ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا ‘ ان سے قتادہ نے بیان کیا ‘ انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کئے اور سوا اس عمرے کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے ساتھ کیا ‘ تمام عمرے ذیقعدہ (کے مہینے) میں کئے۔ حدیبیہ کا عمرہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذی قعدہ (کے مہینے) میں کرنے تشریف لے گئے پھر دوسرے سال (اس کی قضاء میں) آپ نے ذی قعدہ میں عمرہ کیا اور ایک عمرہ جعرانہ سے آپ نے کیا تھا ‘ جہاں غزوہ حنین کی غنیمت آپ نے تقسیم کی تھی۔ یہ بھی ذی قعدہ میں کیا تھا اور ایک عمرہ حج کے ساتھ کیا (جو ذی الحجہ میں کیا تھا)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4148]
اعتمر رسول الله أربع عمر كلهن في ذي القعدة إلا التي كانت مع حجته عمرة من الحديبية في ذي القعدة عمرة من العام المقبل في ذي القعدة عمرة من الجعرانة حيث قسم غنائم حنين في ذي القعدة عمرة مع حجته
اعتمر أربع عمر كلهن في ذي القعدة إلا التي مع حجته عمرة من زمن الحديبية في ذي القعدة عمرة من العام المقبل في ذي القعدة عمرة من جعرانة حيث قسم غنائم حنين في ذي القعدة عمرة مع حجته
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4148
حدیث حاشیہ: پہلا عمرہ جو حدیبیہ سے ذوالقعدہ میں ہوا، اس میں عمرے کے افعال ادا نہیں کیے تھے کیونکہ مشرکین مکہ نے آپ کو عمرہ کرنے سے روک دیا تھا، لیکن اس وقت عمرے کا احرام باندھا گیا تھا اورقربانی کے جانور بھی ساتھ تھے، اگرچہ طواف وغیرہ نہیں ہوا تھا، تاہم اسے عمرو شمار کیا گیا۔ جعرانہ کا عمرہ چونکہ رات کے وقت ادا کیا تھا، اس لیے کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کواس کا علم نہ ہو سکا کیونکہ آپ عشاء کے بعد عمرہ کرنے گئے اور صبح کی نماز واپس آکر پڑھی تھی، اس لیے کچھ حضرات کو اس عمرے کا علم نہ ہوسکا، ان میں سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بھی تھے، چنانچہ حضرت نافع کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جعرانہ سے عمرہ نہیں کیا، اگر آپ نے عمرہ کیا ہوتا تو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ پر مخفی نہ رہتا۔ (صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث: 3144) ممکن ہے کہ وہ اس وقت غائب ہوں یا وہ بھول گئے ہوں۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4148
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1994
´عمرے کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کئے اور وہ تمام ذی قعدہ میں تھے سوائے اس کے جسے آپ نے اپنے حج کے ساتھ ملایا تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہاں سے آگے کے الفاظ میں نے ابوالولید سے بھی سنے لیکن انہیں یاد نہیں رکھ سکا، البتہ ہدبہ کے الفاظ اچھی طرح یاد ہیں کہ: ایک حدیبیہ کے زمانے کا، یا حدیبیہ کا عمرہ، دوسرا ذی قعدہ میں قضاء کا عمرہ، تیسرا عمرہ ذی قعدہ میں جعرانہ کا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کا مال غنیمت تقسیم فرمایا، اور چوتھا وہ عمرہ جسے آپ نے اپنے حج کے ساتھ ملایا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1994]
1994. اردو حاشیہ: بعض لوگو کہتے ہیں کہ اگر آدمی حج کے مہینوں میں عمرہ کر لے تو اسے حج کرنالازمی ہوجاتاہے۔مگر اس کی کوئی حقیقت نہیں رسول اللہ ﷺ کے پہلے تینوں عمرے زو العقیدہ میں تھے جو حج کا مہینہ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1994
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 815
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کتنے حج کئے؟` جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حج کئے، دو حج ہجرت سے پہلے اور ایک حج ہجرت کے بعد، اس کے ساتھ آپ نے عمرہ بھی کیا اور ترسٹھ اونٹ ہدی کے طور پر ساتھ لے گئے اور باقی اونٹ یمن سے علی لے کر آئے۔ ان میں ابوجہل کا ایک اونٹ تھا۔ اس کی ناک میں چاندی کا ایک حلقہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نحر کیا، پھر آپ نے ہر اونٹ میں سے ایک ایک ٹکڑا لے کر اسے پکانے کا حکم دیا، تو پکایا گیا اور آپ نے اس کا شوربہ پیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 815]
اردو حاشہ: 1؎: ابن ماجہ کے یہاں ”عبدالرحمن بن داود“ نے ”زید بن حباب“ کی متابعت کی ہے، نیز ان کے یہاں اس کی ابن عباس رضی اللہ عنہا کی روایت شاہد بھی موجود ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 815
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3066
3066. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ نبی ﷺ نے جعرانہ کے مقام سے عمرے کا احرام باندھا جہاں پر آپ نے حنین کی غنائم تقسیم کی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3066]
حدیث حاشیہ: حنین ایک وادی ہے مکہ سے تین میل پر جہاں پر بڑی لڑائی ہوئی تھی۔ باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ آپ نے جعرانہ میں عین سفر میں اموال غنیمت کو تقسیم فرمایا‘ آج کل ایام حج میں حرم شریف سے جعرانہ کو ہر وقت گاڑیاں ملتی ہیں۔ ۱۹۷۰ء کے حج میں مجھ کو بھی جعرانہ جانے کا اتفاق ہوا۔ جہاں ایک وسیع مسجد اور کنواں ہے‘ پر فضا جگہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3066
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3066
3066. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ نبی ﷺ نے جعرانہ کے مقام سے عمرے کا احرام باندھا جہاں پر آپ نے حنین کی غنائم تقسیم کی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3066]
حدیث حاشیہ: کچھ اہل علم کا مؤقف ہے کہ غنیمت کا مال دارالحرب میں تقسیم نہ کیا جائے کیونکہ مفتوحہ علاقے پر مکمل کنٹرول غلبے کے بعد ہوتا ہے۔ پورا غلبہ غنیمت کا مال دارالسلام میں محفوظ کرنے ہی سے ہوسکتا ہے،اس لیے دارالحرب میں اسے تقسیم نہ کیا جائے۔ امام بخاری ؒنے ان کی تردید کرتے ہوئے ثابت کیاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مال غنیمت جعرانہ میں تقسیم کیا تھا جو اس وقت میدان جنگ تھا اور اسے دوران سفر میں تقسیم کرنا بھی جائز ہے جیساکہ مذکورہ بالاحدیث رافع سے معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3066