ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے ‘ ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے لیے روانہ ہوئے تو قریش کو اس کی خبر مل گئی تھی۔، چنانچہ ابوسفیان بن حرب ‘ حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں معلومات کے لیے مکہ سے نکلے۔ یہ لوگ چلتے چلتے مقام مر الظہران پر جب پہنچے تو انہیں جگہ جگہ آگ جلتی ہوئی دکھائی دی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مقام عرفات کی آگ ہے۔ ابوسفیان نے کہا یہ آگ کیسی ہے؟ یہ عرفات کی آگ کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ اس پر بدیل بن ورقاء نے کہا کہ یہ بنی عمرو (یعنی قباء کے قبیلے) کی آگ ہے۔ ابوسفیان نے کہا کہ بنی عمرو کی تعداد اس سے بہت کم ہے۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ دستے نے انہیں دیکھ لیا اور ان کو پکڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے ‘ پھر ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے (مکہ کی طرف) بڑھے تو عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ابوسفیان کو ایسی جگہ پر روکے رکھو جہاں گھوڑوں کا جاتے وقت ہجوم ہو تاکہ وہ مسلمانوں کی فوجی قوت کو دیکھ لیں۔ چنانچہ عباس رضی اللہ عنہ انہیں ایسے ہی مقام پر روک کر کھڑے ہو گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قبائل کے دستے ایک ایک کر کے ابوسفیان کے سامنے سے گزرنے لگے۔ ایک دستہ گزرا تو انہوں نے پوچھا: عباس! یہ کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ قبیلہ غفار ہے۔ ابوسفیان نے کہا کہ مجھے غفار سے کیا سروکار ‘ پھر قبیلہ جہینہ گزرا تو ان کے متعلق بھی انہوں نے یہی کہا ‘ قبیلہ سلیم گزرا تو ان کے متعلق بھی یہی کہا۔ آخر ایک دستہ سامنے آیا۔ اس جیسا فوجی دستہ نہیں دیکھا گیا ہو گا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ انصار کا دستہ ہے۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اس کے امیر ہیں اور انہیں کے ہاتھ میں (انصار کا عَلم ہے) سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوسفیان! آج کا دن قتل عام کا دن ہے۔ آج کعبہ میں بھی لڑنا درست کر دیا گیا ہے۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ اس پر بولے: اے عباس! (قریش کی ہلاکت و بربادی کا دن اچھا آ لگا ہے۔ پھر ایک اور دستہ آیا یہ سب سے چھوٹا دستہ تھا۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عَلم زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ اٹھائے ہوئے تھے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان کے قریب سے گزرے تو انہوں نے کہا آپ کو معلوم نہیں ‘ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کیا کہہ گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ انہوں نے کیا کہا ہے؟ تو ابوسفیان نے بتایا کہ یہ یہ کہہ گئے ہیں کہ آپ قریش کا کام تمام کر دیں گے۔ (سب کو قتل کر ڈالیں گے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سعد نے غلط کہا ہے بلکہ آج کا دن وہ ہے جس میں اللہ کعبہ کی عظمت اور زیادہ کر دے گا۔ آج کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا۔ عروہ نے بیان کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ آپ کا عَلم مقام جحون میں گاڑ دیا جائے۔ عروہ نے بیان کیا اور مجھے نافع بن جبیر بن مطعم نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے عباس رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے کہا (فتح مکہ کے بعد) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہیں جھنڈا گاڑنے کے لیے حکم فرمایا تھا۔ راوی نے بیان کیا کہ اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ مکہ کے بالائی علاقہ کداء کی طرف سے داخل ہوں اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کداء (نشیبی علاقہ) کی طرف سے داخل ہوئے۔ اس دن خالد رضی اللہ عنہ کے دستہ کے دو صحابی ‘ حبیش بن اشعر اور کرز بن جابر فہری شہید ہوئے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4280]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4280
حدیث حاشیہ: روایت میں مر الظہران ایک مقام کا نام ہے مکہ سے ایک منزل کی دوری پرواقع ہے۔ اب اس کو وادی فاطمہ کہتے ہیں۔ عرفات میں حاجیوں کی عادت تھی کہ ہر ایک آگ سلگا تا۔ کہتے ہیں آنحضرت ﷺ نے صحابہ ؓ کو الگ الگ جلانے کا حکم فرما یا۔ چنانچہ ہزاروں جگہ آ گ روشن کی گئی۔ روایت کے آ خر میں لفظ حبذا یوم الذمار کا ترجمہ بعضوں نے یوں کیا ہے۔ ”وہ دن اچھا ہے جب تم کو مجھے بچانا چاہیے۔ “ کہتے ہیں آنحضرت ﷺ سامنے سے گزرے تو ابو سفیان ؓ نے آپ کو قسم دے کر پوچھا کیا آپ نے اپنی قوم کے قتل کرنے کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ ابو سفیان ؓ نے سعد بن عبادہ ؓ کا کہنا بیان کیا۔ آپ نے فرمایا نہیں آج تو رحمت اور کرم کا دن ہے۔ آج اللہ قریش کو عزت دے گا اور سعد ؓ سے جھنڈا لے کر ان کی بجائے قیس کو دیا۔ فتح مکہ کے دن علم نبوی مقام جحون میں گاڑا گیا تھا۔ کدآ بالمد اور کدا بالقصر دونوں مقاموں کے نام ہیں۔ پہلا مقام مکہ کے بالائی جانب میں ہے اور دوسرا نشیبی جانب میں۔ جب خالد بن ولید ؓ فوج کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے تو صفوان بن امیہ اور سہیل بن عمرو نے کچھ آدمیوں کے ساتھ مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔ کافر12-13 مارے گئے اور مسلمان دو شہید ہوئے۔ روایت میں مذکور شدہ حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب ؓ ہیں جو رسول کریم ﷺ کے چچیرے بھائی ہوتے ہیں۔ یہ شاعر بھی تھے اور ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کی ہجو میں انہوں نے ایک قصیدہ کہا تھا، جس کا جواب حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بڑے شاندار شعروں میں دیا تھا۔ فتح کے دن اسلام لانے کا ارادہ کر رہے تھے مگر پچھلے حالات یاد کر کے شرم کے مارے سر نہیں اٹھارہے تھے آخر حضرت علی ؓ نے کہا کہ آپ آنحضرت ﷺ کے منہ مبارک کی طرف منہ کرکے وہ الفاظ کہہ دیجئے جو حضرت یوسف ؑ کے سامنے ان کے خطا کار بھائیوں نے کہے تھے۔ ﴿ قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَإِنْ كُنَّا لَخَاطِئِينَ﴾(یوسف: 91) یعنی اللہ کی قسم! آپ کو اللہ نے ہمارے اوپر بڑی فضیلت بخشی اور ہم بلا شک خطا کار ہیں۔ آپ یہ الفاظ کہیں گے تو رسول کریم ﷺ کے الفاظ بھی جواب میں وہی ہوں گے جو حضرت یوسف ؑ کے تھے۔ ﴿قَالَ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ﴾(یوسف: 92) اے بھائیو! آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ اللہ تم کو بخشے وہ بہت بڑا رحم کرنے والا ہے۔ آخر مسلمان ہوئے اور اچھا پر خلوص اسلام لائے۔ آخر عمر میں حج کر رہے تھے جب حجام نے سر مونڈا تو سر میں ایک رسولی تھی اسے بھی کاٹ دیا یہی ان کی موت کا سبب ہوا۔ سنہ20 ھ میں وفات پائی۔ حضرت فاروق ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4280
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4280
حدیث حاشیہ: 1۔ مرالظہران مکہ سے مدینہ کے راستے پر تقریباً 25 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ آج کل اسے وادی فاطمہ کہتے ہیں۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ کو مرعوب کرنے کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو الگ الگ آگ جلانے کا حکم دیا تاکہ نفری کی کثرت کا اظہار ہو۔ عرفات میں حجاج کی عادت تھی کہ ہر ایک اپنی ضرورت کے مطابق آگ سلگاتاتھا، اس لیے ابوسفیان نے اسے میدان عرفات کی آگ سے تشبیہ دی۔ 3۔ جب خالد بن ولید ؓ فوجی دستے کے ہمراہ مکے میں داخل ہوئے تو صفوان بن امیہ اور سہیل بن عمرو نے کچھ آدمیوں کے ہمراہ مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔ اس معمولی سی جھڑپ میں بارہ،تیرہ کافرمارے گئے اور دو مسلمان بھی شہید ہوئے جن کا حدیث کے آخر میں ذکر ہے۔ 4۔ حرم کعبہ جائے امن ہونے کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے چند سرکش مرد اور عورتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: *۔ عبدالعزی بن خطل: ۔ یہ کعبہ کے غلاف میں چھپاہواتھا۔ ،اسے وہیں قتل کردیا گیا۔ عبداللہ بن سعد بن ابوسرح: ۔ مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوگیا۔ حضرت عثمان ؓ کی سفارش سے اس کی جان بخشی ہوئی۔ *۔ عکرمہ بن ابو جہل: ۔ یمن کی طرف بھاگ گیا۔ اس کی بیوی لے کرآئی۔ پھر وہ اپنی بیوی کے ہمراہ مسلمان ہوگیا۔ *۔ حویرث بن نقید۔ رسول اللہ ﷺ کو مکے میں سخت تکلیف پہنچاتا تھا۔ اسے فتح مکہ کے وقت قتل کردیا گیا۔ *۔ مقیس بن صبابہ۔ اس نے اسلام قبول کرلیا،پھر مرتد ہوگیا اور نمیلہ بن عبداللہ نے فتح مکہ کے وقت اسے قتل کردیا۔ *۔ ہبار بن اسود۔ اس نے سیدہ زینب ؓ کو ہجرت کے وقت سخت تکلیف دی لیکن اسلام قبول کرکے اپنی جان بچائی۔ *۔ حارث بن طلاطل خزاعی۔ اسے حضرت علی ؓ نے مکے میں قتل کیا۔ *۔ کعب بن زہیر اور وحشی بن حرب کو بھی قتل کردینے کا حکم تھا لیکن یہ دونوں مسلمان ہوگئے۔ *۔ ابن خطل کی دولونڈیاں تھی جن میں سے ایک مسلمان ہوگئی۔ دوسری قتل کردی گئی۔ *۔ سارہ جو حضرت حاطب ؓ کا خط لے کر مکہ جارہی تھی۔ یہ لونڈی مسلمان ہوگئی،اس لیے قتل ہونے سے بچ گئی۔ *۔ ام سعد کو فتح مکہ کے وقت قتل کردیا گیا تھا۔ اس طرح یہ تیرہ افراد تھے جنھیں قتل کرنے کاحکم دیا گیاتھا۔ (فتح الباری: 15/8۔ )
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4280