الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
75. بَابُ قُدُومُ الأَشْعَرِيِّينَ وَأَهْلِ الْيَمَنِ:
75. باب: قبیلہ اشعر اور اہل یمن کی آمد کا بیان۔
حدیث نمبر: 4391
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا مَعَ ابْنِ مَسْعُودٍ فَجَاءَ خَبَّابٌ، فَقَالَ" يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَيَسْتَطِيعُ هَؤُلَاءِ الشَّبَابُ أَنْ يَقْرَءُوا كَمَا تَقْرَأُ؟" قَالَ:" أَمَا إِنَّكَ لَوْ شِئْتَ أَمَرْتُ بَعْضَهُمْ يَقْرَأُ عَلَيْكَ"، قَالَ: أَجَلْ، قَالَ:" اقْرَأْ يَا عَلْقَمَةُ"، فَقَالَ زَيْدُ بْنُ حُدَيْرٍ أَخُو زِيَادِ بْنِ حُدَيْرٍ:" أَتَأْمُرُ عَلْقَمَةَ أَنْ يَقْرَأَ وَلَيْسَ بِأَقْرَئِنَا؟" قَالَ:" أَمَا إِنَّكَ إِنْ شِئْتَ أَخْبَرْتُكَ بِمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْمِكَ وَقَوْمِهِ، فَقَرَأْتُ خَمْسِينَ آيَةً مِنْ سُورَةِ مَرْيَمَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:" كَيْفَ تَرَى؟" قَالَ:" قَدْ أَحْسَنَ"، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:" مَا أَقْرَأُ شَيْئًا إِلَّا وَهُوَ يَقْرَؤُهُ"، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى خَبَّابٍ وَعَلَيْهِ خَاتَمٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ:" أَلَمْ يَأْنِ لِهَذَا الْخَاتَمِ أَنْ يُلْقَى؟" قَالَ:" أَمَا إِنَّكَ لَنْ تَرَاهُ عَلَيَّ بَعْدَ الْيَوْمِ" فَأَلْقَاهُ.رَوَاهُ غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ.
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ محمد بن میمون نے، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے اور ان سے علقمہ نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں خباب بن ارت رضی اللہ عنہ مشہور صحابی تشریف لائے اور کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا یہ نوجوان لوگ (جو تمہارے شاگرد ہیں) اسی طرح قرآن پڑھ سکتے ہیں جیسے آپ پڑھتے ہیں؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں کسی سے تلاوت کے لیے کہوں؟ انہوں نے فرمایا کہ ضرور۔ اس پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: علقمہ! تم پڑھو، زید بن حدیر، زیاد بن حدیر کے بھائی، بولے آپ علقمہ سے تلاوت قرآن کے لیے فرماتے ہیں حالانکہ وہ ہم سب سے اچھے قاری نہیں ہیں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا اگر تم چاہو تو میں تمہیں وہ حدیث سنا دوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری قوم کے حق میں فرمائی تھی۔ خیر علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے سورۃ مریم کی پچاس آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے خباب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہو کیسا پڑھتا ہے؟ خباب رضی اللہ عنہ نے کہا بہت خوب پڑھا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جو آیت بھی میں جس طرح پڑھتا ہوں علقمہ بھی اسی طرح پڑھتا ہے، پھر انہوں نے خباب رضی اللہ عنہ کو دیکھا، ان کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی تھی، تو کہا: کیا ابھی وقت نہیں آیا ہے کہ یہ انگوٹھی پھینک دی جائے۔ خباب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آج کے بعد آپ یہ انگوٹھی میرے ہاتھ میں نہیں دیکھیں گے۔ چنانچہ انہوں نے انگوٹھی اتار دی۔ اسی حدیث کو غندر نے شعبہ سے روایت کیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4391]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريأما إنك إن شئت أخبرتك بما قال النبي في قومك وقومه ألم يأن لهذا الخاتم أن يلقى

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4391 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4391  
حدیث حاشیہ:
زید بن حدیر بنو اسد میں سے تھے، آنحضرت ﷺ نے جہینہ کو بنو اسد اور غطفان سے بتلایا اور علقمہ نخع قبیلے کے تھے۔
امام احمد اور بزار نے ابن مسعود ؓ سے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نخع قبیلے کے لیے دعا فرمایا کرتے تھے، اس کی تعریف کر تے یہاں تک کہ میں نے تمنا کی کہ کاش! میں بھی اس قبیلے سے ہوتا۔
غندر کی روایت کو ابو نعیم نے مستخرج کے اندر وصل کیا ہے۔
شاید خباب سونا پہننے کو مکروہ تنزیہی سمجھتے ہوں۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی تنبیہ پر کہ سونا پہننا حرام ہے، انہوں نے اس انگو ٹھی کو نکال پھینکا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4391   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4391  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طرح ہے کہ اس حدیث میں حضرت علقمہ کا ذکر خیر ہے جن کا تعلق یمن کے مشہور قبیلے نخع سے ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ قبیلہ نخع کے لیے اس قدر دعا کی یا اس قدر تعریف فرمائی کہ مجھے قبیلہ نخع سے ہونے کا شوق لا حق ہوا۔
(مسند أحمد: 84/4۔
والسلسلة الصحیحة للألباني، حدیث: 3435)

اس کے برعکس زیدبن حدیر قبیلہ بنو اسد سے ہیں جس کی رسول اللہ ﷺ نے مذمت فرمائی کہ قبیلہ جہینہ بنو اسد اور غطفان سے بہتر ہے۔
اسی فضیلت کی وجہ سے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے حضرت علقمہ کی قرآءت کو ترجیح دی۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے نزدیک شاگرد ہونے کے اعتبار سے دونوں برابر حیثیت رکھتے تھے لیکن علقمہ کی اصل زید کی اصل سے بہت تھی اس سے حضرت علقمہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین اسلام کے کچھ احکام صحابہ کرام ؓ سے مخفی تھے تاہم جب انھیں اس کی حقیقت کا پتہ چلتا تو اس سے فوراً رجوع کر لیتے۔
(فتح الباري: 126/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4391