ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے عمرو بن یحییٰ نے، ان سے عباد بن تمیم نے، ان سے عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو غنیمت دی تھی آپ نے اس کی تقسیم کمزور ایمان کے لوگوں میں (جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے) کر دی اور انصار کو اس میں سے کچھ نہیں دیا۔ اس کا انہیں کچھ ملال ہوا کہ وہ مال جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کو دیا انہیں کیوں نہیں دیا۔ آپ نے اس کے بعد انہیں خطاب کیا اور فرمایا: اے انصاریو! کیا میں نے تمہیں گمراہ نہیں پایا تھا پھر تم کو میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب کی اور تم میں آپس میں دشمنی اور نااتفاقی تھی تو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تم میں باہم الفت پیدا کی اور تم محتاج تھے اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ غنی کیا۔ آپ کے ایک ایک جملے پر انصار کہتے جاتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ہم سب سے زیادہ احسان مند ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری باتوں کا جواب دینے سے تمہیں کیا چیز مانع رہی؟ بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر اشارہ پر انصار عرض کرتے جاتے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ہم سب سے زیادہ احسان مند ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے تو مجھ سے اس طرح بھی کہہ سکتے تھے (کہ آپ آئے تو لوگ آپ کو جھٹلا رہے تھے، لیکن ہم نے آپ کی تصدیق کی وغیرہ) کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جب لوگ اونٹ اور بکریاں لے جا رہے ہوں تو تم اپنے گھروں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے جاؤ؟ اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک آدمی ہوتا۔ لوگ خواہ کسی گھاٹی یا وادی میں رہیں گے میں تو انصار کی گھاٹی اور وادی میں رہوں گا۔ انصار استر کی طرح ہیں جو جسم سے ہمیشہ لگا رہتا ہے اور دوسرے لوگ اوپر کے کپڑے یعنی ابرہ کی طرح ہیں۔ تم لوگ (انصار) دیکھو گے کہ میرے بعد تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی۔ تم ایسے وقت میں صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر آ ملو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4330]
ألم أجدكم ضلالا فهداكم الله بي وكنتم متفرقين فألفكم الله بي وعالة فأغناكم الله بي كلما قال شيئا قالوا الله ورسوله أمن قال ما يمنعكم أن تجيبوا رسول الله قال كلما قال شيئا قالوا الله ورسوله أمن قال لو شئتم قلتم جئتنا كذا وكذا
ألم أجدكم ضلالا فهداكم الله بي وعالة فأغناكم الله بي ومتفرقين فجمعكم الله بي ويقولون الله ورسوله أمن فقال ألا تجيبوني فقالوا الله ورسوله أمن فقال أما إنكم لو شئتم أن تقولوا كذا وكذا وكان من الأمر كذا وكذا لأشياء عددها
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4330
حدیث حاشیہ: اس حدیث کی سند میں حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم زمانی کا ذکر ہے جو مشہور صحابی ہیں۔ کہتے ہیں مسیلمہ کذاب کو انہوں نے ہی ماراتھا۔ یہ واقعہ حرہ سنہ63 ھ میں یزید کی فوج کے ہاتھ سے شہید ہوئے۔ روایت میں آنحضرت ﷺ کے مال کے تقسیم کر نے کا ذکر ہے۔ آپ نے یہ مال قریش کے ان لوگو ں کو دیا تھاجو نومسلم تھے، ابھی ان کا اسلام مضبوط نہیں ہوا تھا، جیسے ابوسفیان، سہیل، حویطب، حکیم بن حزام، ابو السنابل، صفوان بن امیہ، عبد الرحمن بن یربوع وغیرہ۔ شعار سے مراد استر میں سے نیچے کا کپڑا اور دثار سے ابرہ یعنی اوپر کا کپڑا مراد ہے۔ انصار کے لیے آپ نے یہ شرف عطا فرمایا کہ ان کو ہر وقت اپنے جسم مبارک سے لگے ہوئے کپڑے کے مثل قرار دیا۔ فی الواقع قیامت تک کے لیے یہ شرف انصار مدینہ کو حاصل ہے کہ آپ ان کے شہر میں آرام فرما رہے ہیں۔ (ﷺ)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4330
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4330
حدیث حاشیہ: 1۔ فتح مکہ کے وقت کچھ لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، ان کا اسلام کمزورتھا، ان کے دل جمانے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں بہت سا مال دیا، انھیں مؤلفۃ القلوب کہا جاتا ہے۔ مؤرخین نے چالیس سے کچھ زیادہ حضرات کے نام ذکر کیے ہیں۔ اس تقسیم پر انصار غمناک ہوئے تو آپ نے انھیں حقیقت حال سے خبردار کیا، پھر آپ نے انصار کی دل جوئی فرمائی جس سے یہ حضرات خوش ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے مزید تواضع اور انکسار کرتے ہوئے فرمایا: ”اگرتم چاہو تو کہہ سکتے ہو کہ آپ ہمارے پاس آئے، لوگوں نے آپ کو جھوٹا کہا، لیکن ہم نے آپ کو سچا جانا۔ آپ کمزور تھے ہم نے آپ کی مدد کی۔ آپ تنہا تھے ہم نے آپ کو جگہ دی اورآپ کی ہرطرح سے موافقت کی۔ “ یہ سب کچھ آپ نے بطور تواضع فرمایا تھا ورنہ نصرت ومواسات وغیرہ اللہ کی توفیق اور اس کی عنایات کا نتیجہ تھا۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ نے انصار کو خبردار کیا کہ اللہ تعالیٰ کا تم پر بڑا احسان ہے، اس سے غفلت نہ کرو، دنیا فانی کے اسباب لے کر کیا کرو گے اور انھیں کب تک استعمال کرو گے۔ (فتح الباري: 64/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4330
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2446
حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین فتح کر کے غنیمتیں تقسیم کیں تو جن کی تالیف قلب مقصود تھی ان کو خوب عطا فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی کہ انصار بھی دوسرے لوگوں کی طرح حصہ لینا چاہتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر انہیں خطاب فرمایا۔ اللہ تعالی نہ حمد و ثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا: ”ا ے انصار! کیا میں نے تم کو گمراہ نہیں پایا تھا، اور اللہ نے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2446]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) شعار: وہ کپڑا جو جسم پر لگتا ہے یعنی اندرونی کپڑا، مقصود یہ ہے انصار میرے خصوصی اور جگری، قابل اعتماد ساتھی ہیں۔ (2) دثار: اوپر والا یعنی بیرونی کپڑا، عام لوگ دوسرے درجہ پر اور انصار کے بعد ہیں۔ فوائد ومسائل: 1۔ بعض دفعہ کوئی معاملہ یا رویہ ساتھیوں کے لیے غلط فہمی کا باعث بن جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے جذبات مشتعل ہو جاتے ہیں۔ تو ایسے وقت میں اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ ان کے سامنے معاملے کی اصل حقیقت کھول کر بیان کی جائے تاکہ ان کی غلط فہمی دور کی جائے اور جذبات ٹھنڈے پڑ جائیں۔ اگر معاملہ پرفوری طور پر قابو نہ پایا جائے اور ساتھیوں کو مطمئن کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو معاملہ آہستہ آہستہ سنگین ہو جاتا ہے۔ بدظنیاں بڑھتی رہتی ہیں اور کسی دن جذبات کا لاوا پھٹ جاتا ہے اور نئے نئے مسائل جنم لیتے ہیں جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے عام طور پر اصحاب اقتدار اپنے ساتھیوں کو اعتماد میں نہیں لیتے اور آہستہ آہستہ دلوں میں کدورت اور بغض پیدا ہوتا رہتا ہے جو کسی بھی ضرورت کے وقت خرابی کا باعث بن جاتا ہے۔ نیز اولین حیثیت دین وایمان اور عقیدہ کو حاصل ہے کیونکہ وہ اعتماد کی بنیاد ہے۔ اگراعتماد برقرار ہوتو ساتھیوں کوراضی اور مطمئن کرنا آسان ہے اوربد اعتمادی کی فضاء میں راضی کرنا آسان نہیں ہے۔ جبکہ آج کل اول و آخر حیثیت مالی مفادات کوحاصل ہے جن کو مالی مفادات نہیں ملتے وہ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ اور مالی مفادات کی خاطر دشمن کو بھی دوست بنا لیتے ہیں۔ اس لیے تمام معاملات دگرگوں ہوگئے ہیں اور اتحاد ویگانت کا فقدان ہے۔ 2۔ آپ نے واقعہ حنین میں جس ترجیح اور برتری سے انصار کو آگاہ فرمایا تھا وہ شیخین(ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ادوار کے بعد ظاہر ہوگیا۔ حکومتی اور انتظامی ادوار میں انہیں نظر انداز کردیاگیا جس کے بُرے اثرات بھی نکلے۔ 3۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انصار تم کہہ سکتے ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے آپ کی تکذیب کی اور ہم نے آپ کی تصدیق کی، انہوں نے آپ کو بے یارومددگار چھوڑدیا، ہم نے آپ کی نصرت وحمایت کی، انہوں نے آپ کو نکال دیا اور ہم نے آپ کو جگہ دی، ضرورت کے وقت ہم نے آپ کی ہمدردی اورغمگساری کی، لیکن انہوں نے جواب دیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان ہے۔ بہرحال آپ نے ہر اعتبار سے انصار کی دل جوئی فرمائی اور ان کو اپنے قریبی اور خصوصی ساتھی ہونے کا احساس دلوایا اور بتایا میرا مرنا، جینا تمہارے ہی ساتھ ہے۔ میرے دل میں تمہاری محبت احترام میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی اور دوسرے مجھے تم سے قریب اور عزیز نہیں ہوگئے ہیں۔ میں نےمحض ان کی تالیف قلبی کے لیے ان کو مال دیا ہے اور تمہیں تالیف قلبی کی ضرورت نہیں ہے۔