ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے۔ رات کے وقت ہمارا سفر جاری تھا کہ ایک صاحب (اسید بن حضیر) نے عامر سے کہا: عامر! اپنے کچھ شعر سناؤ ‘ عامر شاعر تھے۔ اس فرمائش پر وہ سواری سے اتر کر حدی خوانی کرنے لگے۔ کہا ”اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہمیں سیدھا راستہ نہ ملتا ‘ نہ ہم صدقہ کر سکتے اور نہ ہم نماز پڑھ سکتے۔ پس ہماری جلدی مغفرت کر، جب تک ہم زندہ ہیں ہماری جانیں تیرے راستے میں فدا ہیں اور اگر ہماری مڈبھیڑ ہو جائے تو ہمیں ثابت رکھ ہم پر سکینت نازل فرما، ہمیں جب (باطل کی طرف) بلایا جاتا ہے تو ہم انکار کر دیتے ہیں، آج چلا چلا کر وہ ہمارے خلاف میدان میں آئے ہیں۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون شعر کہہ رہا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ عامر بن اکوع ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے تو انہیں شہادت کا مستحق قرار دے دیا ‘ کاش! ابھی اور ہمیں ان سے فائدہ اٹھانے دیتے۔ پھر ہم خیبر آئے اور قلعہ کا محاصرہ کیا ‘ اس دوران ہمیں سخت تکالیف اور فاقوں سے گزرنا پڑا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا فرمائی۔ جس دن قلعہ فتح ہونا تھا ‘ اس کی رات جب ہوئی تو لشکر میں جگہ جگہ آگ جل رہی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ آگ کیسی ہے ‘ کس چیز کے لیے اسے جگہ جگہ جلا رکھا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم بولے کہ گوشت پکانے کے لیے ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کس جانور کا گوشت ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بتایا کہ پالتو گدھوں کا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام گوشت پھینک دو اور ہانڈیوں کو توڑ دو۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسا نہ کر لیں کہ گوشت تو پھینک دیں اور ہانڈیوں کو دھو لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں ہی کر لو پھر (دن میں جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے جنگ کے لیے) صف بندی کی تو چونکہ عامر رضی اللہ عنہ کی تلوار چھوٹی تھی ‘ اس لیے انہوں نے جب ایک یہودی کی پنڈلی پر (جھک کر) وار کرنا چاہا تو خود انہیں کی تلوار کی دھار سے ان کے گھٹنے کا اوپر کا حصہ زخمی ہو گیا اور ان کی شہادت اسی میں ہو گئی۔ بیان کیا کہ پھر جب لشکر واپس ہو رہا تھا تو سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ‘ کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا ‘ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ‘ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عامر رضی اللہ عنہ کا سارا عمل اکارت ہو گیا (کیونکہ خود اپنی ہی تلوار سے ان کی وفات ہوئی)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جھوٹا ہے وہ شخص جو اس طرح کی باتیں کرتا ہے ‘ انہیں تو دوہرا اجر ملے گا پھر آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ایک ساتھ ملایا ‘ انہوں نے تکلیف اور مشقت بھی اٹھائی اور اللہ کے راستے میں جہاد بھی کیا ‘ شاید ہی کوئی عربی ہو ‘ جس نے ان جیسی مثال قائم کی ہو۔ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ‘ ان سے حاتم نے (بجائے «مشى بها» کے) «نشأ بها» نقل کیا یعنی کوئی عرب مدینہ میں عامر رضی اللہ عنہ جیسا نہیں ہوا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4196]
اللهم لولا أنت ما اهتدينا ولا تصدقنا ولا صلينا فاغفر فداء لك ما أبقينا وألقين سكينة علينا وثبت الأقدام إن لاقينا إنا إذا صيح بنا أبينا وبالصياح عولوا علينا فقال رسول الله من هذا السائق قالوا عامر بن الأكوع قال يرحمه الله قال رجل من القوم وجبت يا نبي الله
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4196
حدیث حاشیہ: حدیث میں جنگ خیبر کے کچھ مناظر بیان ہوئے ہیں یہی باب سے وجہ مطابقت ہے۔ عامر ؓ شہید جن کا ذکر ہوا ہے رئیس خیبر مرحب نامی کے مقابلہ کے لیے نکلے تھے۔ ان کی تلوار خود ان ہی کے ہاتھ ان کے گھٹنے میں لگی اور وہ شہید ہو گئے۔ بعض لوگوں کو ان کے متعلق خود کشی کا شبہ ہوا جس کی اصلاح کے لیے رسول کریم ﷺ کو عامر ؓ کی فضیلت کا اظہار ضروری ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4196
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4196
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عامر ؓ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ کے حقیقی چچا تھے۔ وہ رئیس خیبر مرحب کے مقابلے کے لیے نکلے تو ان کی تلوار خود ان کے ہاتھ سے ان کے گھٹنے پر لگی اور وہ اس زخم کی تاب نہ لا کر شہید ہو گئے حضرت اسید خضیر ؓ کے ساتھ اور لوگوں نے ان کے متعلق خود کشی کا شبہ ظاہر کیا اور کہا کہ ان کے عمل تو ضائع ہو گئے۔ (صحیح البخاري، الدیات، حدیث: 6891) ان باتوں کا اثر حضرت سلمہ بن اکوع ؓ پر ہوا انھوں نے پریشانی کے عالم میں اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے لوگوں کی اصلاح کے لیے حضرت عامر ؓ کی فضیلت کا اظہار ضروری خیال کیا۔ 2۔ حضرت عامر ؓ نے جو اشعار پڑھے ہیں وہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے ہیں جو انھوں نے غزوہ خندق کے موقع پر پڑھے تھے لیکن اس حدیث میں ان اشعار کی نسبت حضرت عامر ؓ کی طرف کی گئی ہے یہ سرقہ نہیں بلکہ خیالات کی موافقت ہے۔ ممکن ہے کہ اشعار تو عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے ہوں لیکن حضرت عامر ؓ نے انھیں یاد کر لیا تھا اس لیے ان کی طرف منسوب کر دیے گے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں ممکن ہے کہ ان اشعار میں دونوں شعراء کا مضمون ملتا جلتا ہو کیونکہ دونوں کے اشعار میں کمی بیشی ہے۔ ایک کے اشعار کے کچھ ابیات ایسے ہیں جو دوسرے کے اشعار میں نہیں ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت عامر ؓ نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے اشعار سے مددلی ہو۔ (فتح الباري: 7/580) 3۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عامر ؓ نے جب اشعار پڑھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے عامر! تیرا پروردگار تجھے بخش دے۔ “(صحیح مسلم، الجهاد،حدیث: 4678۔ (1807) ) رسول اللہ ﷺ جب کسی شخص کو مخاطب کر کے یوں فرماتے تو وہ جنگ میں ضرور شہید ہو جاتا۔ حضرت عمر ؓ اس وقت اونٹ پر سوار تھے انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے دعائیہ کلمات سن کر عرض کی: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! آپ نے ہمیں ان سے مزید فائدہ کیوں نہیں اٹھانے دیا۔ (فتح الباري: 582/7) 4۔ چونکہ اس حدیث میں غزوہ خیبر کا ذکر ہے اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4196