الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
59. بَابُ الصَّلاَةِ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ:
59. باب: سفر سے واپسی پر نماز پڑھنے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: Q443
وَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَصَلَّى فِيهِ.
‏‏‏‏ کعب بن مالک سے نقل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر سے (لوٹ کر مدینہ میں) تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور نماز پڑھتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: Q443]
حدیث نمبر: 443
حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَارِبُ بْنُ دِثَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، قَالَ مِسْعَرٌ: أُرَاهُ قَالَ: ضُحًى، فَقَالَ:" صَلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَكَانَ لِي عَلَيْهِ دَيْنٌ فَقَضَانِي وَزَادَنِي".
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے مسعر نے، کہا ہم سے محارب بن دثار نے جابر بن عبداللہ کے واسطہ سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ مسعر نے کہا میرا خیال ہے کہ محارب نے چاشت کا وقت بتایا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (پہلے) دو رکعت نماز پڑھ اور میرا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ قرض تھا۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا اور زیادہ ہی دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 443]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريأتيت النبي في المسجد فقضاني وزادني
   صحيح البخاريصل ركعتين لي عليه دين فقضاني وزادني
   صحيح البخاريصل ركعتين لي عليه دين فقضاني وزادني
   صحيح البخاريصنف تمرك كل شيء منه على حدته عذق ابن زيد على حدة واللين على حدة والعجوة على حدة ثم أحضرهم حتى آتيك ففعلت ثم جاء فقعد عليه وكال لكل رجل حتى استوفى وبقي التمر كما هو كأنه لم يمس وغزوت مع النبي على ناضح لنا فأزحف الجمل ف
   صحيح البخارياذهب فصنف تمرك أصنافا العجوة على حدة وعذق زيد على حدة ثم أرسل إلي ففعلت ثم أرسلت إلى النبي فجاء فجلس على أعلاه أو في وسطه ثم قال كل للقوم فكلتهم حتى أوفيتهم الذي لهم وبقي تمري كأنه لم ينقص منه شيء
   سنن أبي داودلي على النبي دين فقضاني وزادني
   سنن النسائى الصغرىقضاني رسول الله وزادني
   سنن النسائى الصغرىاذهب فصنف تمرك أصنافا العجوة على حدة وعذق ابن زيد على حدة وأصنافه ثم ابعث إلي قال ففعلت فجاء رسول الله فجلس في أعلاه أو في أوسطه ثم قال كل للقوم قال فكلت لهم حتى أوفيتهم ثم بقي تمري كأن لم ينقص منه شيء
   سنن النسائى الصغرىهل لك أن تأخذ العام نصفه وتؤخر نصفه فأبى اليهودي فقال النبي هل لك أن تأخذ الجداد فآذني فآذنته فجاء هو وأبو بكر فجعل يجد ويكال من أسفل النخل ورسول الله يدعو بالبركة حتى وفيناه جميع حقه من أصغر الحديقتين فيما يحسب
   مسندالحميدينهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نطرق النساء ليلا

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 443 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:443  
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں اس روایت کو تقریباً پچیس مقامات پر بیان فرمایا ہے اور اس سے متعدد مسائل ثابت کیے ہیں۔
اس روایت میں اگرچہ سفر کا تذکرہ نہیں، تاہم مفصل روایت میں ہے، چنانچہ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں:
ایک غزوے سے واپسی کے موقع پر میرا اونٹ تھک گیا، آپ ادھر سے گزرے تو آپ نے دعا فرمائی اور اونٹ کوچھڑی لگادی، پھر کیاتھا، اونٹ تیز چلنے لگا۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ!یہ اونٹ ہمیں فروخت کردو۔
پہلے تو میں نے انکار کیا، بالآخر آپ ﷺ کے اصرار پر میں نے آپ کو فروخت کردیا اور آپ نے مدینے تک اس پر سواری کی مجھے اجازت دے دی۔
آپ مدینہ پہلے پہنچ گئے، میں صبح کے وقت پہنچا۔
مدینے پہنچتے ہی میں نے وہ اونٹ آپ کی خدمت میں پیش کردیا۔
آپ نے پہلے تو مجھے دورکعت اداکرنے کی ہدایت فرمائی، پھر اونٹ کی قیمت اداکردی اور کچھ زیادہ بھی دیا، نیز جب میں واپس آنے لگا تو اونٹ بھی میرے حوالے کردیا۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2097)
اس روایت میں وضاحت ہے کہ حضرت جابر ؓ سفرسے واپسی کے بعد جب اونٹ کی قیمت لینے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے دورکعت پڑھنے کی ہدایت فرمائی، لہذاسفر سے واپسی پر دورکعت پڑھنے کا استحباب ثابت ہوگیا۔
اس حدیث کئ دیگر طرق پر نظر نہ ہونے کی وجہ سے مغلطائی نے امام بخاری ؒ پر اعتراض کیا ہے کہ مذکورہ روایت میں چونکہ سفر سے واپسی کاذکر نہیں۔
اس لیے اس حدیث کی عنوان سے مطابقت نہیں۔
(فتح الباري: 695/1)

جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ مذکورہ دورکعت "صلاة قدوم" ہے۔
یہ تحیۃ المسجد نہیں جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں بیٹھنے سے پہلے ادا کرنے کا حکم دیاہے۔
البتہ صلاۃ قدوم ادا کرنے سے تحیۃ المسجد بھی ادا ہوجائے گی، اس کا الگ اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 443   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3347  
´قرض کو بہتر طور پر ادا کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرا کچھ قرض نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر تھا، تو آپ نے مجھے ادا کیا اور زیادہ کر کے دیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3347]
فوائد ومسائل:
قرض ادا کرتے ہوئے اگر انسان اپنی خوشی سے کچھ مذید دے تو یہ احسان ہے۔
سود کے زمرے میں نہیں آتا۔
اس حدیث کو بنک کے سود کے حامی اپنی دلیل کے طور پرپیش کرتے ہیں۔
حالانکہ بنک اپنے گاہکوں سے احسان پر مبنی ایسا سلوک نہیں کرتے۔
بلکہ اصل زر سے زائد کا معاہدہ طے ہوتا ہے۔
جس کا لینا دینا بالکل ناجائز اور حرام ہے۔
اس حدیث میں واضح ہے کہ قرض پرکوئی اضافہ طے نہ تھا۔
نہ رسول اللہ ﷺ نے زائد دینے کا معاہدہ کیا تھا۔
نہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے مطالبہ تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3347   

  musanif  
test
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 0   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2394  
2394. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ اس وقت مسجد میں تشریف فر تھے۔ (راوی حدیث)حضرت مسعر کہتے ہیں کہ میرے گمان کے مطابق انھوں نے کہا: چاشت کا وقت تھا۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: دورکعت ادا کرو۔ میرا آپ کے ذمے کچھ قرض تھا تو آپ نے وہ ادا کیا اور مجھے کچھ زیادہ بھی دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2394]
حدیث حاشیہ:
ایسے لوگ بہت ہی قابل تعریف ہیں جو خوش خوش قرض ادا کرکے سبکدوشی حاصل کرلیں۔
یہ اللہ کے نزدیک بڑے پیارے بندے ہیں۔
اچھی ادائیگی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ واجب حق سے کچھ زیادہ ہی دے دیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2394   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2127  
2127. حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ (میرےوالد) حضرت عبد اللہ بن عمروبن حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب وفات پائی تو ان پر کچھ قرض تھا لہٰذا میں نے نبی ﷺ سے سفارش کرائی کہ قرض خواہ کچھ معاف کردیں۔ نبی ﷺ نے ان کے لیے ان لوگوں سے سفارش کی لیکن انھوں نے اسے منظور نہ کیا۔ تب نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا: "جاؤ اپنی کھجوروں کو چھانٹ کر ہر قسم علیحدہ علیحدہ کرلو۔ عجوہ اور غدق ابن زید الگ الگ کر کے مجھے اطلاع دینا۔ "چنانچہ میں نے یہی کیا اس کے بعد نبی ﷺ کو بلانے کے لیے(کسی کو) بھیجا۔ آپ تشریف لائے اور کھجوروں کے ڈھیر پریا اس کے درمیان بیٹھ گئے۔ پھر مجھے فرمایا: " قرض خواہوں کو ناپ ناپ کردو۔ "میں نے ناپ کر سب کے حصے پورے کردیے، پھر بھی اس قدر کھجوریں باقی رہیں جیسے ان سے کچھ بھی کم نہ ہواہو۔ فراس نے امام شعبی سے بیان کیا، انھیں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی ﷺ سے کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2127]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے جہاں ایک عظیم معجزہ نبوی ثابت ہوا، وہاں یہ مسئلہ بھی نکلا کہ اپنے قرض خواہوں کو حضرت جابر رضی اللہ عنہ ان کے قرض کے عوض میںکھجوریں دے رہے تھے۔
اور ناپ تول کا کام بھی خود ہی انجام دے رہے تھے۔
اسی سے یہ نکلا کہ ادا کرنے والا ہی خود اپنے ہاتھ سے وزن کرے۔
یہی باب کا مقصد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2127   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2603  
2603. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا جبکہ آپ مسجد میں تشریف فرماتھے۔ آپ نے میرا قرض ادا کیا اور مجھے اس سے زیادہ بھی دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2603]
حدیث حاشیہ:
جو چیز قبضہ میں ہو اس کا ہبہ تو بالاتفاق درست ہے اور جو چیز قبضے میں نہ ہو اس کا ہبہ اکثر علماءکے نزدیک جائز نہیں ہے۔
مگر امام بخاری ؒ نے اس کا جواز اسی طرح اس مال کے ہبہ کا جواز جو تقسیم نہ ہوا ہو، باب کی حدیث سے نکالا اس لیے کہ آنحضرت ﷺ نے لوٹ کا مال جو ابھی مسلمانوں کے قبضے میں نہیں آیا تھا، نہ تقسیم ہوا تھا، ہوازن کے لوگوں کو ہبہ کردیا۔
مخالفین یہ کہتے ہیں کہ قبضہ تو ہوگیا تھا کیوں کہ یہ اموال مسلمانوں کے ہاتھ میں تھے، گو تقسیم نہ ہوئے تھے۔
ثابت بن محمد کا قول مذکوربقول بعض تعلیق نہیں ہے۔
کیوں کہ بعض نسخوں میں یوں ہی حدثنا ثابت یعنی امام بخاری ؒ کہتے ہیں ہم سے ثابت نے بیان کیا۔
دوسری روایت میں جابر ؓ کا واقعہ شاید حضر مجتہد مطلق امام بخاری ؒ نے اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جس میں یہ ہے کہ وہ اونٹ بھی آپ ﷺ نے مجھ کو ہبہ کردیا تو قبضہ سے پہلے ہبہ ثابت ہوا۔
آنحضرت ﷺ نے جابر ؓ کو جو سونا یا چاندی قیمت سے زیادہ دلوایا اسے جابر ؓ نے بطور تبرک ہمیشہ اپنے پاس رکھا اور خرچ نہ کیا۔
یہاں تک کہ یوم الحرۃ آیا۔
یہ لڑائی 63ھ میں ہوئی۔
جب یزیدی فوج نے مدینہ طیبہ پر حملہ کیا۔
حرہ مدینہ کا ایک میدان ہے وہاں یہ لڑائی ہوئی تھی۔
اسی جنگ میں ظالموں نے حضرت جابر ؓ سے اس تبرک نبوی کو چھین لیا۔
آج کل بھی جگہ جگہ بہت سی چیزیں لوگوں نے تبرکات نبوی کے نام سے رکھی ہوئی ہیں۔
کہیں آپ ﷺ کے موئے مبارک بتلائے جاتے ہیں اور کہیں قدم مبارک کے نشان وغیرہ وغیرہ۔
مگر یہ سب بے سند چیزیں ہیں اور ان کے بارے میں خطرہ ہے کہ آنحضرت ﷺ پر یہ افتراءہوں اور ایسے مفتری اپنے آپ کو زندہ دوزخی بنالیں۔
جیسا کہ خود آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس نے میرے اوپر کوئی افتراء باندھا وہ زندہ دوزخی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2603   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2127  
2127. حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ (میرےوالد) حضرت عبد اللہ بن عمروبن حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب وفات پائی تو ان پر کچھ قرض تھا لہٰذا میں نے نبی ﷺ سے سفارش کرائی کہ قرض خواہ کچھ معاف کردیں۔ نبی ﷺ نے ان کے لیے ان لوگوں سے سفارش کی لیکن انھوں نے اسے منظور نہ کیا۔ تب نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا: "جاؤ اپنی کھجوروں کو چھانٹ کر ہر قسم علیحدہ علیحدہ کرلو۔ عجوہ اور غدق ابن زید الگ الگ کر کے مجھے اطلاع دینا۔ "چنانچہ میں نے یہی کیا اس کے بعد نبی ﷺ کو بلانے کے لیے(کسی کو) بھیجا۔ آپ تشریف لائے اور کھجوروں کے ڈھیر پریا اس کے درمیان بیٹھ گئے۔ پھر مجھے فرمایا: " قرض خواہوں کو ناپ ناپ کردو۔ "میں نے ناپ کر سب کے حصے پورے کردیے، پھر بھی اس قدر کھجوریں باقی رہیں جیسے ان سے کچھ بھی کم نہ ہواہو۔ فراس نے امام شعبی سے بیان کیا، انھیں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی ﷺ سے کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2127]
حدیث حاشیہ:

مذکورہ بالا عنوان کے دو جز ہیں:
٭ ناپ تول فروخت کرنے والے کے ذمے ہے۔
٭دینے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ناپ تول کرے یا اس کی مزدوری دے۔
پہلا حصہ پہلی حدیث سے ثابت ہوا۔
اس حدیث سے جہاں ایک عظیم معجزہ ثابت ہوا وہاں یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ ناپ تول کاکام دینے والے کے ذمے ہے،خواہ وہ قرض اتارنے والا ہی کیوں نہ ہو۔
چونکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ قرض اتارنے کے لیے کھجوریں دے رہے تھے،اس لیے ناپ تول کردینا بھی انھی کی ذمہ داری تھی۔
بہر حال جنس دینے والا خود اپنے ہاتھ سے وزن کرکے دےگا،خواہ وہ فروخت کرنے والا ہو یا قرض اتارنے والا ہو۔
اگر وہ خود وزن نہیں کرتا تو اس کی مزدوری برداشت کرے۔
(2)
واضح رہے کہ عذق ابن زید اور عجوہ کھجوروں کی اقسام ہیں۔
مدینہ طیبہ میں کئی قسم کی کھجوریں پائی جاتی ہیں۔
شیخ ابو محمد جو جوینی نے لکھا ہے:
مدینہ طیبہ میں سیاہ کھجوروں کی اقسام ساٹھ سے زائد ہیں اور سرخ کھجوروں کی اقسام ان سے بھی زیادہ ہیں۔
(فتح الباری: 4/436)
(3)
فراس کی روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاری،الوصایا،حدیث: 2781)
ہشام سے مراد ہشام بن عروہ ہیں اور اس روایت کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے موصولاً بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاری،الاستقراض،حدیث: 2396)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2127   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2394  
2394. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ اس وقت مسجد میں تشریف فر تھے۔ (راوی حدیث)حضرت مسعر کہتے ہیں کہ میرے گمان کے مطابق انھوں نے کہا: چاشت کا وقت تھا۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: دورکعت ادا کرو۔ میرا آپ کے ذمے کچھ قرض تھا تو آپ نے وہ ادا کیا اور مجھے کچھ زیادہ بھی دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2394]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ کو دوسرے ذرائع سے معلوم ہوا تھا کہ حضرت جابر ؓ آج کل گھریلو مسائل کا شکار ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی دلداری کا سامان کیا، دوران سفر میں ان کا ایک مریل اونٹ خریدا، مدینے پہنچ کر آپ نے اس کی قیمت ادا کی جو چاندی کی شکل میں تھی اور حضرت بلال ؓ کو کہا کہ انہیں اصل قیمت سے ایک قیراط زیادہ دینا۔
(2)
یہ اضافہ رسول اللہ ﷺ کا تبرک تھا جسے حضرت جابر ؓ بہت حفاظت سے رکھتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ کی اس فیاضی پر امام بخاری ؒ نے عنوان قائم کیا ہے کہ ادائیگی کے وقت خوش دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2394