ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے، کہا ہم سے بکر بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا کہ انس رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھا تھا اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ حج ہی کا احرام باندھا تھا۔ پھر ہم جب مکہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو وہ اپنے حج کے احرام کو عمرہ کا احرام کر لے (اور طواف اور سعی کر کے احرام کھول دے) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کا جانور تھا۔ پھر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یمن سے لوٹ کر حج کا احرام باندھ کر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم نے کس طرح احرام باندھا ہے؟ ہمارے ساتھ تمہاری زوجہ فاطمہ بھی ہیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اسی طرح کا احرام باندھا ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اپنے احرام پر قائم رہو، کیونکہ ہمارے ساتھ قربانی کا جانور ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4354]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4354
حدیث حاشیہ: ان جملہ روایات میں کسی نہ کسی پہلوسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یمن جانا مذکور ہے۔ باب سے یہی وجہ مطابقت ہے اور اسی لیے ان روایات کو یہاں لایا گیا ہے۔ باقی حج کے دیگر مسائل بھی ان سے ثابت ہوتے ہیں جیسا کہ کتاب الحج میں گذرچکا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4354
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4354
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ بھی یمن سے بغرض حج آئے تھے لیکن ان کے ساتھ قربانی کے جانورنہیں تھے، اس لیے انھیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ تم عمرہ کرکے احرام کھول دو لیکن حضرت علی ؓ جب یمن سے آئے تو ان کے ساتھ قربانی کے جانور تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں اپنے احرام پرباقی رہنے کا حکم دیا۔ 2۔ ان احادیث میں حضرت علی ؓ کے یمن جانے کاذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے ان روایات کو بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ حج کے مسائل بھی ان سے ثابت ہوئے ہیں جو کتاب الحج میں بیان ہوچکے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4354
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1796
´حج قران کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات ذی الحلیفہ میں گزاری، یہاں تک کہ صبح ہو گئی پھر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب سواری آپ کو لے کر بیداء پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تحمید، تسبیح اور تکبیر بیان کی، پھر حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا، اور لوگوں نے بھی ان دونوں کا احرام باندھا، پھر جب ہم لوگ (مکہ) آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو (احرام کھولنے کا) حکم دیا، انہوں نے احرام کھول دیا، یہاں تک کہ جب یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) آیا تو لوگوں نے حج کا احرام باندھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات اونٹنیاں کھڑی کر کے اپنے ہاتھ سے نحر کیں ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جو بات اس روایت میں منفرد ہے وہ یہ کہ انہوں نے (یعنی انس رضی اللہ عنہ نے) کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے «الحمدلله، سبحان الله والله أكبر» کہا پھر حج کا تلبیہ پکارا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1796]
1796. اردو حاشیہ: ان احادیث کے بیانات میں تعارض نہیں بلکہ تنوع ہے۔ حضرات صحابہ سامعین وناظرین کو جو جو معلوم ہوا انہوں نے وہی بیان کر دیا۔گزشتہ احادیث میں ہے کہ آپ نے نماز ظہر کے بعد اپنے مصلے ہی پر تلبیہ کہا پھر سواری پر بیٹھ کر کہا پھر بیداء کی بلندی پر چڑھنے ہوئے کہا اور یہ سب برحق ہیں اور اس اثنا میں تسبیح وتکبیر بلاشبہ جائز بلکہ مطلوب عمل ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1796
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2934
´حج و عمرہ کا احرام ایک ساتھ باندھنے والے کے پاس ہدی نہ ہو تو وہ کیسے کرے؟` انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور ہم بھی آپ کے ساتھ نکلے۔ جب ذوالحلیفہ پہنچے تو آپ نے ظہر پڑھی، پھر اپنی سواری پر سوار ہوئے اور جب وہ بیداء میں آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہوئی تو آپ نے حج و عمرہ دونوں کا ایک ساتھ تلبیہ پکارا، ہم نے بھی آپ کے ساتھ تلبیہ پکارا پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ آئے، اور ہم نے طواف کر لیا تو آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ احرام کھول کر حلال ہو جائیں۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2934]
اردو حاشہ: پیچھے کئی مقامات پر یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا احرام ایک جیسا نہ تھا۔ کسی کا احرام صرف عمرے کا تھا، کسی کا صرف حج کا۔ مکہ مکرمہ کے قریب رسول اللہﷺ نے سب کو عمرہ کرنے کا حکم دیا۔ جن کا حج کا احرام تھا، انھیں احرام کو عمرے میں تبدیل کرنے کا حکم دیا۔ لوگ عمرہ کر کے حلال ہوگئے۔ جن کے پاس قربانی کے جانور تھے، انھوں نے حج کے احرام میں عمرہ بھی داخل کر لیا۔ وہ عمرہ کرنے کے باوجود حلال نہ ہوئے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2934
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 956
´حج سے متعلق ایک اور باب۔` انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ علی رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمن سے آئے تو آپ نے پوچھا: ”تم نے کیا تلبیہ پکارا، اور کون سا احرام باندھا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: میں نے وہی تلبیہ پکارا، اور اسی کا احرام باندھا ہے جس کا تلبیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا، اور جو احرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے ۱؎ آپ نے فرمایا: ”اگر میرے ساتھ ہدی کے جانور نہ ہوتے تو میں احرام کھول دیتا“۲؎، [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 956]
اردو حاشہ: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے احرام کو دوسرے کے احرام پر معلق کرناجائزہے۔ 2؎: یعنی: عمرہ کے بعد احرام کھول دیتا، پھر 8؍ذی الحجہ کو حج کے لیے دوبارہ احرام باندھتا، جیسا کہ حج تمتع میں کیا جاتا ہے، مذکورہ مجبوری کی وجہ سے آپ نے قران ہی کیا، ورنہ تمتع کرتے، اس لیے تمتع افضل ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 956
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1558
1558. حضرت انس بن مالک ؓ سےروایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حضرت علی ؓ یمن سے نبی کریم ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا: ”تم نے کس چیز کا احرام باندھا ہے؟“ انھوں نے عرض کیا کہ میں نے وہی احرام باندھا ہے جو نبی کریم ﷺ کا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اگر میرے ساتھ قربانی نہ ہوتی تو میں بھی احرام کھول دیتا۔“ محمد بن ابی بکر کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اے علی! تم نے کس چیز کا احرام باندھا ہے؟“ انھوں نے عرض کیا کہ جس چیز کا نبی کریم ﷺ نے احرام باندھا ہے رسول اللہ ﷺ نے حضر ت علی ؓ کوحکم دیا: ”اپنی قربانی کو قابو میں رکھو اور جیسے اس کا وقت ہو اسی حالت میں محرم رہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1558]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے جمہور ائمہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ مبہم احرام باندھنا جائز ہے، پھر اسے موقع و محل کی مناسبت سے جدھر چاہے پھیر سکتا ہے، جیسا کہ حضرت علی ؓ نے احرام باندھا اور اسے رسول اللہ ﷺ کے احرام کے مثل قرار دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کا انکار نہیں کیا۔ چونکہ حضرت علی ؓ احرام کی کیفیت نہ جانتے تھے، اس لیے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے احرام کی مثل نیت کر لی۔ (2) امام بخاری ؒ کے عنوان سے ان کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کرنا زمانہ نبوت کے ساتھ خاص تھا، کیونکہ زمانہ وحی تھا اور احکام کا نزول ہوتا رہتا تھا، اب چونکہ دین اسلام مکمل ہو چکا ہے، اس لیے اب احرام کے وقت نیت کا تعین کرنا ضروری ہے۔ اب احرام کو کسی بزرگ کے احرام کی مثل قرار دینا صحیح نہیں، (فتح الباري: 525/3) اس لیے بھی کہ احرام کی تمام صورتیں معلوم ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معلوم نہ تھیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1558