ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا، ان سے ان کے والد ایمن حبشی نے بیان کیا کہ میں جابر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم غزوہ خندق کے موقع پر خندق کھود رہے تھے کہ ایک بہت سخت قسم کی چٹان نکلی (جس پر کدال اور پھاوڑے کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا اس لیے خندق کی کھدائی میں رکاوٹ پیدا ہو گئی) صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے عرض کیا کہ خندق میں ایک چٹان ظاہر ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اندر اترتا ہوں۔ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور اس وقت (بھوک کی شدت کی وجہ سے) آپ کا پیٹ پتھر سے بندھا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدال اپنے ہاتھ میں لی اور چٹان پر اس سے مارا۔ چٹان (ایک ہی ضرب میں) بالو کے ڈھیر کی طرح بہہ گئی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے گھر جانے کی اجازت دیجئیے۔ (گھر آ کر) میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ آج میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (فاقوں کی وجہ سے) اس حالت میں دیکھا کہ صبر نہ ہو سکا۔ کیا تمہارے پاس (کھانے کی) کوئی چیز ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں کچھ جَو ہیں اور ایک بکری کا بچہ۔ میں نے بکری کے بچہ کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جَو پیسے۔ پھر گوشت کو ہم نے چولھے پر ہانڈی میں رکھا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آٹا گوندھا جا چکا تھا اور گوشت چولھے پر پکنے کے قریب تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے عرض کیا گھر کھانے کے لیے مختصر کھانا تیار ہے۔ یا رسول اللہ! آپ اپنے ساتھ ایک دو آدمیوں کو لے کر تشریف لے چلیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کتنا ہے؟ میں نے آپ کو سب کچھ بتا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو بہت ہے اور نہایت عمدہ و طیب ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی بیوی سے کہہ دو کہ چولھے سے ہانڈی نہ اتاریں اور نہ تنور سے روٹی نکالیں میں ابھی آ رہا ہوں۔ پھر صحابہ سے فرمایا کہ سب لوگ چلیں۔ چنانچہ تمام انصار و مہاجرین تیار ہو گئے۔ جب جابر رضی اللہ عنہ گھر پہنچے تو اپنی بیوی سے انہوں نے کہا اب کیا ہو گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام مہاجرین و انصار کو ساتھ لے کر تشریف لا رہے ہیں۔ انہوں نے پوچھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کچھ پوچھا بھی تھا؟ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اندر داخل ہو جاؤ لیکن اژدہام نہ ہونے پائے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم روٹی کا چورا کرنے لگے اور گوشت اس پر ڈالنے لگے۔ ہانڈی اور تنور دونوں ڈھکے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لیا اور صحابہ کے قریب کر دیا۔ پھر آپ نے گوشت اور روٹی نکالی۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر روٹی چورا کرتے جاتے اور گوشت اس میں ڈالتے جاتے۔ یہاں تک کہ تمام صحابہ شکم سیر ہو گئے اور کھانا بچ بھی گیا۔ آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جابر رضی اللہ عنہ کی بیوی سے) فرمایا کہ اب یہ کھانا تم خود کھاؤ اور لوگوں کے یہاں ہدیہ میں بھیجو کیونکہ لوگ آج کل فاقہ میں مبتلا ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4101]
لبثنا ثلاثة أيام لا نذوق ذواقا أخذ النبي المعول فضرب فعاد كثيبا أهيم طعيم لي فقم أنت يا رسول الله ورجل أو رجلان قال كم هو فذكرت له قال كثير طيب قال قل لها لا تنزع البرمة ولا الخبز من التنور حتى آتي فقال قوموا فقام المهاجرون والأنصار فلما دخل على امرأته قا
كنا مع رسول الله يوم الخندق نحفره فلبثنا ثلاثة أيام لا نطعم طعاما ولا نقدر عليه عرضت في الخندق كدية فجئت إلى رسول الله فقلت يا رسول الله هذه كدية قد عرضت في الخندق فرششنا عليها الماء فقام النبي وبطنه معصوب بحجر فأخذ المعول أو المسحاة ثم سمى ثلاثا ثم ضرب ف
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4101
حدیث حاشیہ: روایت میں غزوہ خندق کھودنے کا ذکر ہےمگر اوربھی بہت سے امور بیان میں آگئے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے شدت بھو ک سے پیٹ پرپتھر باندھنے کابھی صاف لفظوں میں ذکرہے۔ بعض لوگوں نے پتھر باندھنے کی تاویل کی ہے۔ کھانےمیں برکت کا ہونا رسول اللہ ﷺ کا معجزہ تھا جن کا توآپ سےبارہا ظہور ہواہے۔ یہی حضرت جابر ہیں جواپنے والد کی شہادت کےبعد قرض خواہوں کا قر ض چکانےکےلیے رسو ل کریمﷺ سےدعاؤں کےطالب ہوئےتھے۔ اس سلسلہ میں جب آپ گھر تشریف لائے اورواپس جانےلگے توجابر کےمنع کرنےکے باجود ان کی بیوی نے درخواست کی تھی کہ یارسول اللہ(ﷺ) میرے خاوند کےلیے دعائے خیر کر جائیے۔ آ پ نےدونوں کےلیے دعا کی تھی اوراس عورت نےکہا تھا کہ آپ ہمارے گھر میں تشریف لائیں اور یہ کیونکہ ممکن ہےکہ ہم آپ سےدعا کےطالب بھی نہ ہوں۔ (فتح)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4101
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4101
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا جب ہم خندق کھودرہے تھے تو اچانک ایک چٹان نمودار ہوئی جس پر کدال کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی تو آپ نے کدال اپنے ہاتھ میں لی، اور بسم اللہ پڑھ کر اسے چٹان پر مارا تو اس کا تیسرا حصہ ٹوٹ گیا۔ آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا: ”مجھے ملک شام کی چابیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں اس وقت اس کے سرخ محلات کو دیکھ رہا ہوں۔ “ پھر آپ نے دوسری ضرب لگائی تو اس کا دوسرا تہائی حصہ ٹوٹ گیا۔ آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا: ”مجھے ایران کی کنجیاں سونپ دی گئی ہیں اللہ کی قسم! میں اب اس ملک کے سفید محلات کو دیکھ رہا ہوں۔ “ پھر اللہ کا نام لے کر تیسری ضرب لگائی تو پوری چٹان ٹوٹ گئی۔ آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا: ”مجھے ملک یمن کی چابیاں دی گئی ہیں۔ اللہ قسم! میں اس مقام پر کھڑا صنعاء کے دروازے دیکھ رہا ہوں۔ “(مسند احمد: 303/4) 2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے طبرانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دس، دس صحابہ کرام پر مشتمل گروپ تشکیل دیے اور ایک گروپ کو دس ہاتھ خندق کھودنے کی ذمہ داری سونپی گئی خندق کھودتے کھودتے ایک سخت چٹان آئی جس نے کدال توڑدیے۔ صحابہ کرام ؓ نے حضرت سلمان ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا تاکہ اس صورت حال سے نمٹا جا سکے، چنانچہ آپ نے کدال لے کر ضرب لگائی تو چٹان میں دراڑیں پڑ گئیں اور اس سے چمک پیدا ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے نعرہ تکبیربلند کیا اور آپ کے ساتھ صحابہ کرام ؓ نے بھی اللہ اکبر کہا، آپ نے فرمایا: ”میں نے اس چمک میں شام کے محلات کو دیکھا۔ میرے پاس جبرئیل آئے اور انھوں نے کہا: ایک دن آپ کی امت ان محلات پر قابض ہو جائے گی۔ “ چنانچہ مسلمان اس بشارت سے بہت خوش ہوئے۔ (فتح الباري: 496/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4101