زہری نے بیان کیا اور ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے کچھ کہہ رہے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: عمر! بیٹھ جاؤ، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے بیٹھنے سے انکار کیا۔ اتنے میں لوگ عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آ گئے اور آپ نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا: امابعد! تم میں جو بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی وفات ہو چکی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا تو (اس کا معبود) اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور اس کو کبھی موت نہیں آئے گی۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے «وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل» کہ ”محمد صرف رسول ہیں، ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں۔“ ارشاد «الشاكرين» تک۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: اللہ کی قسم! ایسا محسوس ہوا کہ جیسے پہلے سے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے اور جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کی تلاوت کی تو سب نے ان سے یہ آیت سیکھی۔ اب یہ حال تھا کہ جو بھی سنتا تھا وہی اس کی تلاوت کرنے لگ جاتا تھا۔ (زہری نے بیان کیا کہ) پھر مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے اس وقت ہوش آیا، جب میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سنا، جس وقت میں نے انہیں تلاوت کرتے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی ہے تو میں سکتے میں آ گیا اور ایسا محسوس ہوا کہ میرے پاؤں میرا بوجھ نہیں اٹھا پائیں گے اور میں زمین پر گر جاؤں گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4454]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4454
حدیث حاشیہ: ایسے نازک وقت میں امت کو سنبھالنا یہ حضرت ابوبکر ؓ ہی کا مقام تھا۔ اسی لیے رسول کریم ﷺ نے اپنی وفات سے پہلے ہی ان کو اپناخلیفہ بنا کر امام نماز بنا دیا تھا جو ان کی خلافت حقہ کی روشن دلیل ہے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے یہ کہہ کر کہ خدا آپ پر دوموت طاری نہیں کرے گا۔ ان صحابہ ؓ کا رد کیا جو یہ سمجھتے تھے کہ آنحضرتﷺ پھر زندہ ہوںگے اور منافقوں کے ہاتھ پاؤں کاٹیں گے کیونکہ اگر ایسا ہوتو پھر وفات ہوگی گویا دوبارموت ہوجائے گی۔ بعضوں نے کہا دوبار موت نہ ہونے سے یہ مطلب ہے کہ پھر قبر میں آپ کوموت نہ ہوگی بلکہ آپ زندہ رہیں گے۔ امام احمد کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں جب آنحضرت ﷺ کی وفات ہوگئی، میں نے آپ کو ایک کپڑے سے ڈھانک دیا۔ اس کے بعد عمر ؓ اور مغیرہ ؓ آئے۔ دونوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ میں نے اجازت دے دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نعش کو دیکھ کر کہا ہائے آپ بیہوش ہوگئے ہیں۔ مغیر ہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ انتقال فرماچکے ہیں۔ اس پر حضرت عمر ؓ مغیرہ ؓ کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ آنحضرت ﷺ اس وقت تک مرنے والے نہیں ہیں جب تک سارے منافقین کا قلع قمع نہ کر دیں۔ ایک روایت میں یوں ہے، حضرت عمر ؓ یوں کہہ رہے تھے کہ خبردا! جو کوئی کہے گا کہ آنحضرت ﷺ مرگئے ہیں، میں تلوار سے اس کاسر اڑا دوں گا۔ حضرت عمر ؓ کو واقعی یہ یقین تھا کہ آنحضرتﷺ مرے نہیں ہیں یا ان کا یہ فرمانا بڑی مصلحت اور سیاست پر مبنی ہوگا۔ انہوں نے یہ چاہا کہ پہلے خلافت کا انتظام ہو جائے بعد میں آپ کی وفات کو ظاہر کیا جائے، ایسا نہ ہو کہ آپ کی وفات کا حال سن کر دین میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4454
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4454
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات حسرت آیات پر اہل مدینہ کو بڑی پریشانی لاحق ہوئی حتی کہ حضرت عمر ؓ جیسے کوہ استقامت اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے۔ اپنی تلوار سونت کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے جس نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کا کہا، میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مسند احمدکے حوالے سے لکھا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو حضرت عائشہ ؓ نے آپ کو ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ آئے اور دونوں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ حضرت عائشہ ؓ نے انھیں اجازت دی حضرت عمر ؓ نے آپ کو دیکھ کر کہا: ہائے! آپ بے ہوش ہوگئے ہیں۔ حضرت مغیرہ ؓ نے کہا: آپ انتقال فرماچکے ہیں۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے انھیں ڈانٹتے ہوئے کہا: تم غلط کہتے ہو اور کسی فتنے کا شکار ہو چکے ہو۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت تک فوت ہونے والے نہیں جب تک تمام منافقین کا خاتمہ نہ کردیں۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر ؓ تشریف لائے تو انھوں نے پردہ اٹھا کر آپ کو دیکھا اور اناللہ وانا الیه راجعون۔ پڑھا اور فرمایا: رسول اللہ ﷺ وفات پا چکے ہیں۔ (مسند أحمد: 219/6) 2۔ حضرت ابو بکر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے بجائے اسم گرامی "محمد" کا لفظ استعمال کیا کیونکہ اس سے مقصود ذات کریمہ تھی۔ رسول اللہ ﷺ کہنے سے وصف رسالت کی طرف نگاہ ہوتی حالانکہ اس وقت وصف رسالت ملحوظ نہیں تھا کیونکہ اس کا تعلق مرسل یعنی ذات باری تعالیٰ سے تھا جو منقطع نہیں ہواتھا، اگر آپ کی رسالت منقطع ہوتی تو پھر ذات گرامی کا ذکر کرنا مناسب نہ تھا، اس لیے وصف رسالت کے بجائے اسم گرامی ذکر کیا گیا۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4454