ہم سے عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن بکر نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ میں نے عطاء سے سنا، انہوں نے خبر دیتے ہوئے کہا کہ مجھے صفوان بن یعلٰی بن امیہ نے خبر دی اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ عسرت میں شریک تھا۔ بیان کیا کہ یعلٰی رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ مجھے اپنے تمام عملوں میں اسی پر سب سے زیادہ بھروسہ ہے۔ عطاء نے بیان کیا، ان سے صفوان نے بیان کیا کہ یعلٰی رضی اللہ عنہ نے کہا، میں نے ایک مزدور بھی اپنے ساتھ لے لیا تھا۔ وہ ایک شخص سے لڑ پڑا اور ایک نے دوسرے کا ہاتھ دانت سے کاٹا۔ عطاء نے بیان کیا کہ مجھے صفوان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ان دونوں میں سے کس نے اپنے مقابل کا ہاتھ کاٹا تھا، یہ مجھے یاد نہیں ہے۔ بہرحال جس کا ہاتھ کاٹا گیا تھا اس نے اپنا ہاتھ کاٹنے والے کے منہ سے جو کھینچا تو کاٹنے والے کے آگے کا ایک دانت بھی ساتھ چلا آیا۔ وہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دانت کے ٹوٹنے پر کوئی قصاص نہیں دلوایا۔ عطاء نے بیان کیا میرا خیال ہے کہ انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کیا وہ تیرے منہ میں اپنا ہاتھ رہنے دیتا تاکہ تو اسے اونٹ کی طرح چبا جاتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4417]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4417
حدیث حاشیہ: یہ واقعہ بھی جنگ تبوک میں پیش آیا تھا۔ اسی لیے اس حدیث کو یہاں ذکر کیا گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4417
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4417
حدیث حاشیہ: اس حدیث کے متعلق ہماری گزارشات کتاب الدیات میں ذکر ہوں گی۔ چونکہ اس حدیث میں غزوہ عسرہ، یعنی تبوک کا ذکر ہے اس بنا پر امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں بیان فرمایا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4417
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4767
´اپنا دفاع کرنے میں دوسرے کے نقصان ہو جانے کا بیان۔` یعلیٰ بن منیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص سے ان کا جھگڑا ہو گیا ان میں سے ایک نے دوسرے کو دانت کاٹا، پہلے نے اپنا ہاتھ دوسرے کے منہ سے چھڑایا تو اس کا دانت اکھڑ گیا، معاملہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک لایا گیا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو جوان اونٹ کی طرح کاٹتا ہے“ پھر آپ نے اسے تاوان نہیں دلایا۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4767]
اردو حاشہ: کسی شخص پر حملہ ہو تو اسے دفاع کا حق ہے۔ دفاعی کارروائی کے دوران میں حملہ آور کا کوئی نقصان ہو جائے حتیٰ کہ وہ مر بھی جائے تو کوئی قصاص، دیت یا معاوضہ یا تاوان نہیں ادا کرنا پڑے گا۔ البتہ اگر وہ دفاع سے بڑھ کرجارحانہ کارروائی کرے تو پھر وہ ذمہ دار ہوگا۔ اور اس بات کا تعین عدالت کرے گی کہ اس نے دفاع کیا یا جارحانہ کارروائی بھی کی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4767
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4773
´اس حدیث میں عطاء بن ابی رباح کے تلامذہ کے اختلاف کا بیان۔` یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جیش العسرۃ ۱؎(غزوہ تبوک) میں جہاد کیا، میرے خیال میں یہ میرا بہت اہم کام تھا، میرا ایک نوکر تھا، ایک شخص سے اس کا جھگڑا ہو گیا تو ان میں سے ایک نے دوسرے کی انگلی کاٹ کھائی، پھر پہلے نے اپنی انگلی کھینچی تو دوسرے آدمی کا دانت نکل کر گر پڑا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ نے اس کے دانت کی دیت نہیں دلوائی، اور فرمایا: ”کیا وہ اپ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4773]
اردو حاشہ: ”تنگی والا لشکر“، اس سے مراد غزوۂ تبوک کا لشکر ہے کیونکہ یہ وقت تنگی کا تھا۔ موسم سخت گرم تھا۔ پھل اور فصلیں پک چکی تھیں۔ پچھلے پھل اور غلے ختم ہو چکے تھے۔ سفر بھی بہت لمبا تھا۔ دشمن بہت طاقت ور اور کثیر تھا۔ ایسے میں نکلنا بہت دشوار تھا۔ تبھی تو انھوں نے اس سفر کو اپنا سب سے افضل عمل قرار دیا ہے کیونکہ اجر مشقت کے حساب سے ملتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4773
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4584
´ایک شخص دوسرے سے لڑے اور دوسرا اپنا دفاع کرے تو اس پر سزا نہ ہو گی۔` یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے ایک مزدور نے ایک شخص سے جھگڑا کیا اور اس کے ہاتھ کو منہ میں کر کے دانت سے دبایا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تو اس کا دانت باہر نکل آیا، پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ نے اسے لغو کر دیا، اور فرمایا: ”کیا چاہتے ہو کہ وہ اپنا ہاتھ تمہارے منہ میں دیدے، اور تم اسے سانڈ کی طرح چبا ڈالو“ ابن ابی ملیکہ نے اپنے دادا سے نقل کیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے لغو قرار دیا اور کہا: (اللہ کرے) اس کا دانت نہ رہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4584]
فوائد ومسائل: حملہ آور کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنا حق واجب ہے اور اس صورت میں حملہ آور کو اگر کو ئی چوٹ لگ جائے یا کوئی نقصان ہو جائے تو اس کا کوئی معاوضہ نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4584
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:806
806-صفوان بن یعلیٰ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں۔ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوۂ تبوک میں شریک ہوا میں نے اس جنگ میں اللہ کی راہ میں ایک جوان اونٹ دیا تھا جو میرے نزدیک میرا سب سے بہتر ین عمل تھا۔ میں نے اس شخص کو ملازم رکھا اس کی ایک اور شخص کے ساتھ لڑائی ہوگئی۔ اس نے اس کے ہاتھ پر کاٹا تو دوسرے شخص نے اس کے منہ سے اپنے ہاتھ کو کھینچا تو پہلے شخص کے سامنے کے دانت گرگئے۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کیا وہ اپنے ہاتھ کو تمہارے منہ میں رہنے دیتا؟ تاکہ تم اسے یوں چبا لیتے۔ جس طرح اونٹ چباتا ہے۔“۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:806]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آزاد آدمی کو اجرت پر جہاد کے لیے ساتھ لے جانا جائز ہے اور اسے غنیمت سے حصہ بھی دیا جائے گا۔ کیونکہ آ بیت غنیمت ہر طرح کے مسلمان کو شامل ہے۔ (نیز دیکھیں: سنن بی داود: 2527)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 807
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2973
2973. حضرت یعلی بن امیہ ؓسے روایت ہے کہ میں غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جہاد کے لیے روانہ ہوا۔ میں نے ایک جوان اونٹ سواری کے لیے بھی دیا جو میرے خیال میں میرا مضبوط ترعمل تھا۔ اس سلسلے میں میں نے ایک مزدور بھی کرائے پر رکھا۔ وہ مزدور کسی سے لڑ پڑا تو ایک نے دوسرے کا ہاتھ چبا لیا۔ دوسرے نے جھٹکا دے کر اپنا ہاتھ اس کے منہ سے نکالا تو اس کے اگلے دو دانت نکال دیے۔ وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اسے باطل ٹھہرایا اور فرمایا: ” کیا وہ اپنا ہاتھ تیرے منہ میں ڈالے رکھتا کہ تو اسے چباتا رہے جیسے اونٹ چباتا ہے؟“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2973]
حدیث حاشیہ: یعنی اگر کسی مجاہد نے جہاد کے لئے جاتے وقت اگر کچھ مزدور‘ مزدوری پر اپنی ضروریات کے لئے اپنے ساتھ لے لئے تو کیا یہ مزدور اپنی مزدوری پا لینے کے بعد مال غنیمت کے بھی مستحق ہوں گے یا نہیں؟ اسی کا جواب اس باب میں دیا ہے۔ امام احمد بن حنبل اور اسحاق اور اوزاعی کے نزدیک حصہ نہیں ملے گا۔ دوسرے علماء کہتے ہیں کہ حصہ ملے گا۔ ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ میں بوڑھا آدمی تھا۔ میرے ساتھ کوئی خدمت گار نہ تھا تو میں نے ایک شخص کو مزدوری پر ٹھہرایا۔ اور اس کے لئے دو حصے مقرر کئے۔ مگر وہ اس پر راضی نہیں ہوا۔ تو اس کی مزدوری تین دینار مقرر کی۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ یعلیٰ نے کاٹا اور مزدور نے اپنا ہاتھ کھینچا تو یعلیٰ کا دانت نکل پڑا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2973
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2973
2973. حضرت یعلی بن امیہ ؓسے روایت ہے کہ میں غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جہاد کے لیے روانہ ہوا۔ میں نے ایک جوان اونٹ سواری کے لیے بھی دیا جو میرے خیال میں میرا مضبوط ترعمل تھا۔ اس سلسلے میں میں نے ایک مزدور بھی کرائے پر رکھا۔ وہ مزدور کسی سے لڑ پڑا تو ایک نے دوسرے کا ہاتھ چبا لیا۔ دوسرے نے جھٹکا دے کر اپنا ہاتھ اس کے منہ سے نکالا تو اس کے اگلے دو دانت نکال دیے۔ وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اسے باطل ٹھہرایا اور فرمایا: ” کیا وہ اپنا ہاتھ تیرے منہ میں ڈالے رکھتا کہ تو اسے چباتا رہے جیسے اونٹ چباتا ہے؟“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2973]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس عنوان اور پیش کردہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مجاہد نے جہاد کے لیے جاتے وقت کچھ مزدور اپنی ضروریات کے لیے اپنے ساتھ لے لیے تو کیا یہ مزدور اپنی مزدوری لینے کے بعد مال غنیمت کے بھی حق دار ہوں گے یا نہیں؟ کچھ علماء کا موقف ہے کہ انھیں مال غنیمت سے کوئی حصہ نہیں دیا جائے گا جبکہ دوسرے علماء کہتے ہیں: اگرانھوں نے جنگ میں شرکت کی ہے اگرچہ اجرت ہی پر کیوں نہ ہوتو انھیں مزدوری کے علاوہ مال غنیمت سے بھی حصہ دیا جائے گا۔ 2۔ امام بخاری ؒنے اس حدیث سے استنباط کیا ہے کہ آزاد آدمی کو اجرت پر جہاد کے لیے ساتھ لے جانا جائز ہے اور اسے غنیمت سے حصہ بھی دیا جائے گا۔ کیونکہ آیت غنیمت ہر قسم کے مسلمان کو شامل ہے،خواہ وہ مزدور ہو یا مالک۔ ابوداؤد ؒ کی ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ حضرت یعلیٰ ؒ کہتے ہیں: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں جانے کا اعلان کیا تو میں اس وقت بوڑھا تھا،میرا کوئی خادم بھی نہیں تھا،میں نے کسی مزدور کی تلاش شروع کی کہ جسے میں مال غنیمت سے کچھ حصہ مزدوری دوں،چنانچہ میں نے ایک آدمی تلاش کرلیا۔ جب کوچ کا وقت آیا تو اس نے کہا: پتہ نہیں تجھے غنیمت کا حصہ ملے یا نہ ملے،اس لیے میری مزدوری طے کر دیں۔ میں نے تین دینار اس کی مزدوری طے کردی۔ “(سنن أبي داود، الجھاد، حدیث: 2527)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2973
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6893
6893. حضرت صفوان بن یعلی سے روایت ہے وہ اپنے باپ حضرت یعلی بن امیہ ؓ سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں ایک غزوے میں نکلا تو ایک آدمی نے دوسرے آدمی نے دوسرے آدمی کو دانت سے کاٹا اور اس نے اس کے اگلے دانت نکال دیے۔ نبی ﷺ نے اس کی دیت باطل قرار دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6893]
حدیث حاشیہ: (1) پہلی روایت میں ابہام تھا، دوسری روایت میں اس ابہام کو دور کیا گیا کہ ان میں سے ایک خود حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ تھے۔ بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کا ہاتھ کاٹا گیا تھا وہ ان کا خدمت گزار تھا۔ (2) بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقدمے کو باطل قرار دیا اور فرمایا: ”تمھارے لیے کوئی دیت وغیرہ نہیں ہے۔ “ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باطل قرار دیتے ہوئے فرمایا: ”تم اس کا گوشت نوچنا چاہتے تھے۔ “(صحیح مسلم، القسامة، حدیث: 4368(1673) حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم میرے پاس دیت طلب کرنے کے لیے آئے ہو، جاؤ تمھارے لیے کوئی دیت نہیں۔ “(سنن النسائي، القسامة، حدیث: 4796) بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ضائع قرار دیا۔ (فتح الباري: 276/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6893