اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کی (تفسیر) کا بیان ” اور ہم نے انہیں ہدایت میں زیادتی دی “ اور دوسری آیت کی تفسیر میں کہ ” اور اہل ایمان کا ایمان زیادہ ہو جائے “ پھر یہ بھی فرمایا ” آج کے دن میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا “ کیونکہ جب کمال میں سے کچھ باقی رہ جائے تو اسی کو کمی کہتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: Q44]
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے قتادہ نے انس کے واسطے سے نقل کیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے «لا إله إلا الله» کہہ لیا اور اس کے دل میں جو برابر بھی (ایمان) ہے تو وہ (ایک نہ ایک دن) دوزخ سے ضرور نکلے گا اور دوزخ سے وہ شخص (بھی) ضرور نکلے گا جس نے کلمہ پڑھا اور اس کے دل میں گیہوں کے دانہ برابر خیر ہے اور دوزخ سے وہ (بھی) نکلے گا جس نے کلمہ پڑھا اور اس کے دل میں اک ذرہ برابر بھی خیر ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ ابان نے بروایت قتادہ بواسطہ انس رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے «خير» کی جگہ «ايمان» کا لفظ نقل کیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 44]
يخرج من النار من قال لا إله إلا الله وفي قلبه وزن شعيرة من خير ويخرج من النار من قال لا إله إلا الله وفي قلبه وزن برة من خير ويخرج من النار من قال لا إله إلا الله وفي قلبه وزن ذرة من خير
يخرج من النار من قال لا إله إلا الله وكان في قلبه من الخير ما يزن شعيرة يخرج من النار من قال لا إله إلا الله وكان في قلبه من الخير ما يزن برة يخرج من النار من قال لا إله إلا الله وكان في قلبه من الخير ما يزن ذرة
أخرجوا من النار من قال لا إله إلا الله وكان في قلبه من الخير ما يزن شعيرة أخرجوا من النار من قال لا إله إلا الله وكان في قلبه من الخير ما يزن برة أخرجوا من النار من قال لا إله إلا الله وكان في قلبه من الخير ما يزن ذرة
يخرج من النار من قال لا إله إلا الله وكان في قلبه مثقال شعيرة من خير ويخرج من النار من قال لا إله إلا الله وكان في قلبه مثقال برة من خير ويخرج من النار من قال لا إله إلا الله وكان في قلبه مثقال ذرة من خير
أخرجوا من النار من كان فى قلبه مثقال شعيرة من إيمان ، ثم يقول : أخرجوا من النار من كان فى قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان ، ثم يقول : وعزتي وجلالي : لا أجعل من آمن بي ساعة من ليل أو نهار كمن لا يؤمن بي
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 44
تشریح: پہلی روایت میں لفظ «خير» سے بھی ایمان ہی مراد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 44
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 44
حدیث حاشیہ: پہلی روایت میں لفظ خیر سے بھی ایمان ہی مراد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 44
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:44
حدیث حاشیہ: 1۔ عنوان، ایمان کی کمی بیشی کے متعلق تھا لیکن حدیث میں خیر کی کمی بیشی کا ثبوت ہے اور یہ ایک عمل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کمی بیشی نفس ایمان کی نہیں بلکہ شرائع واحکام کی ہے، لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخر میں ایک متابعت سے ثابت فرمایا کہ خیر سے مراد ایمان ہے، گویا متابعت کا ایک فائدہ تعیین مراد ہے۔ اس کے دو فائدے اور بھی ہیں: ایک یہ کہ قتادہ مدلس ہیں۔ اگرسماع کی تصریح نہ ہو تو اس کی روایت قبول نہیں ہوتی۔ امام صاحب نے متابعت سے تحدیث (حَدَّثَنَا) کی تصریح کردی۔ گویا دوسرا فائدہ تصریح سماع کا ہوا۔ اورایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ابان اورہشام اگرچہ دونوں ثقہ ہیں لیکن ہشام کا درجہ، ثقاہت کے لحاظ سے ابان سے بہت اونچا ہے اس لیے امام صاحب نے ہشام کی روایت کو اصل قراردیا اور اس کی خامی کو متابعت ذکر کر کے دور کر دیا، یعنی تیسرا فائدہ تقویت روایت ہے۔ 2۔ سورج کی شعاعوں میں سوئی کی نوک کے برابر بے شمار ذرے اڑتے نظر آتے ہیں، چارذرے ایک رائی کے دانے کے برابر ہوتے ہیں اور سو ذرات ایک جو کے دانے کے برابر وزن رکھتے ہیں۔ حدیث کا یہ اسلوب ایمان کی کمی بیشی پر روز روشن کی طرح واضح ہے، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض بدعمل موحدین جہنم میں داخل ہوں گے، پھر اپنی سزا پانے کے بعد انھیں وہاں سے نکال لیا جائے گا۔ اس میں خوارج کے مسلک کے برعکس اس بات کا اثبات ہے کہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب کافر نہیں ہوتا اور نہ وہ ہمیشہ کے لیے جہنم ہی میں رہے گا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ایمان کے لیے صرف معرفت ناکافی ہے بلکہ زبان سے اقرار اوروہ بھی دلی یقین کے ساتھ ہونا ضروری ہے۔ (شرح الکرماني: 176/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 44
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4312
´شفاعت کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن قیامت کے دن جمع ہوں گے اور ان کے دلوں میں ڈال دیا جائے گا، یا وہ سوچنے لگیں گے، (یہ شک راوی حدیث سعید کو ہوا ہے)، تو وہ کہیں گے: اگر ہم کسی کی سفارش اپنے رب کے پاس لے جاتے تو وہ ہمیں اس حالت سے راحت دے دیتا، وہ سب آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے، اور کہیں گے: آپ آدم ہیں، سارے انسانوں کے والد ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اور اپنے فرشتوں سے آپ کا سجدہ کرایا، تو آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کر دیجئیے کہ وہ ہمیں اس جگہ سے نجات دیدے، آپ فرمائیں گے: میں اس قاب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4312]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) قیامت کے مراحل انتہائی شدید ہون گے لہٰذا ان مراحل میں آسانی کے لیے زیادہ سے زیادہ نیکییاں کرنےکی اور برائیوں سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
(2) انبیاء کرام پر بھی قیامت کے دن خشیت الہی کی کیفیت کا غلبہ ہوگا اور انھیں اپنی معاف شدہ لغزشیں بھی بڑے گناہوں کی طرح۔ خطرناک محسوس ہوگی۔
(3) لوگ انبیاء کرام کو انکا بلند مقام اور فضائل یاد دلا کر کوشش کریں گے کہ وہ اللہ سے انکی شفاعت کریں لیکن ہر نبی دوسرے نبی کے پاس جانے کا مشورہ دے کر خود شفاعت کرنے سے معذرت کرلے گا۔
(4) شفاعت کبرٰی کا مقام نبیﷺ کے لیے مخصوص ہے۔ اس لیے جب نبیﷺ کو کہا جائیگا تو آپﷺ معذرت نہیں کریں گے۔
(5) آپﷺ کے قلب مبارک میں بھی اللہ تعالی کی عظمت کا احساس پوری طرح موجود ہوگا اس لیے براہ راست اصل مقصود عرض کرنے کی بجائےپہلے سجدہ کرکے اللہ کی حمد و ثناء بیان کریں گے۔
(6) سجدہ بندے کو اللہ کا قرب بخشنے والی عظیم عبادت ہےاور دعا کے آداب میں یہ شامل ہے۔ کہ پہلے حمد و ثناء بیان کی جائےاور درود پڑھا جائے پھر دعا کی جائے۔
(7) رسولﷺ اللہ تعالی سے اجازت طلب کریں گے۔ پھر مقام شفاعت پہ تشریف لے جائیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالی مالک الملک اور شہنشاہ ہے۔ اور نبیﷺ اس کے ایک مقرب بندے ہیں جو درخواست پیش کر سکتے ہیں۔ اور قبولیت کی امید رکھ سکتے ہیں لیکن اللہ کے حکم کے برعکس کچھ نہیں کر سکتے۔
(8) رسولﷺ عالم الغیب نہیں تھے اس لیے اللہ کی اس وقت جو تعریفیں کریں گے وہ اسی وقت سکھائی جائیں گی۔ پہلے سے معلوم نہیں ہوگی۔
(9) رسول اللہﷺ بھی اللہ کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں فرمائیں گے اور جو شفاعت ملے گی وہ بھی لامحدود نہیں ہوگی۔
(10) سب لوگوں کے ایمان برابر نہیں ہوتے بلکہ کم و بیش ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص کے ایمان میں بھی اس کے اعمال کی وجہ سے کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ جنھیں قرآن نے روک دیا وہ نبی پہ ایمان نہ لانے والے اور شرک اکبر کے مرتکب اعتقادی اور منافق ہے۔ جن پہ جنت حرام ہے۔ ان کے حق میں کسی کو سفارش کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4312
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1238
1238- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شفاعت کا تذکرہ کیا گیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں جنت کی کنڈی پکڑا کر اسے کھٹکھٹاؤں گا۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1238]
فائدہ: اس حدیث سے جنت کے دروازے کا حلقہ ثابت ہوتا ہے، اس حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا روز قیامت سفارش کرنا بھی ثابت ہوتا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1236
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 478
حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس نے "لا إله إلا الله" کہا، اور اس کے دل میں جَو کے دانہ کے برابر خیر ہوگی اس کو دوزخ سے نکالا جائے گا، پھر آگ سےاس کو نکالا جائے گا، جس نے "لا إله إلا الله" کہا، اور اس کے دل میں گندم کے دانہ کے برابر خیر ہو گی، پھر آگ سے وہ نکالا جائے گا، جس نے "لا إله إلا الله" کہا، اور اس کے دل میں ذرہ برابر نیکی ہوگی۔“ ابنِ منہال... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:478]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : ذَرّةٌ: ذال پر زبر ہے، اور (راء) پر شد ہے۔ معنی ہے، ”سورج کی شعاعوں میں نظر آنے والا ذرہ“ یا ”چھوٹی چیونٹی“ اگر ذال پر پیش ہو اور (راء) مخفف ہو، جیسا کہ شعبہ کی روایت ہے، تو معنی ہو گا، ”چنا، جو، جوار، باجرہ کی طرح ایک چھوٹا سا دانہ۔ “