ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ ان سے اسرائیل نے ‘ ان سے ابواسحاق نے ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ‘ تم لوگ (سورۃ انا فتحنا میں) فتح سے مراد مکہ کی فتح لیتے ہو۔ فتح مکہ تو بہرحال فتح ہی تھی لیکن ہم غزوہ حدیبیہ کی بیعت رضوان کو حقیقی فتح سمجھتے ہیں۔ اس دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چودہ سو آدمی تھے۔ حدیبیہ نامی ایک کنواں وہاں پر تھا ‘ ہم نے اس میں سے اتنا پانی کھینچا کہ اس کے اندر ایک قطرہ بھی پانی باقی نہ رہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر ہوئی (کہ پانی ختم ہو گیا ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کنویں پر تشریف لائے اور اس کے کنارے پر بیٹھ کر کسی ایک برتن میں پانی طلب فرمایا۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور کلی کی اور دعا فرمائی۔ پھر سارا پانی اس کنویں میں ڈال دیا۔ تھوڑی دیر کے لیے ہم نے کنویں کو یوں ہی رہنے دیا اور اس کے بعد جتنا ہم نے چاہا اس میں سے پانی پیا اور اپنی سواریوں کو پلایا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4150]
كنا يوم الحديبية أربع عشرة مائة والحديبية بئر فنزحناها حتى لم نترك فيها قطرة فجلس النبي على شفير البئر فدعا بماء فمضمض ومج في البئر فمكثنا غير بعيد ثم استقينا حتى روينا وروت أو صدرت ركائبنا
تعدون أنتم الفتح فتح مكة وقد كان فتح مكة فتحا ونحن نعد الفتح بيعة الرضوان يوم الحديبية كنا مع النبي أربع عشرة مائة والحديبية بئر فنزحناها فلم نترك فيها قطرة فبلغ ذلك النبي فأتاها فجلس على شفيرها ثم دعا بإناء من ماء فتوضأ ثم مضمض ودعا ثم صبه فيها فتركناها