنی فضیلت و اہمیت ہے، اس لیے اس کا نام مسجد قبلتین نہیں پڑا تاکہ بحیثیت مسجد قباء ہونے کے اس کی جو اہمیت ہے وہ دب نہ جائے، بخلاف مسجد قبلتین کے کہ اس کا قبلتین ہونا ہی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔
➋تمام احادیث کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تحویل قبلہ کا حکم ظہر کی نماز کے وقت اترا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبے کی طرف اولین نماز، ظہر کی پڑھی۔ آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والوں نے یہ اطلاع دوسری مساجد میں پہنچائی۔ مدینے والوں کو یہ اطلاع عصر کی نماز کے دوران میں ملی۔ انہوں نے نماز کی حالت ہی میں رخ بدل لیا۔ مسجد قباء میں شہر سے واپس جانے والوں نے صبح کی نماز کے وقت اطلاع پہنچائی۔
➌امام صاحب کا استدلال یوں ہے کہ تحویل قبلہ کے حکم کے بعد تین نمازیں اہل قباء نے غیرقبلہ کی طرف پڑھیں، لیکن چونکہ اس بات کا پتہ ان نمازوں کی ادائیگی کے بعد چلا، لہٰذا دہرانے کی ضرورت نہ تھی۔ اب ابھی اگر نماز کی ادائیگی کے بعد پتہ چلے کہ نماز غلط جانب پڑھی گئی ہے تو دہرانے کی ضرورت نہیں، بشرطیکہ نماز سے پہلے قبلہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 494
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 746
´کوشش اور اجتہاد کے بعد قبلہ کے غلط ہو جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ لوگ مسجد قباء میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی دوران ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا: آج رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ قرآن نازل ہوا ہے، اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ قبلہ (کعبہ) کی طرف رخ کریں، تو ان لوگوں نے کعبہ کی طرف رخ کر لیا، اور حال یہ تھا کہ ان کے چہرے شام کی طرف تھے تو وہ کعبہ کی طرف (جنوب کی طرف) گھوم گئے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 746]
746 ۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 494۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 746
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 403
403. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک ایک آنے والا آیا اور اس نے اطلاع دی کہ آج رات رسول اللہ ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے اور اس میں آپ کو استقبال کعبہ کا حکم دے دیا گیا ہے، لہذا تم بھی کعبے کی طرف اپنا رخ کر لو، چنانچہ وہ (سنتے ہی) کعبے کی طرف گھوم گئے جب کہ اس وقت ان کا رخ شام کی طرف تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:403]
حدیث حاشیہ:
ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ عورتیں مردوں کی جگہ آگئیں اورمرد گھوم کر عورتوں کی جگہ چلے گئے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس کی صورت یہ ہوئی کہ امام جو مسجد کے آگے کی جانب تھا گھوم کر مسجد کے پیچھے کی جانب آگیا، کیونکہ جو کوئی مدینہ میں کعبہ کی طرف منہ کرے گا توبیت المقدس اس کے پیٹھ کی طرف ہوجائے گا اور اگرامام اپنی جگہ پر رہ کر گھوم جاتا تو اس کے پیچھے صفوں کی جگہ کہاں سے نکلتی اور جب امام گھوما تو مقتدی بھی اس کے ساتھ گھوم گئے اور عورتیں بھی یہاں تک کہ وہ مردوں کے پیچھے آگئیں۔
ضرورت کے تحت یہ کیا گیا۔
جیسا کہ وقت آنے پر سانپ مارنے کے لیے مسجد میں بحالت نماز گھومنا پھرنا درست ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 403
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7251
7251. سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے، اچانک ان کے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے کہا: بے شک رسول اللہ ﷺ پر رات قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ نماز میں کعبے کی طرف منہ کرلو۔ ان کے منہ شام کی جانب تھے، پھر وہ لوگ کعبے کی طرف پھر گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7251]
حدیث حاشیہ:
باب کی مطابقت یہ ہے کہ ایک شخص کی خبر پر مسجد قبا والوں نے عمل کیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7251
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:403
403. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک ایک آنے والا آیا اور اس نے اطلاع دی کہ آج رات رسول اللہ ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے اور اس میں آپ کو استقبال کعبہ کا حکم دے دیا گیا ہے، لہذا تم بھی کعبے کی طرف اپنا رخ کر لو، چنانچہ وہ (سنتے ہی) کعبے کی طرف گھوم گئے جب کہ اس وقت ان کا رخ شام کی طرف تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:403]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری ؒ جہل نسیان کو عذرٹھہرانے میں کچھ زیادہ ہی وسیع النظر ہیں، چنانچہ انھوں نے اس مقام پر ایک مستقل عنوان قائم کرکے بتایاگیا کہ اگرسہوونسیان کی وجہ سے کوئی شخص غیر قبلہ کی طرف بھی نماز پڑھ لے گا تو اس کی نماز درست ہوگی۔
حدیث ابن عمر ؓ سے یہی ثابت ہوتا ہے، کیونکہ کعبہ معظمہ کی طرف رخ کرنے کا حکم آجانے کے باوجود اہل قباء نے لاعلمی کی وجہ سے نماز قبلہ منسوخہ کی طرف منہ کرکے ادا کی اور ناواقفیت کی وجہ سے وہ بھولنے والے کے حکم میں تھے، اس لیے انھیں نمازکے اعادے کا حکم نہیں دیا گیا۔
اسی طرح یہ حدیث عنوان کے پہلے جز پر بھی دلالت کرتی ہے، کیونکہ اس میں بیت اللہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم ہے۔
(فتح الباري: 657/1)
حضرت ثویلہ بنت اسلم ؓ دوران نماز میں تحویل کی کی کیفیت بیان کرتی ہیں کہ عورتیں مردوں کی جگہ اور مردعورتوں کی جگہ پر منتقل ہوگئے اور ہم نے دورکعت استقبال کعبہ کے ساتھ ادا کیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ذرا تفصیل بیان کی ہے کہ امام مسجد کے اگل حصے سے پچھلے حصے کی طرف آیا، کیونکہ اسی مقام پر تحویل کے لیے جگہ ناکافی تھی، اس کے بعد آدمی اور پھر عورتیں ایک دوسرے کے پیچھے ہوگئے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مکلف کے لیے ناسخ کے حکم کی پابندی اس وقت ہوگی جب اسے معلوم ہوگا، اس سے پہلے وہ اس کا پابند نہیں ہے۔
(فتح الباري: 656/1)
3۔
اہل قباء نے نماز کا کچھ حصہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے ادا کیا، ان کا یہ عمل ان کے یقین کے مطابق صحیح اوردرست تھا، اس لیے اس حصے کا اعادہ نہیں کرایا گیا۔
تحری میں بھی یہی ہوتا ہے کہ انسان غوروفکر کے بعد ایک سمت کو قبلہ قراردیتا ہے اور اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتا ہے۔
جیساکہ اہل قباء نے اپنے یقین کے مطابق بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز کا کچھ حصہ اداکیا اور اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے کبھی سوال نہیں ہوا اور نہ آپ نے انھیں اعادے ہی کا حکم دیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 403
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4488
4488. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک صاحب آئے اور انہوں نے کہا: اللہ تعالٰی نے نبی ﷺ پر قرآن نازل کیا ہے کہ آپ نماز میں کعبہ کی طرف منہ کریں، لہذا آپ حضرات بھی کعبہ کی طرف منہ کر لیں، تو سب نمازی اسی وقت کعبہ کی طرف پھر گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4488]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں وضاحت ہے کہ ان کے چہرے شام کی طرف تھے تو انھوں نے دوران نماز ہی میں کعبے کی طرف منہ کر لیا۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 403)
دوران نماز میں بیت اللہ کی طرف منہ کرنے کا ایک واقعہ مسجد قبلتین میں بھی پیش آیا تھا۔
اس مسجد کو قبلتین کہنے کی وجہ تسمیہ یہی ہے جیسا کہ حدیث 4486۔
میں ہے۔
یہ دوسرا قباء میں پیش آیا جیساکہ مذکورہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
2۔
اس آیت کریمہ میں تحویل قبلہ کی ایک غرض یہ بیان کی گئی ہے کہ اہل ایمان کے لیے ادھر سےاُدھر پھر جانا کوئی مشکل معاملہ نہ تھا کیونکہ وہ تو رسول اللہ ﷺ کے اشارے کے منتظر تھے البتہ اہل یقین کو اہل شک سے علیحدہ کرنا مقصود تھا تاکہ معاشرے میں دونوں قسم کے لوگ نمایاں ہو جائیں چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4488
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4490
4490. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک ایک صاحب ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: آج رات رسول اللہ ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو بیت اللہ کی طرف کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، لہذا آپ لوگ بھی اپنا رخ بیت اللہ کی طرف کر لیں۔ اس وقت لوگوں کا رخ شام (بیت المقدس) کی طرف تھا تو وہ اسی حالت میں کعبہ کی طرف پھر گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4490]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ مسلمانوں نے محض ایک شخص کی خبر سے رسول اللہ ﷺ کی اتباع کی اور نماز سے فراغت کا بھی انتظار نہیں کیا لیکن اہل کتاب کا رویہ اس قدر عناد پر مبنی تھا کہ انھیں ہر قسم کے دلائل مہیا کردینے کے باوجود بھی انھوں نے آپ کی اتباع نہیں کی۔
2۔
واضح رہے کہ بیت المقدس مدینہ طیبہ سے عین شمال میں ہے اور کعبہ بالکل جنوب میں واقع ہے نماز باجماعت پڑھتے ہوئے قبلہ تبدیل کرنے میں لامحالہ امام کو چل کر مقتدیوں کے پیچھے آنا پڑا ہو گا اور مقتدی حضرات کو اپنا صرف رخ ہی نہیں بدلنا پڑا ہو گا بلکہ کچھ نہ کچھ انھیں بھی چل کر اپنی صفیں درست کرنا پڑی ہوں گی۔
چنانچہ بعض روایات میں اس طرح کی تفصیل مذکورہ ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4490
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4491
4491. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک وقت لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے ان کے پاس آ کر کہا: آج رات نبی ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو حکم ہوا ہے کہ کعبے کی طرف منہ کر لیں، اس لیے آپ لوگ کعبے کی طرف منہ کر لیں۔ اس وقت ان کا منہ شام (بیت المقدس) کی طرف تھا، چنانچہ سب نمازی کعبے کی طرف پھر گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4491]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر کئی ایک عنوان قائم کیے ہیں اور اس سلسلے میں متعدد آیات ذکر کی ہیں۔
یہی طریقہ سورۃ المنافقین میں اختیار کیا گیا ہے۔
متعدد آیات اور تکرار واقعات سے امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان آیات میں سے کوئی آیت بھی قصے سے باہر نہیں یعنی یہ تمام آیات تحویل قبلہ سے متعلق ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4491
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7251
7251. سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے، اچانک ان کے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے کہا: بے شک رسول اللہ ﷺ پر رات قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ نماز میں کعبے کی طرف منہ کرلو۔ ان کے منہ شام کی جانب تھے، پھر وہ لوگ کعبے کی طرف پھر گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7251]
حدیث حاشیہ:
قباء کا علاقہ مدینہ طیبہ سے باہر ہے ان حضرات کو تحویل قبلہ (قبلہ تبدیل ہونے)
کے اگلے دن نماز صبح میں اطلاع ملی اور یہ اطلاع بھی صرف ایک شخص نے دی۔
اہل قباء نے اس کی تصدیق کرتے ہوئےاپنا رخ بیت اللہ کی طرف کر لیا۔
اس کا واضح مطلب ہے کہ ان کے ہاں خبر واحد حجت تھی اس لیے اگر کوئی ایک معتبر آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہے خواہ اس کا تعلق ایمانیات سے ہو یا اعمال سے اسے ماننا چاہیے۔
ہمارے اسلاف اسی راہ پر گامزن تھے۔
خبر واحد کی حجیت سے انکار بہت بعد کی پیداوار ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7251